مولانا سعید الرحمن علوی کی یاد میں 

 مولانا سعید الرحمن علوی کی یاد میں 
 مولانا سعید الرحمن علوی کی یاد میں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ادیب،خطیب،صحافی اور مترجم مولانا سعیدالرحمان علوی کا شجرہئ نسب مختلف واسطوں سے حضرت علیؓ کے فرزند حضرت محمد بن حنفیہ ؒ سے جاملتا ہے۔ اُن کے بزرگ عرب سے ہجرت کرکے ضلع جہلم کے معروف قصبہ کلر کہار میں آ بسے۔مولانا علوی مرحوم کے جد امجد چراغ دین ؒنے کلر کہار کو چھوڑ کر بھیرہ میں سکونت اختیار کرلی جو اُس زمانے میں علمی اور روحانی حوالے سے مشہور ومعروف شہر تھا۔ مولانا علوی ؒ کے دادا حافظ غلام  یاسین  اپنے  زمانے  کے مشہور قاری تھے جن کے سینکڑوں شاگردوں نے قرآن مجید حفظ کر کے دین کی خدمت کی۔آپ کے والد محترم مولانا محمد رمضان علوی ؒ معروف علمی اور تحریکی شخصیت تھے،ان کا تعلق دینی حلقوں میں احراری علماء خصوصا سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒکے ساتھ بہت زیادہ تھا۔آپ 4اپریل 1948ء کو کوٹ حاکم خان نون میں مولانا محمد رمضان علویؒ کے ہاں پیدا ہوئے،وہ اُن کے نام کی وجہ سے کنیت ابو سعید لکھتے تھے۔آپ نے آٹھ برس کی عمر میں اپنے دادا بزرگوار سے قرآن کریم حفظ کیا، مڈل کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول بھیرہ سے پاس کرنے کے بعد خیرالمدارس ملتان میں داخل ہوئے جہاں دو سال پڑھنے کے بعد بوجہ عارضہ یرقان و میعادی بخار ضلع سرگودھا میں جامع سراج العلوم میں داخل ہو گئے۔تین برس کوہاٹی بازار راولپنڈی کے مدرسہ فرقانیہ میں پڑھنے کے بعد دورہ حدیث کے لئے نصرۃالعلوم گوجرانوالہ میں شیخ الحدیث مولانا سرفرازخان صفدرکے ہاں تشریف لے گئے جہاں سے آپ نے درس نظامی کی تکمیل کی۔آپ کا تعلق اکابر علماء  دیوبند سے بہت گہرا تھا۔فکری حوالے سے آپ علماء  کے اُس قبیلے سے متاثر تھے جن کے سرخیل شیخ الہند مولانا محمودالحسن دیوبندی اور مولانا حسین احمد مدنی و عبیداللہ سندھی تھے۔  1969ء میں مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے ایماء  پر جامع مسجد حضرو ضلع اٹک سے آپ نے  امامت وخطابت کا آغاز کرنے کے ساتھ ساتھ جمعیت علماء  اسلام پاکستان کے لئے بھی کام کیا۔ 1970ء میں چند ماہ کے لئے جامع حسینیہ سلانوالی میں  تشریف لائے پھر دوبارہ حضرو ہی میں اپنی دینی وسیاسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ 1974ء میں ہفت روزہ خدام الدین لاہورکا ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ آپ  کے دور ادارت میں دو ضخیم نمبر: بانی انجمن خدام الدین حضرت شیخ التفسیر نمبر اور تحریک ختم نبوت کے امیر حضرت بنوری ؒ نمبر شائع ہوئے۔

اب آپ کا قیام لاہور شیرانوالہ گیٹ میں تھا  جہاں دو برس تک مدرسہ قاسم العلوم شیرانوالہ میں آپ نے تدریس کے فرائض بھی سر انجام دیئے۔ اِس کے علاوہ آپ نے انجمن خدام القرآن ماڈل ٹاؤن لاہور میں بھی  پڑھایا۔آپ15برس جامع مسجد الشفاء شاہ جمال لاہور میں خطابت وامامت کے فرئض سر انجام دیتے رہے۔علوی صاحب زمانہ طالب علمی سے ہی تحریر و تقریر کے بادشاہ تھے۔اُنہیں اکابر علماء  دیوبند سے عشق تھا۔آپ صاحب طرز ادیب،بے بدل خطیب اور نامور صحافی تھے۔آپ کو علمی وراثت والدین سے ملی تھی اور اکابرین کو بچپن سے گھر میں دیکھا تھا۔آپ تحقیق وترجمہ نگاری کا ذوق اور عربی وفارسی کا شوق رکھتے تھے۔آپ کی زندگی متحرک اور فعال تھی۔آپ علمی،سیاسی،دینی اور ادبی کتب کے رسیاء تھے جس کی گواہی محلہ حاجی گلاب بھیرہ میں موجود ان کا کتب خانہ ہے۔ مولانا علوی نے ذہن رسا پایا تھا،وہ ذہین وفطین ہونے کے ساتھ ساتھ طبیعت میں شدت وحدت بھی رکھتے تھے اُس کے باوجود اُن کا حلقہ احباب وسیع تھا۔آپ وقتی مصلحت کے قائل نہ تھے اُن کا قلم جسے حق سمجھتا ڈنکے کی چوٹ لکھتا۔اکابر علماء دیوبند کے دفاع میں وہ ننگی تلوار تھے لیکن اِس کامطلب یہ نہیں کہ وہ شدت پسند تھے، وہ وسیع المشرب تھے اور مسلکی اختلاف رائے کو برداشت کرتے تھے۔بعض معاملات میں اُن کا نقطہ نظر روایتی تقلید سے ہٹ کر اپنا تھا۔اُنہوں نے پہلی بیعت مولانا حسین احمد مدنی  ؒ کے فرزند مولانا اسعد مدنی   ؒ کے دست ِ حق پر کی تھی، اُن کے بعد آپ حضرت خان محمدؒ خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف کے مرید ہوئے۔یاد رہے آپ کے دادا مرحوم مولانا ابو السعداحمد خانؒ کے مرید تھے۔ مولانا کے والد محترم تحریکی شخصیت تھے، اُن کا پرتو آپ پر بھی تھا۔ پاکستان میں چلنے والی تحریکوں،1974ء کی تحریک ختم نبوت اور 1977ء کی تحریک نظام مصطفی میں آپ نے نہ صرف حصہ لیا بلکہ قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

مولانا سعیدالرحمن علویؒ کی تحریری و صحافتی خدمات بہت زیادہ ہیں۔آپ خوش اخلاق،متواضع، منکسر اور سادہ ذہن رکھتے تھے۔ آپ اکابر کے سامنے دوزانو بیٹھتے  اور دھیمی گفتگو کرتے لیکن گستاخی پر ننگی تلوار بن جاتے۔ آپ جو حق سمجھتے اُس پر بغیر رورعایت کے ڈٹ جاتے تھے۔آپ آخری وقت میں لاہور سے اپنے گھر بھیرہ جانے کی خواہش کرتے رہتے۔اُن دنوں وظائف بھی کثرت سے پڑھتے تھے 13، 14اکتوبر 1994ء کو چناب نگر (ربوہ) میں اپنے مرشد خواجہ خان محمد ؒ کی زیارت کر کیبھیرہ تشریف لائے۔ 20 اکتوبر کو والد صاحب کی قبر پر مقبرہ والے قبرستان بھیرہ تشریف لے گئے،واپسی پر دردِ دِل کی شکایت ہوئی تو اُنہیں فوراً بڑے بھائی عزیز الرحمن خورشید ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا لیکن ابھی ڈاکٹر چیک ہی کر رہے تھے کہ خالق حقیقی سے بلاوا آ گیا اور جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔اُسی روز پانچ بجے حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری کے بھانجے شاہ عبدالوحید رائے پوری نے مقبرہ والے قبرستان بھیرہ میں آپ کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں علاقے کے علماء ،علمی شخصیات اور عوام الناس کی کثیر  تعداد نے شرکت کی۔ آپ کو اپنے والد اور دادا کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔آپ کی اولاد میں تین صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں شامل ہیں۔ مختلف اخبارات وجرائد میں بکھرے سینکڑوں  کالم، مقالات اور مضامین کے علاوہ آپ نے بہت سی کتب لکھیں جن میں تراجم کیمیائے سعادت از امام غزالی، تعبیر الرویا از امام ابن سیرین، مغازی رسول از عروہ بن زبیر،احیاء  علوم الدین از امام غزالی،مختصر القدوری مقدمہ تاریخ ابن کثیرمقدمہ سوانح ابن تیمیہ ”اہل بیت نبوت اورخلفاء  راشدین،حسن کردار و عمل شامل ہیں۔اُن کی تالیف کردہ کتب میں لسان القرآن،مولانا محمدعلی جالندھری، مقدمات متعدد کتب علمیہ وتاریخیہ بعنوان حرف چنداور مرویات سیدہ عائشہ صدیقہؒ و امیر معاویہؓ شامل ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -