چھوڑ بابل کا گھر
’’ودائی‘‘ کا وقت آ پہنچا تھا۔ آج میں اپنی بیٹی ڈاکٹر ایمن کو رخصت کر رہا تھا۔ رخصتی کی اس سادہ مگر پروقار تقریب کا اہتمام ڈیفنس میرج ہال میں کیا گیا تھا۔ جو ڈیفنس سے آتے ہوئے بھٹہ چوک کے بالکل قریب واقع ہے۔ تمام دوست احباب کو دعوت نامے تقسیم کر دئیے گئے تھے۔ اور اب مہمانوں اور بارات کا انتظار تھا۔ بارات کی آمد سات بجے ہونا قرار پائی تھی۔ لیکن دلہا ڈاکٹر کاشف رضا اور باراتی قبل از وقت ہی آ گئے، یعنی آدھ گھنٹہ پہلے۔ انہیں انتطار کرایا جا رہا تھا ، تاکہ ہمارے مہمان آ جائیں اور ہم سب مل کر دلہا اور بارایتوں کا بھرپور استقبال کر سکیں۔ سینئر صحافی شوکت ڈار اور کالمسٹ فورم کے صدر فرخ شہاز وڑائچ پہلے ہی آ چکے تھے اور اب میرے ساتھ مہمانوں کے استقبال کے لیے باہر موجود تھے۔ مہمان آنا شروع ہو گئے تھے۔ کوئی گاڑی آتی تو میں مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے گاڑی کی طرف لپکتا اور چند رسمی کلمات کے بعد مہمانوں کو اپنے ساتھ لیے ہال کی طرف بڑھ جاتا۔
میں اب تک چار سو سے زائد کالم لکھ چکا ہوں گا۔ سیاست، ثقافت، کرائم اور سماجی مسائل ہمیشہ میرے کالموں کا موضوع رہے ہیں۔ لیکن آج کا کالم اپنی بیٹی ایمن کے نام کر رہا ہوں جسے میں نے ہر اچھے والد کی طرح بڑے نازو نعم سے پالا۔ اعلیٰ تعلیم دی۔ تربیت کا بھی اتنا ہی خیال رکھا جتنا ایک باپ اپنے بچوں کے لیے کر سکتا ہے۔ اولاد کی تربیت میں باپ اور ماں دونوں کا رول اور عمل دخل ہوتا ہے۔ بچوں پر ماں باپ کی شخصیت کے گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ اس لیے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے ماں باپ نے جس طرح ہماری تربیت کی ہم نے اُس تربیت کو اپنے بچوں تک لوٹا دیا۔ انہیں جہاں اعلیٰ تعلیم دی، وہاں تربیت کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا اور نہ ہی اس سے کبھی غافل رہے۔ خدا کا شکر ہے میری دونوں بیٹیاں اور بیٹا حمادسعد نہ صرف ہمارے فرمانبردار ہیں، بلکہ ایسے مثالی بچے ہیں، جن پر ہمیں بلاشبہ بڑا فخرہوتا ہے۔
میری بیگم صاحبہ شاہینہ سعد شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ پہلے گورنمنٹ گرلز کالج وزیر آباد میں تعیناتی تھی لیکن لاہور میں سکونت اختیار کرنے کے بعد اب انہوں نے اپنا تبادلہ لاہور کرا لیا ہے۔ ان دنوں اپوا کالج لاہور میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں بچوں کو ایک اچھی اور تربیت یافتہ ماں میسر ہو تو بچوں کی قسمت بدل جاتی ہے اور ان کی تربیت بہتر ہو جاتی ہے ۔ والدین ایسے بچوں کی بدولت معاشرے میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ڈیفنس میرج ہال کے باہر مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے میں کئی خیالوں میں گم ہوتا۔ مجھے اپنی بیٹی ایمن کے ساتھ گزرا ایک ایک لمحہ یاد آ رہا تھا۔ مجھے وہ بھی دن یاد ہیں جب میں بچوں کے بہتر ماحول اور تربیت کی خاطر انہیں گوجرانوالہ کی تحصیل وزیر آباد لے گیا، جہاں دریائے چناب کے کنارے ہمارا پڑاؤ تھا۔ اس سے متصل کوٹ قاضیاں میں اپنی ذاتی اراضی پر دو کنال میں ایک خوبصورت گھر تعمیر کیا۔باغیچہ بھی بنایا۔ جس میں پھول اور پھل دار درخت لگائے۔ اس باغیچے میں جھولوں کا بھی انتظام کر رکھا تھا۔ بچے یہاں آ کر بہت خوش ہوئے۔ صاف ستھرے ماحول اور دریائی آب و ہوا نے انہیں نہ صرف جسمانی طور پر صحت مند رکھا بلکہ وہ ذہنی طور پر بھی صحت مند دکھائی دینے لگے۔
میری بیٹی ایمن کو بچپن ہی سے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا۔ یہ لگن تھی کہ وہ بڑی ہو کر میڈیکل کے شعبے سے بحیثیت ڈاکٹر وابستہ ہوں اور دکھی انسانیت کی خدمت کریں۔ ایمن نے میڈیکل میں داخلہ لیا تو والدہ نے کہا میڈیکل چھوڑو ، ایم ایس سی میں داخلہ کرا دیتی ہوں۔ لیکن ایمن نہیں مانی اُس نے کہا مجھے ڈاکٹر ہی بننا ہے۔ جب وہ میڈیکل کی تعلیم کے لیے بیرون ملک جا رہی تھی تو ہم سب ایئرپورٹ پر تھے۔ ایمن نے کہا کہ وہ جلد اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس آئے گی، اور وہ خواب پورا کرے گی جو اُس نے بچپن میں دیکھا تھا ’’ڈاکٹر بننے کا خواب‘‘۔۔۔اور پھر وہ آئی تو ڈاکٹر بن چکی تھی۔ اُسے میڈیکل کی ڈگری ملی اور ڈاکٹر بننے کے بعد بحیثیت گائناکالوجسٹ سروسز ہسپتال میں ہاؤس جاب کرنے لگی۔ اتفاق سے اُس وارڈ میں تعیناتی ہوئی جہاں اُس کی پیدائش ہوئی تھی۔
ڈاکٹر ایمن کی شادی میں شرکت کے لیے سابق گورنر پنجاب چودھری محمد سرور، ولید اقبال اور دیگر ساتھیوں سمیت تشریف لائے۔ مجھے سب سے زیادہ انتظار محترم مجیب الرحمن شامی کا تھا۔ وہ جب اپنے آفس سے چلے تو میں مسلسل اُن کے ساتھ رابطے میں تھا۔ اُن کے انتظار میں اس قدر بے قرار تھا کہ اس ’’بے قراری‘‘ کے لمحات کو لفظوں کی زبان نہیں دے سکتا۔ وہ تشریف لائے تو جیسے مجھے دنیا بھر کی خوشیاں مل گئیں۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنمانوید چودھری، اینکر پرسن حبیب اکرم، انیق ناجی، صحافی طاہر سرور میر، ادا کار نیئر اعجاز، کرکٹر عامر سہیل سمیت اعجاز الحق، کرنل نعمان، میجر (ر) قاضی ذوالفقار اور پی ٹی آئی سے نعمان چٹھہ بھی میری بیٹی کو اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کرنے آئے۔ ڈیلی سٹی 42کے گروپ ایڈیٹر نوید چودھری کو بھی آنے کی دعوت تھی لیکن وہ دفتری مصروفیات کے باعث تشریف نہ لا سکے تاہم اپنی ٹیم کو بھجوا دیا۔ جس نے چینل سٹی42اور ڈیلی اخبار سٹی 42کے لیے بھرپور کوریج کی۔ ن لیگ کے سینئر رہنماراجہ ظفر الحق نے ایک ضروری میٹنگ کی وجہ سے ’’معذرت‘‘ کا پیغام بھیجا ،یوں وہ تشریف نہ لا سکے۔میری بیٹی ڈاکٹر ایمن، ڈاکٹر کاشف رضا کے ساتھ تمام مہمانوں کی دعاؤں کے ساتھ رخصت ہو گئیں۔ میں نے پرنم آنکھوں کے ساتھ بیٹی کو رخصت کیا اور دعا دی ’’بیٹی! تیرا سنسار ہمیشہ سکھی رہے‘‘۔