معلوماتی سفرنامہ،’کھول آنکھ زمیں دیکھ‘۔۔ ۔ اٹھارہویں قسط
نکاح، زنا اور پلے بوائے زندگی
میرے امریکا قیام کے دوران ایک مقدمے کی روداد بڑے تواتر سے میڈیا پر نشر ہورہی تھی جس سے مغربی زندگی کا ایک دلچسپ تضاد سامنے آیا۔ امریکی ریاست یوٹا کے 53سالہ ایک شخص ٹام گرین پر الزام تھا کہ اس نے پانچ شادیاں کی ہیں جن سے اس کے انتیس بچے ہیں۔ خیر مقدمہ انتیس بچوں پر نہیں پانچ بیویوں پر تھا۔ کیونکہ ریاست کے قانون کے مطابق ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا جرم ہے جس پر قیدکی سزاہے۔ میں کینیڈا لوٹا تو مقدمہ چل رہا تھا۔ بعد میں ملزم کو 25سال کی سزا ہوگئی جسے اپیل کے بعد 5 سال کردیا گیا۔ ایک روز بس میں جاتے ہوئے اس مقدمے کے حوالے سے ایک دلچسپ آرٹیکل پڑھا۔
معلوماتی سفرنامہ،’کھول آنکھ زمیں دیکھ‘۔۔ ۔ 17 ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مضمون نگار نے یہ نکتہ اٹھایا کہ ٹام گرین اس بنا پر معتوب ہے کہ اس نے ایک سے زیادہ شادیاں کررکھی ہیں۔ جبکہ اسی امریکی معاشرے میں مردوں کا ایک بیوی کے ہوتے ہوئے کئی کئی عورتوں سے ناجائز تعلقات رکھنا عام بات ہے۔ اس نے مثال کے طور پر (HUGH HEFNER) کا نام لیا۔ یہ ایک عمر رسیدہ شخص ہے جس نے پچاس کی دہائی میں بدنامِ زمانہ (ہمارے اعتبار سے) اور مقبول عام(ہمارے اور مغرب دونوں کے اعتبار سے) عریاں میگزین پلے بوائے کا اجرا کیا تھا۔یہ میگزین آج بھی لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ماہانہ شائع ہوتا ہے۔ مغرب کو پلے بوائے زندگی کا تصور اسی شخص نے دیا تھا۔ اب تویہ صاحب ریٹائر زندگی گزار رہے ہیں اور میگزین کی نگرانی ان کی بیٹی کررہی ہے مگرموصوف پلے بوائے زندگی سے ابھی تک ریٹائر نہیں ہوئے۔ کیلیفورنیا میں ان کا عظیم الشان محل پلے بوائے مینشن کے نام سے موجود ہے۔ جہاں یہ ان حسین ونوجوان خواتین کے جھرمٹ میں (ویاگرا کے سہارے سہی) رنگین زندگی گزار رہے ہیں جو عمر میں ان کی نواسیوں کے برابر ہیں۔
اس شخص نے اپنے رسالے کو مقبول بنانے کے لیے پلے بوائے طرزِ زندگی کو مغربی معاشرے میں رائج کرنے کی بھر پور کوشش کی۔پلے بوائے زندگی کی صحیح ترجمانی فارسی کا مصرعہ ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کرتاہے۔ اس عیش میں سرِ فہرست خوبصورت اور نوجوان خواتین ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے محل میں ہر روز نت نئے انداز میں پارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔جن میں امریکی معاشرے کے سرکردہ افراد، میڈیا اور شو بز کی معروف شخصیات اور سیاسی و کاروباری طبقات سے تعلق رکھنے والے اہم لوگ شریک ہوتے ہیں۔ان کی تفریحِ طبع کے لیے شہرت اور پیسے کی متلاشی وہ لڑکیاں بھی وہاں موجود ہوتی ہیں جن کا کل سرمایہ ان کا نسوانی حسن ہوتا ہے۔ پلے بوائے میں عریاں ماڈلنگ کے علاوہ یہ ان مہمانوں کو ’’خوش‘‘ کرنے کا کام بھی سرانجام دیتی ہیں۔ خود ہیفنر کی اس وقت آٹھ گرل فرینڈز ہیں۔ یہی مضمون نگار کا نقطۂ نظر تھا کہ پانچ بیویاں رکھنا جرم ہے مگر آٹھ گرل فرینڈز رکھنا جرم نہیں؟
سی این ٹاور ۔ دنیا کی چھت
میرا ارادہ تھا کہ وقفے وقفے سے یہاں کی قابلِ دیدجگہوں کو دیکھوں۔ اس سلسلے میں میرا پہلا انتخاب سی این ٹاور تھا۔ ہر شہر کی ایک پہچان ہوتی ہے مثلاً پیرس کی پہچان ایفل ٹاور ہے یا جیسے کراچی کی پہچان مزارِ قائد۔ ٹورنٹو کی پہچان سی این ٹاور (CN Tower) ہے۔ ٹورنٹو کی جب کوئی تصویر آپ کی نگاہوں کے سامنے سے گزرے گی تو اس میں یہ ٹاور ضرور نمایاں ہوگا۔ اس میں جانے سے قبل مجھے علم نہیں تھا کہ یہ اس وقت تک دنیا کی سب سے بلند تعمیر تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عام طور پر بلند عمارتوں کی جب بات آتی ہے تو صرف انہی عمارتوں کا تذکرہ ہوتا ہے جنہیں رہائشی یا کاروباری عمارت کی حیثیت حاصل ہو۔ جبکہ یہ کوئی عمارت نہیں بلکہ ایک ٹاور ہے۔ مگر اپنی بلندی کے اعتبار سے یہ اس وقت تک دنیا کی سب سے اونچی تعمیرتھی۔ کینیڈا ویسے بھی دنیا کی چھت کہلاتا ہے کیونکہ یہ قطب شمالی سے بالکل متصل ہے۔ آپ کو اس بات کا اندازہ اس وقت ہوگا جب آپ کسی گول کرہ کی شکل میں زمین کا نقشہ دیکھیں گے۔اس کی تعمیر 14ماہ میں پوری ہوئی اور اس کا افتتاح 26 جون 1976 ء کو ہوا۔اس سال اس ٹاور کی سلور جوبلی ہے۔
میں نے یہاں جانے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا جب میں دن اور رات دونوں میں شہر کا نظارہ کرسکوں۔ ان دنوں سورج سوانو بجے غروب ہوتا ہے اس لیے میں سات بجے تک وہاں پہنچ گیا۔ گرمیوں کی چھٹیاں ابھی شروع نہیں ہوئی تھیں اس لیے سیاحوں کا زیادہ ہجوم نہیں تھا۔ اس کے علاوہ یہ چھٹی کا دن نہ تھا اس لیے بھی رش کم تھا۔اس ٹاور کی اونچائی 553 میٹر ہے۔ اس کی پہلی مشاہدہ گاہ 351 میٹر کی بلندی پر ہے جسے لک آؤٹ (Look Out) کہتے ہیں۔ یہاں تک جانے کا ٹکٹ سترہ ڈالرکا تھا۔جبکہ دوسری 447 میٹر بلند ہے او ر اسکائی پوڈ (Sky Pod) کہلاتی ہے۔ اس تک جانے کے لیے اضافی طور پر سات ڈالر دے کر چوبیس ڈالر کا ٹکٹ لینا پڑتا ہے۔ میں نے یہی ٹکٹ لیا۔ بیسمنٹ میں ایک چھوٹا مگر خوبصورت سا شاپنگ سنٹر بنا ہوا ہے۔ جبکہ لفٹ میں بیٹھنے سے قبل ایک راہداری میں سی این ٹاور سے متعلق کافی معلومات دی گئی تھیں۔ میں نے ان تمام چیزوں کو واپسی پر تفصیلاً دیکھا۔
ٹکٹ چیک کرواکر لفٹ میں بیٹھا تو لفٹ آپریٹر خاتون نے بتایا کہ لفٹ کی رفتار پندرہ میل یا بائیس کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اور یہ ایک لمحے میں ستائیس فٹ کا فاصلہ طے کرلیتی ہے۔ اس کا اندازہ تو ویسے ہی ہورہا تھا کیونکہ لفٹ چلی تو کان میں اسی طرح کا دباؤ پڑا جیسے جہاز کے اڑتے وقت محسوس ہوتا ہے۔ لفٹ شیشے کی تھی جس سے اوپر جاتے ہوئے پورے شہر کا نظارہ ممکن تھا۔ لفٹ نے صرف 58سکنڈ میں مسافروں کو اوپر پہنچادیا۔
لک آؤٹ ( (Look Out
لفٹ سے اتر کر میں نے گھوم پھر کر تمام جگہوں کا جائزہ لیا۔ ایسا کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس جگہ کا ایک نقشہ نگاہوں میں آجاتا ہے جس کے بعد انسان ہر چیز کو اپنے وقت اور دلچسپی کے حساب سے دیکھ سکتا ہے۔ میں جس حصے پر اترا اس کا نام لک آؤٹ ( (Look Out ہے۔ اس کے دو فلورہیں۔ پہلے فلور پر ایک ریسٹورنٹ ہے جس کا نام ہورائزن کیفے (Horizon Caf233 ) ہے۔ یہ ریسٹورنٹ گھومنے والا(Revolving) ہے ۔ اس میں ایک شراب خانہ اور ایک ڈانسنگ فلور بھی ہے۔لک آؤٹ دائرے کی شکل میں بنا ہے اور اس کے تمام اطراف شیشے لگے ہوئے ہیں۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بورڈ لگے ہیں جن پر شہر کے اہم مقامات کی تفصیل درج ہے۔ اس وقت شام کا جھٹپٹا ہورہا تھا۔ گو کہ کہر نہیں تھی مگر ہلکی سی دھند چھائی ہوئی تھی۔ اس بنا پر دور تک کامنظر واضح نہیں تھا۔ وگرنہ یہاں سے نیاگرا فالز کااڑتا ہوا پانی بھی نظر آتا ہے۔ بہرحال یہ بھی غنیمت تھا کہ شہر کا نظارہ ہورہا تھا وگرنہ جس روز میں آیا تھا اس روز میں نے سی این ٹاور کو اس طرح دیکھا تھا کہ اس کا پورا اوپری حصہ دھند میں اوجھل تھا۔ بعد میں بھی کئی دفعہ شہر آتے جاتے سر کٹے سی این ٹاور کا نظارہ کیا۔
اس کے نیچے ایک اور فلور ہے۔ یہی اصل مشاہدہ گاہ ہے۔میں سیڑھیوں سے اتر کر نیچے گیا۔ اس کے وسط میں لفٹ کی جگہ ہے اور ساتھ میں واش رومزہیں۔ یہ بھی مکمل طور پر شیشے سے ڈھکا ہواہے۔لیکن شیشے کی اس دیوار سے دو دروازے نکلتے ہیں۔ جن سے باہر نکل کر ایک گول راہداری آتی ہے جو مضبوط جالیوں سے مکمل طور پر بندہے۔ ان جالیوں سے آتی ہوئی ٹھنڈی ہوا کے ساتھ باہر کا نظارہ بڑا اچھا لگتا ہے۔ لیکن عین سردیوں میں یہاں آنے کی ہمت کوئی نہیں کرتا ہوگا۔اُسوقت صرف شیشوں کے پیچھے ہی سے نظارہ ممکن ہوتا ہوگا۔
گلاس فلور (Glass Floor)
میں راہداری سے گھوم کر واپس اندر گیا تو سامنے ایک بڑی ہی دلچسپ چیز نظر آئی۔ لفٹ کے داہنی طرف فرش کے ایک حصے کو شیشے سے بنایا گیا تھا جس سے کئی سو میٹر نیچے کا منظر بالکل صاف نظر آرہا تھا۔ بہت سے لوگ اس شیشے پر کھڑے ہوکر وڈیو یا فوٹو بنوارہے تھے۔ دور سے اس کا کوئی خاص تاثر محسوس نہیں ہوتا تھا۔ مگر جب میں خود شیشے پر جاکر کھڑا ہوا تو نیچے دیکھ کر پورے جسم میں خوف کی سنسناہٹ دوڑ گئی۔ ایسا محسوس ہواکہ میں فضا میں کھڑا ہوں اور زمین تک کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
جب میں ٹورنٹو آیا تھا تو ارشد نے مجھے اس کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا تھا کہ کسی مہمان کو اگر یہاں اس طرح لائیں کہ اس کا دھیان سامنے کے مناظر کی طرف رکھا جائے اورگفتگو میں اسے محسوس نہ ہو کہ وہ شیشے پر آکر کھڑا ہوگیا ہے، پھر ایک دم اس سے کہا جائے کے نیچے دیکھو توعین ممکن ہے کہ اس کا ہارٹ فیل ہوجائے۔ یہاں ویسے بھی کمزور دل والے خواتین و حضرات کو سوچ سمجھ کر آنا چاہیے۔ میں نے دیکھا کہ شیشے پر جاکر کھڑے ہونے والے لوگ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس پر چڑھ رہے ہیں۔ اگر یہ فرش خالی پڑا ہوتا تو کوئی بھی دو انچ موٹے اس شیشے پر آنے کی ہمت نہیں کرتا۔ ابھی بھی کئی لوگ کنارے پر کھڑے ہی نظارہ کررہے تھے۔ اسی دوران ایک لڑکا شرارت میں اس شیشے پر زور سے اچھلا تو خواتین چیختی ہوئی بھاگیں۔
(جاری ہے ، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)