ندائے امت !!!
امت مسلمہ کا منظرنامہ تیزی سے بدلنے جارہا ہے۔ آنے والے وقت میں کچھ ایسے اہم حالات و واقعات پیش آنے کا امکان ہے جوکہ مسلم ممالک کے سیاسی , دفاعی , اور معاشی حالات پر گہرے اثرات مرتب کریں گے ۔ اب یہ مسلم حکمرانوں کی حکمت عملی پر منحصر ہےکہ امت مسلمہ پر اس کے اثرات مثبت ہوں گے یا منفی ؟؟؟ ہم اپنے پڑوسی ممالک کے معاملات کا جائزہ لیں تویہ بات سامنے آتی ہےکہ ایران اور چین 25 سالہ شراکت داری معاہدہ طے کررہےہیں , جس کی رو سے چین ایران کےمختلف شعبہ جات میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرےگا۔ اس معاہدے کی وجہ سےبرادر مسلم ممالک پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کے نئےدورکاآغازہوگا- یہ ایساہی ہےکہ جیسےصحرامیں پھول کھل اٹھےہوں یا پھر بنابادلوں کے برسات ہونےلگے- کیونکہ اس معاہدے کے فوراً بعد ایران نےچاہ بہار ریل منصوبے سے بھارت کو نکال دیاہے ۔ کیونکہ بھارت امریکہ نوازی کا ثبوت دیتے ہوئے امریکی پابندیوں کےشکار ایران سے چاہ بہار ریلوے منصوبے کے معاہدے پر عملدرآمدکےلیےطےشدہ فنڈنگ نہیں کر رہاتھا ۔ بھارت کو نکال دینے کے بعد ایران نے سی پیک منصوبے کو بھی تسلیم کرلیا ہے۔ چین , ایران اور پاکستان کی یہ نئی شراکت داری اور تعاون خطے میں تینوں ممالک کے اثرورسوخ کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگی - ایران کو امریکی پابندیوں سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ میسر ہوگا اور ایرانی تیل کو چینی مارکیٹ مل سکےگی ۔ جبکہ چین کو خطے میں دو کاروباری شراکت دار مل جائیں گے ۔ اور پاکستان کا پرانا حریف بھارت جنوبی ایشیا میں عملاً تنہا ہوجائے گا۔ حالیہ چین بھارت لداخ تنازعے نے بھارت کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیاہے ۔ سرحد پر چینی دباؤ میں آنے کے سبب بھارت اب پاکستان کو ٹف ٹائم نہیں دے سکے گا۔ ان حالات کے تناظر میں بھارت کے آزاد کشمیر کے حوالے سے جارحانہ عزائم بھی خاک میں مل جائیں گے۔ نیز افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد چین خطے میں اثرورسوخ رکھنے والی نئی واحد طاقت کے طور پر ابھرے گا۔
اس کے بعد اگر ہم مشرقِ وسطٰی کے حالات کا جائزہ لیں تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مجوزہ ڈیل آف دی سنچری پر عملدرآمد کے لیے اسرائیلی کاوشوں میں تیزی کافی تشویشناک ہے۔ اس کےمطابق اگراسرائیل " غرب اردن " کو بشمول مقبوضہ بیت المقدس اپنے اندرضم کرلیتاہےتو آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ایک خواب بن کررہ جائےگا۔ حیرت کی بات ہےکہ عرب ممالک " غرب اردن " کو ضم کرنےکےاسرائیلی منصوبےکےخلاف متحرک دکھائی نہیں دیتے ۔ گوگل میپ نے بھی فلسطین کو دنیاکےنقشےسے مٹادیاہے جوکہ امت مسلمہ کےلیے لمحہ فکریہ ہے ۔ مشرقِ وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال کےتناظرمیں ترک صدر رجب طیب ایردوگان کی قیادت میں ترکی کا بین الاقوامی امور میں فعال کردار ادا کرنابھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ترکی نے حالیہ برسوں کےدوران شام کے کردکنٹرول والےعلاقوں میں اپنا فوجی اثرورسوخ بڑھانا شروع کردیاہے۔ ترکی نے لیبیا کے سیاسی بحران سےنمٹنے کےلیے اقوامِ متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت GNAکو " خلیفہ ہفتر " کی باغی ملیشیاء سے نمٹنےمیں مدددینےکےلیے فوجی طاقت کے استعمال کا کیاہے۔ جس سے لیبیائی دارالحکومت اور تیل تنصیبات کو باغیوں سے محفوظ بنانے میں مددملی ہے۔ ترکی کی لیبیا میں عسکری کامیابیاں امریکہ , اسرائیل اور بعض عرب ممالک کےلیےناقابل قبول ہیں ۔ چنانچہ رواں ماہ لیبیاکی " الوطیہ ائیربیس " پر نامعلوم فضائیہ کےمبینہ حملےمیں ترک تنصیبات کوپہنچنے والے نقصان کےحوالےسےچہ مگوئیاں ہورہی ہیں , جبکہ ترک حکومت نے اس حوالےسے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے ۔ دوسری جانب " خلیفہ ہفتر " کی طرف سے مصر کو ترک فوج کےخلاف لیبیا میں کارروائی کی دعوت بھی دی جاچکی ہے ۔ واضح رہےکہ مصر کی لیبیا میں فوجی مداخلت صورتحال کو مزید سنگین بنادےگی اور لیبیا دوسرا شام بن سکتاہے۔ چنانچہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کوچاہئیےکہ مشرق وسطیٰ میں بھڑکنےوالی اس نئی چنگاری کو شعلہ بنانےسےگریزکریں - ترکی کے خلاف عرب نیشنلزم کارڈ کھیل کر ترکوں اور عربوں کو آپس میں الجھایا جارہاہےجوکہ مسلم دشمن ایجنڈے کےعین مطابق ہے ۔ عربوں کو یہ باور کروایاجارہاہے کہ2023 میں ترکی " معاہدہ لوازان " کی 100سالہ مدت ختم ہونےکے بعد " خلافت " کا دعویدار بن سکتاہے, جس سےعرب بادشاہتوں کو خطرہ لاحق ہوجائےگا- جوکہ ایک انتہائی زہریلا پروپیگنڈا ہے , جسےسمجھنےکی ضرورت ہے-عرب ممالک کو چاہیےکہ ترکوں کےخلاف کسی محاذآرائی کا حصہ بننےسےگریزکریں تاکہ لیبیا میدانِ جنگ نہ بنے ۔ اگر ایران اور پاکستان ماضی کےاختلافات بھلا سکتے ہیں توعرب ممالک بھی ماضی کو بھلاکر خطے میں ترکوں کی قیام امن کےلیے مثبت کاوشوں کی قدرکریں۔
یادرہے کہ اگر ترکی لیبیا میں الجھ کرکمزورہوجاتاہے تو اسرائیل کےلیے ڈیل آف دی سنچری پر عمل کرنا اور بھی آسان ہوجائے گا۔ امریکہ اوراسرائیل اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلم ممالک میں غلط فہمیاں پیدا کرکےباہم لڑائے بغیر ارضِ مقدس کوحاصل نہیں جاسکتا ۔ بالکل ایسے ہی جیسے معاشی اور سیاسی طورپر کمزورپاکستان کے بغیر کشمیر کو نگلنا ممکن نہیں تھا۔ قیام پاکستان سے لے کرآج تک ہم کبھی سنبھل ہی نہیں پائےاور بالآخر بھارت نے کشمیر کو اپنا حصہ بنالیا اور ہمارےحکمران عالمی برادری سےبھارتی مظالم کانوٹس لینےکےمطالبےپرمشتمل بیانات تک محدود ہوکررہ گئے ۔ مقبوضہ جموں و کشمیرمیں قابض بھارتی فوج کے نافذ کردہ کرفیو کو ایک سال ہونے والا ہے مگر عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت یہ کرفیو تک اٹھوا نہ سکی ۔ تو پھر ہم یہ کیسے امید رکھیں کہ باہم برسرپیکارمسلم ممالک اسرائیل کوارض مقدس میں پنجے گاڑھنے سے روک سکیں گے؟؟؟
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.