ضلع کرم کی صورتحال
خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں اَمن و امان کی صورتحال کے باعث پاراچنار ٹل کی اہم شاہراہ گزشتہ 70دِنوں سے ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند ہے جس کے باعث وہاں کے شہری شدید پریشان ہیں۔ علاقے میں اشیائے ضرورت کا فقدان ہے،اشیائے خورد و نوش،ادویات اور ایندھن سمیت مختلف چیزوں کا ذخیرہ ختم ہو چکا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پارا چنار ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ(ایم ایس) نے انکشاف کیا تھا کہ کرم میں علاج کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے دو ماہ میں 29 بچے انتقال کر چکے ہیں، کئی افراد شدید علیل ہیں، قریب المرگ ہیں جنہیں دوسرے اضلاع منتقل کرنے کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے جا رہے، لیکن خیبرپختونخوا (کے پی کے) حکومت اِس بات سے انکاری ہے،اُس کا کہنا ہے کہ یہ بیان دباؤ میں دیا گیا،اِس میں کوئی صداقت نہیں۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر کے مطابق ضلع میں انسدادِ پولیو مہم بھی راستے کھلنے اور پائیدار اَمن قائم ہونے تک ملتوی رہے گی۔ ڈپٹی کمشنر جاویداللہ کا کہنا تھا کہ کرم میں اَمن ومان کی صورتحال سے متعلق قائم کئے جانے والا گرینڈ جرگہ گزشتہ بیٹھک میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا تھا اِس لیے جلد دوبارہ بیٹھے گا۔ واضح رہے کہ ضلع کرم میں قبائل کے درمیان ہونے والے تصادم میں 150سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے ضلع کو ملانے والے تمام راستے تاحال بند ہیں، معمولاتِ زندگی درہم برہم ہیں اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ضلع کرم میں 12 اکتوبر کو گاؤں کنج علیزئی میں ایک قافلے پر فائرنگ کے نتیجے میں 15 افراد کی ہلاکت کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے تھے،اُس کے بعد فائرنگ کے مختلف واقعات جاری رہے جس کی وجہ سے وہاں کی اہم شاہراہ بند رہی۔ قبائل کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ گاہے بگائے جاری تھا کہ 21 نومبر کو ایک اور قافلے پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں مزید 56 افراد ہلاک جبکہ 104 افراد زخمی ہو گئے۔ اُس کے نتیجے میں لڑائی کا سلسلہ شروع ہوگیا جو مسلسل 11 دن جاری رہا،اِن جھڑپوں میں دونوں اطراف کا جانی اور مالی نقصان ہوا۔
مقامی پولیس کے مطابق گزشتہ دو ماہ میں فائرنگ کے مختلف واقعات اور قبائلی لڑائی میں 161 افراد جاں بحق جبکہ 220 افراد سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں،اِن واقعات کی وجہ سے ضلع کو ملک سے ملانے والی واحد شاہراہ کے علاوہ دیگر تمام راستے تاحال بند ہیں۔بارڈر حکام کے مطابق پاک افغان خرلاچی بارڈر کے ذریعے ہونے والی تجارت بھی گزشتہ دو ماہ سے ہر قسم تجارت کے لیے بند ہے۔ بعض مقامی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پاک افغان خرلاچی بارڈر کو وقتی طور پر کھول دیا جائے تو عوام کی مشکلات میں کمی آ سکتی ہے۔اِس کشیدہ صورتحال کی وجہ سے وہاں رہنے والی اقلیتیں بھی خاصی پریشان ہیں،عیسائی برادری کی عید یعنی کرسمس بالکل قریب ہے جو اُن کا سب سے بڑا تہوار ہے،وہ پورا سال اِس کا انتظار کرتے ہیں لیکن اس مرتبہ یہ خوشی پھیکی پڑ رہی ہے،اشیائے ضرورت نہیں مل رہی،سڑک بند ہے،کسی قسم کا سامان دستیاب نہیں ہے،وہ اپنے بچوں کے لیے کپڑے اور دیگر ضروری چیزیں خریدنے سے قاصر ہیں۔ وہاں بسنے والی ہندو برادری کا کاروبار بھی متاثر ہو رہا ہے۔ کے پی کے حکومت کے مطابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی خصوصی ہدایات پر ضلع کرم میں ایمرجنسی ادویات کی قلت ختم کرنے کے لیے ضروری ادویات کی تیسری کھیپ بذریعہ ہیلی کاپٹر پہنچائی گئی،صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ ایک کروڑ 24 لاکھ روپے مالیت کی مزید ادویات میں ایمرجنسی کے علاوہ مختلف طرح کی ویکسین شامل ہے جو دو ماہ کے لیے کافی ہوں گی۔ مشیر صحت اور سیکرٹری صحت خود ادویات کی سپلائی کے عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بھی پارا چنار کے عوام کے لیے امدادی سامان کے علاوہ وہاں کے عوام کی ضرورت کے مطابق موبائل ہیلتھ یونٹ بھیجنے کی ہدایت کر دی ہے۔
افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ضلع کرم میں قبائل کے درمیان مذاکرات میں ڈیڈ لاک برقرار ہے،میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک فریق نے اپنے ہتھیار حکومت کے پاس جمع کروانے سے انکار کردیا ہے،اِس ایک گروپ کا ہتھیار واپس کرنے سے انکار جرگے کے لیے بھی بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔صوبائی حکومت بھی ضلع کرم کی مرکزی شاہراہیں کھولنے کے معاملے پر بے بس نظر آتی ہے، اُس کا موقف ہے جب تک تمام فریق بھاری اسلحہ حکومت کے پاس جمع نہیں کرا دیتے تب تک سڑکیں نہیں کھولی جا سکتیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات اور تعلقات ِعامہ بیرسٹر سیف یہ واضح کر چکے ہیں جبکہ انہوں نے قبائلی رہنماؤں سے درخواست بھی کی کہ اَمن و امان کے مسئلے کو سمجھیں اور اِس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسلحہ سرنڈر کر دیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ راکٹ لانچروں اور اینٹی ایئر کرافٹ گنوں جیسے بھاری ہتھیاروں کا استعمال کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا، اِس کی موجودگی سے خونریزی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ضلع کرم پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ہے،یہ تین اطراف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اِس کے جغرافیے کی وجہ سے کرم کو کسی زمانے میں ’پیرٹس بِیک‘ یعنی ’طوطے کی چونچ‘ کہا جاتا تھا،افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اِس ضلعے کی سٹرٹیجک اہمیت میں اضافہ ہوا تھا۔ پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں کرم افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے۔ ضلع کرم کا صدر مقام پارا چنار ہے جو کہ پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے۔ ”کرم“ کا لفظ دریائے کرم سے منسوب ہے جو ضلع کے اطراف سے گزرتا ہے۔ یہ ضلع تین حصوں میں تقسیم ہے یعنی اپر کرم، سینٹرل اور لوئر کرم اور اِس کا شمار ملک کے قدیم ترین قبائلی علاقوں میں ہوتا ہے۔ انگریز دورِ حکومت کے دوران 1890ء کی دہائی میں اِس قبائلی علاقے کو باقاعدہ طور پر آباد کیا گیا اور پھر یہاں زمینوں کی تقسیم شروع ہوئی۔اِنہی زمینوں کی ملکیت پر آج بھی اختلافات موجود ہیں بلکہ پہلے سے بڑھ چکے ہیں، آئے روز جھگڑے ہوتے ہیں اور درجنوں افراد مار دیئے جاتے ہیں۔اِس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کرم کے زیادہ تر علاقوں کا لینڈ ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے مختلف مقامات پر مختلف قبائل اور افراد زمین کے ٹکڑوں کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔پارا چنار کی زمین کا شمار قبائلی علاقوں کی زرخیز ترین زمینوں میں ہوتا ہے،سرسبز و شاداب اور پانی کے وافر ذخائر ہونے کے باعث یہاں کے چاول، سبزیاں اور میوہ جات خاصے مشہور ہیں۔ یہاں کی زمین کا تنازعہ کم از کم پانچ مختلف مقامات پر موجود 10 یا اُس سے زائد دیہاتوں اور قبائل کے درمیان ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق یہاں لینڈ کمیشن تو بنایا گیا مگر ابھی تک اُس کمیشن نے کوئی خاص کام نہیں کیا، متعلقہ حکام اگرچہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کمیشن نے بہت کام کر لیا ہے تاہم عملی طور پر ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔ کرم کے حالات پر ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد تو ہوا لیکن وہ بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی۔ زمین کا تنازعہ ایسا مسئلہ نہیں ہے جو حل نہ کیا جا سکے، فریقین کو مل جُل کر اِس کا حل تلاش کر لینا چاہئے، علاقے میں اَمن و امان قائم کرنے کے لیے قبائلیوں کو اسلحہ حکومت کے پاس جمع کرا دینا چاہئے،یہ سب کے حق میں بہتر ہے، نقصان تو ہر طرح سے وہاں کے لوگوں ہی کا ہو رہا ہے۔ دو ماہ سے زائد عرصے سے آمدورفت کے راستے بند ہیں،اَمن و امان کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے، اِسے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر اِس مسئلے کا حل نکالنا چاہئے۔