ہر تل پہ ہر رخسار پہ بھی ٹیکس لگے گا ۔۔۔
ہر تل پہ ہر رخسار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب وصل کے اصرار پہ بھی ٹیکس لگے گا
محبوب کی گلی میں بھی جانا سنبھل کے
سنتے ہیں کہ دیدار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب ٹیکس اداؤں پہ بھی دینا ہی پڑے گا
بے وجہ کے انکار پہ بھی ٹیکس لگے گا
بھر جائے گا اب قومی خزانہ یہ ہے امکاں
ہر عشق کے بیمار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب باغ کی رونق کو بڑھائے گا بھلا کون
ہر پھول پہ ہر خار پہ بھی ٹیکس لگے گا
جس زلف پہ لکھتے ہیں صبح و شام سخن ور
اسی زلف کی ہر تار پہ بھی ٹیکس لگے گا
دل بھر کے دیکھ لو جتنا بھی اب چاہو
ہر تل پہ ہر رخسار پہ بھی ٹیکس لگے گا
میاں دیوان کو اب اپنے سمیٹو
کہتے ہیں کہ اشعار پہ بھی ٹیکس لگے گا
گروپ میں کبھی آؤ تو یہ سوچ کے آنا
ہر پوسٹ پہ ہر سوچ پہ ٹیکس لگے گا