مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کرنے کی ضرورت؟
تھامس فریڈمین (Fried man) ایک معروف امریکی کالم نگار ہے جو ”دی نیویارک ٹائمز“ میں آج کل کالم نگاری کرتا رہتا ہے۔ یہ میں نے ”آج کل“کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ مغربی میڈیا بالعموم اور امریکی میڈیا بالخصوص ایسے کالم نگاروں کو ”اپناتا“ رہتا ہے جن کے قلم میں دلائل و براہین کی قوت ہوتی ہے۔ یہ قوت ہر کالم نگار میں نہیں ہوتی۔ اسے خدا کی دین (عطا)بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ کبھی دی نیویارک ٹائمز میں نظر آتے ہیں، کبھی واشنگٹن پوسٹ میں اور کبھی گارجین میں۔
پریس یا پرنٹ میڈیا کی عالمی تاریخ بہت پرانی ہے، پاکستان میں یہ تاریخ ابھی ایک نومولود کی مانند ہے، اسے ابھی بچپن، لڑکپن اور جوانی کی منازل طے کرنی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ آئندہ مزید 77برسوں تک ہمارے ابلاغِ عامہ کا حال وہی رہے،جو آج ہے۔
ہم لکیرکے فقیر ہیں۔ ایک دفعہ جس محبوبہ پر دل و جان فدا کر دی بس ساری عمر اسی کے ہو رہے…… یہ ایک نہائت دلفگار داستان ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں برصغیرکی تاریخ سے سبق حاصل کرنا پڑے گا۔ ہماری سیاسی تاریخ یہ ہے کہ ایک بار جو سیاستدان ملک کے بامِ اقتدار پر جا بیٹھا بس وہیں بیٹھا رہا اور وہیں اس کی ”آل اولاد“ بھی بیٹھی رہی۔ آج کے اخبار اٹھا کر دیکھ لیں۔ پنجابی محاورے کے مطابق کوئی اخبار جس سیاستدان کے ”لڑ“ لگ گیا، بس اسی کا ہو رہا…… مغربی میڈیا اس طرح کی ”پاسِ وفا“ کا قائل نہیں۔ وہاں کی محبوبائیں آج زید کی بغل میں ہوتی ہیں تو کل بکر کی آغوش میں۔ہمارے ہاں عشق و عاشقی کی ریت بالکل جدا ہے۔ہمارے قیس، لیلیٰ کے محمل کو د یکھتے دیکھتے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اور ہمارے ہاں ”ہیر“ کانکاح کھیڑے سے کر دیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہیر اور رانجھا دونوں فنا کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ ہمارے شعراء کے دوادین کو کھنگال لیں ان کی خیالی محبوبہ اور حقیقی زوجہء محترمہ میں ہزار فرسنگ کا فاصلہ ہوگا۔ اس لئے ایک فارسی شاعر نے فرما دیا تھا:
دلے کہ عاشق و صابر بَود مگر سنگ است
ز عشق تابہ صبوری ہزار فرسنگ است
(ایسا ”دل“ جو عاشق بھی ہو اور صابر بھی،وہ دل نہیں بلکہ پتھر ہوتا ہے۔ عشق اور صبر کے درمیان ہزاروں کلومیٹروں کافاصلہ ہوتا ہے)
ہمارے پاکستانی پریس میڈیا کے عاشقانِ صادق کا قول یہی ہے کہ جس کے ساتھ پہلی آنکھ لڑی، اسی کے ساتھ آخری سانس تک لڑی رہی…… ”عشق مٹکّا“ سے عشقِ صادق تک کوئی فاصلہ نہیں ہوتا۔…… اگر کوئی لیلیء اخبار کسی سیاستدان کی آغوش میں چلی گئی تو اس کی آنے والی نسلیں، بس اسی سیاستدان کے گن گاتی رہیں گی۔ ہماری سات آٹھ عشروں کی ابلاغی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، ہم غالب کی طرح ”وفاداری بشرطِ استواری“ کے قائل رہے ہیں۔ مغرب میں البتہ وفاداری کی شرائط اور ہیں۔ ویسے تو ہم پاکستانی بلکہ ایشیائی (ان میں چین اور جاپان کو شامل نہ کریں) اسی شرطِ وفاداری کے قائل ہیں خواہ وہ سچ مچ کا عشق ہو یا ابلاغی معاشقہ ہو۔ سطورِ بالا میں، میں نے جو کچھ عرض کیا ہے وہ زبان و بیان کے ایسے استعارے ہیں جن کے بارے میں حضرتِ اقبال نے فرمایا تھا:
شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوقِ تکلّم کی
چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں
قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ان استعاروں کے پیچھے چھپے ہوئے ذوقِ تکلّم کا اندازہ کیا کریں ……
ہم تھامس فریڈمین کا ذکر کررہے تھے جن کے کالم مغربی اخباروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ یہ غضب کا آدمی ہے۔ بیروت (لبنان) میں سالہا سال تک ”دی نیویارک ٹائمز“ کا بیورو چیف رہا۔ اس کا انقلابِ شام کے موضوع پر آخری کالم جو چند روز پہلے شائع ہوا اس کا عنوان ہے: ”مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدلنے کا سنہری موقع“……
”مشرق وسطیٰ“ ایک جغرافیائی خطے کو کہا جاتا ہے جو جزیرہ نمائے عرب سے شروع ہو کر بحرِ اوقیانوس کے مشرقی ساحلی علاقوں (Levant) ترکی، مصر، عراق اور ایران تک پھیلا ہوا ہے۔ آسان لفظوں میں اگر بیان کرنا مقصود ہو تو یہ خطہ مغرب میں مصر سے لے کر مشرق میں ایران تک کے ممالک کو محیط ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ امریکی کالم نگار (فریڈمین کی طرح کے لوگ) اب یہ دلائل دینے لگے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کے اس سارے خطے ہی کو تبدیل کر دیا جائے…… یہ کالم نگار یہ بات کیوں نہیں کہتے کہ امریکہ، کینیڈا،میکسیکو اور وسطی امریکہ کے نقشے کو بھی تبدیل کر دیا جائے!
فریڈمین کے اس کالم میں لکھا گیا ہے کہ شام کا انقلاب دراصل امریکہ اور اسرائیل کا لایاہوا ہے۔شام میں روس، ترکی اور ایران کے عمل دخل کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اسرائیل نے شام سے بشارالاسد کے فرار کے فوری بعد 500سے زائد فضائی حملے دمشق میں ان ”باغی گروپوں“ پر کئے ہیں جن کو ”ہیتِ تحریر الشام“ کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن یہ ”ہیت“ محض ایک کٹھ پتلی ہے۔ آپ دیکھتے جایئے۔ آنے والے ایام میں شام کے ان باغیوں کو ختم کر دیا جائے گا جن کی قیادت الجولانی کر رہا ہے۔شام کے شمال میں حلب (Aleppo) کے علاقوں سے بھی ترکی اور کردستان کا اثرورسوخ ختم کر دیا جائے گا۔ امریکہ (اور اس کے مغربی یورپی اتحادی یعنی ناٹو) اس انقلابِ شام کے واحد فاتح ہیں، اسی لئے فریڈمین کہتا ہے کہ ”مشرق وسطیٰ کے نقشے کو تبدیل کر دیا جائے“۔
امریکہ پہلے ہی عراق اور لیبیا کو ختم کر چکا ہے۔ صدام حسین اور کرنل قذافی کا انجام کسے یاد نہیں؟…… امریکی آرزو ہے کہ بغاوت کرنے والوں کا حشر تو دنیا دیکھ چکی ہے۔اس دنیا میں روس بھی تھا اور چین بھی۔ اب اگر الاسد بھاگ کر ماسکو میں پناہ لے چکا ہے تو روس اور ترکی مل کر بھی اس شام کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے جس کا اشارہ فریڈمین نے دیا ہے۔ مستقبلِ قریب میں امریکہ، مشرق وسطیٰ کا نقشہ اس انداز میں تبدیل کر دے گا کہ جس کو ”گریٹر اسرائیل“ کانام دیا جاتا ہے۔ اس ”عظیم تر اسرائیل“ کی سرحدیں ایک طرف اب لبنان، شام، اردن، قطر، کویت، بحرین اور سعودی عرب کو محیط ہو جائیں گی تو دوسری طرف عراق اور ایران بھی احاطے میں آئیں گے۔ روس اور چین نے پہلے بھی کچھ نہیں کیا تھا اور اب بھی کچھ نہیں کریں گے۔ ایشیا والوں کی فطرت مغربی ممالک کے باسیوں کی فطرت کے مقابلے میں ایک مجہول فطرت ہے۔
ہمیں اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایران کے بعد پاکستان کی باری آئے گی۔ لیکن پاکستان اس لئے بچ جائے گا کہ وہ ایک جوہری اور میزائلی قوت بن چکا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ مرحوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایٹم بم سازی کے لئے، یورینیم کو افزودہ کرنے والے ساز و سامان کو لیبیا کے ہاتھوں فروخت کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیبیا کے قذافی کا حشر تو ہم نے دیکھا لیکن ڈاکٹر قدیر خان اس حشر سے جوہری پاکستان کی وجہ سے بچ گیا۔
اگر ایران نے اپنا وجود برقرار رکھنا ہے تو اس کو جلد از جلد جوہری بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں چین اور روس، اس کی مدد کر سکتے ہیں۔ اب بھی اگر انہوں نے ایران کو نیوکلیرائز نہ کیا تو مشرق وسطیٰ کا نقشہ ضرور بدل جائے گا…… یہی فریڈمین پھر یہ کہے گا کہ ایران کے بعد، پاکستان کی خبر لیجئے…… اس لئے پاکستان کو اپنی میزائلی قوت میں اضافہ کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے پاکستان کا جوہری بٹن جن ہاتھوں میں ہے وہ اس قوت کو IRBM سے آگے نکال کر ICBM کی طرف لے جائیں گے کہ اس کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں ہوگا۔