ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 41
سالن روٹی والی قوم
تفنن برطرف مگر غیر سنجیدہ اس لیے ہونا پڑ ا کہ خواتین کو سنجیدگی کے ساتھ اس معاملے کی نزاکت پر متوجہ نہیں کیا جا سکتا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ جدید دنیا میں صحت اور فٹنس ہر شخص کی زندگی کا اہم مسئلہ ہے ۔ لوگ اس کے لیے واک اور ایکسرسائز کو معمول بناتے ہیں ۔سڈنی کے بزنس ڈسٹرکٹ میں دیکھا کہ لنچ کے وقت میں بھی لوگ جاگنگ کرتے پھر رہے ہیں ۔ فٹنس کے متعلق اس حساسیت کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جانتے ہیں کہ زندگی صرف سانسوں کی آمد و رفت کا نام نہیں ۔یہ صحت اور توانائی سے بھرپوراور اعضا و قویٰ کے طویل عرصے تک فعال رہنے سے عبارت ہے ۔
اس مقصد کے لیے مغربی دنیا میں لوگوں نے ایکسرسائز ہی نہیں بلکہ پورا لائف اسٹائل اس طرح اپنالیا ہے کہ اس کے نتائج صحت پر بہت اچھے ہوتے ہیں ۔ ساری مغربی دنیا میں صبح خیزی کی عادت ہے ۔ دن کا اختتام سورج ڈوبتے ہی ہوجاتا ہے ۔ لوگ جلدی کھانا کھا کر جلد سوجاتے ہیں ۔ آرگینک( Organic) فوڈ عام ہورہی ہے ۔ جنک فوڈ بری سمجھی جاتی ہے ۔سلاد اور تازہ غذائیں خوراک کا مستقل جزو ہیں ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 40 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جبکہ ہمارے ہاں کھانے کا مطلب مرغن کھانو ں کے ساتھ روٹی کھانا ہے ۔ اردو میں کھانے کے لیے سالن روٹی اور روٹی کھانے کے اسالیب اسی حقیت کا بیان ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ روٹی صرف کاربو ہایڈریٹ کا نام ہے جس کی موجودہ غیر فعال لائف اسٹائل میں کوئی زیادہ ضرورت نہیں رہی۔یہ صرف موٹاپا پیدا کرتی ہے ۔ جبکہ ہماراسالن تیل اور مصالحہ جات سے بھرپور ہوتا ہے جس کی صحت میں زیادہ اہمیت نہیں ۔ بلکہ تیل موٹاپے کا اور مرچ مصالحے پیٹ کی تیزابیت کا سبب بن جاتے ہیں ۔مغرب میں عام طور پر کھانے کیسے ہوتے ہیں ، اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ پرتھ کی یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں ایک روز ڈاکٹر جیمز مجھے اپنے ایک کولیگ کے ہمرا لنچ پر لے گئے ۔میں نے مچھلی کا آرڈر دیا تو سادہ مچھلی کا ایک بڑ ا سا ٹکڑ ا بھرپورسلاد کے ساتھ پیش کر دیا گیا۔ جبکہ باقی دونوں حضرات کا کھانا بھی بالکل سادہ تھا۔ نہ روٹی، نہ تیل ، نہ مصالحہ جات۔ البتہ پروٹین، وٹامن اوردیگر صحت مند اجزا سے بھرپور۔
چالیس کے بعد
اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو اتنی غیر معمولی صلاحیت دی ہے کہ وہ جوانی میں ہمارے سارے ظلم و ستم کسی نہ کسی طر ح برداشت کر لیتا ہے جو بری لائف اسٹائل، مرغن غذا اور ورزش نہ کر کے اس کے ساتھ روا رکھتے ہیں ۔ مگر چالیس کے بعد صورتحال خراب ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔شوگر، بلڈ پریشر، گیسٹرک، ہارٹ کی بیماریاں اور دیگر امرض اسی لیے ہمارے ہاں اتنے عام ہو چکے ہیں ۔ جو کاروبار اس وقت سب سے زیادہ ترقی پر ہے وہ میڈیسن اور ہسپتالوں کا کاروبار ہے ۔ اس کی وجہ یہی ہماراناقص لائف اسٹائل ہے جو چالیس کے بعد ہم سب کو کسی نہ کسی پہلو سے مریض بنا کر رکھتا ہے ۔ یہ نہ بھی ہو تب بھی ہم اس طاقت اور توانائی سے محروم رہتے ہیں جو زندگی کو فعالیت اور جسمانی صحت اور ذہنی مسرت سے ہمکنار رکھتی ہے جو اس خاص پہلو سے اہل مغرب کی زندگی کا خاصہ ہے ۔
سڈنی اور اندھیرے اجالے کا فرق
ڈیڑ ھ گھنٹے کی فلائٹ کے بعد سڈنی پہنچا تو ائیرپورٹ پر ڈاکٹر ذوالفقار صاحب کو منتظر پایا جو کہ میرے اصل میزبان اور المورد آسٹریلیا کے بانی، منتظم اعلیٰ ، مدرس و معلم سب کچھ ہی تھے ۔ بنیادی طور پر وہ ایک انجینئر تھے اور آسٹریلیا آ کر انھوں نے ماسٹرز اور پھر پی ایچ ڈی کر رکھا تھا۔ ذوالفقار صاحب کوتقریباً دس برس بعد دیکھا تھامگر ان کو پہچاننے میں مشکل پیش نہیں آئی تھی۔ ان کے ساتھ زاہد مرزاصاحب اورعبدالوحیدصاحب بھی موجود تھے ۔زاہد مرزا صاحب تو ائیر پورٹ ہی سے چلے گئے البتہ عبدالوحید صاحب گھر تک ساتھ گئے اور ہم ڈنر تک ان کی صحبت سے مستفید ہوئے ۔
لائیو ٹی وی پروگرامز، اپنی پسند کے ٹی وی چینل کی نشریات ابھی لائیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
میں جمعے کو سڈنی پہنچا تھا اور اگلے اتوار تک ذوالفقار صاحب کے ساتھ ہی رہا ۔ ان کی فیملی پاکستان گئی ہوئی تھی۔ اس لیے اس عرصے میں صبح مجھے اٹھانے سے لے کر ناشتہ بنانے اور کپڑ ے دھونے سے لے کر انھیں استری کرنے کی سروس بھی انھوں نے ہی فراہم کی۔ ان میں سے استری والا کام میں نے بعد میں خود اپنے ذمہ لے لیا تھا۔
ذوالفقار صاحب کے ہاں پہنچا تواردگرد اندھیرا ہونے کی وجہ سے کچھ اجاڑ و ویران محسوس ہوا۔ مگرصبح بیدار ہونے کے بعد دن کی روشنی میں جب اس علاقے کو دیکھا تو یہاں کی کیفیت ہی بدلی ہوئی تھی۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت اور سرسبز علاقہ تھا۔ ان کا گھر اس علاقے کی سب سے بلند جگہ پر تھا اس لیے دور دور تک کا منظر یہاں سے نظر آتا تھا۔
رات اور دن کے فرق نے تاثرات میں جو فرق پیدا کیا وہ اس بات کی ایک علامتی مثال ہے کہ انسان کی جہالت اور تعصبات ایک تاریکی کی مانند ہوتے ہیں ۔یہ تاریکی باہر نہیں انسان کے اپنے اندر ہوتی ہے ۔ اندر کی اس تاریکی کے ساتھ انسان کتنی ہی خوبصورت اور شاندار سچائی کو پالے ، اسے ہمیشہ اس سے وحشت اور اجنبیت محسوس ہوتی ہے ۔خارج کے اندھیر ے دور کرنا خداکی ذمہ داری ہے ۔ اس مقصد کے لیے وہ ہر روز سورج طلوع کرتا ہے ۔ مگر اندر کا اندھیرا دور کرنا انسان کی اپنی ذمہ داری ہے ۔یہ اس لیے ضروری ہے کہ اس دنیا میں انسان کو جس امتحان میں ڈالا گیا ہے وہ یہی ہے کہ اسے سچائی کو قبول کرنا ہے ۔ اور سچائی کو اندر کا اندھیرا دور کیے بغیر کبھی قبول نہیں کیاجا سکتا۔ (جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 42 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں