عید الضحیٰ پر صاف ستھرا،چمکتا لاہور
ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب کینیڈا سے لاہور پہنچا تو ہر سو بڑی عید کی تیاریاں نظر آئیں مگر گذشتہ سالوں کے برعکس شہر میں جا بجا عید کے جانور اور بکرا منڈیاں نظر آنے کی بجائے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی طرف سے قربانی کے جانوروں کی آلائیشیں ٹھکانے لگانے کے لئے راہنما بینرز لگے نظر آئے،میرے لئے یہ ایک خوشگوار حیرت تھی۔ ہم خود کو، اپنے گھر کو تو صاف رکھنا چاہتے ہیں لیکن اپنی گلی محلے شہر صوبے اور ملک کو نہیں، ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ اپنی گاڑی گھر سے باہر نکالیں تو ہر سڑک کھلی کشادہ صاف ملے اور کہیں بھی بے ترتیبی بد نظمی اور ٹریفک بلاک نظر نہ آئے لیکن سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے خود لائن اور لین کا خیال رکھنے اور گاڑی پارک کرتے وقت ٹریفک کے قواعد اور اصولوں پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ ملک سے رشوت اور کرپشن کا چلن ختم ہو جائے اور ہر کام میرٹ پر ہو لیکن اپنا کام جلد کروانے، فائل کو پہیہ لگوانے اور وی آئی پی ٹریٹمنٹ حاصل کرنے کے لئے رشوت اور سفارش کا سہارا تلاش کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، ہماراملک آج اگر گوناگوں مسائل کا شکار ہے تو اس کی وجہ ہمارا یہ خود غرض رویہ ہے، آج اگر ہمیں ہر شعبے میں مسائل ہی مسائل اور کام کروانے کے حوالے سے رکاوٹیں ہی رکاوٹیں نظر آتی ہیں تو اس کا سب سے بڑا سبب ہمارا اجتماعیت پر انفرادیت کو ترجیح دینے کا یہ طرزِ عمل ہی ہے۔
اس رجحان اور اس طرزِ عمل کا مشاہدہ یوں تو ہم زندگی کے ہر شعبے، ہر گام پر کرتے ہیں لیکن اہم مواقع جیسے عیدین، یومِ آزادی اور رمضان المبارک پر اس طرزِ عمل کی شدت اور تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے، ہم یومِ آزادی جس ہلڑ بازی کے ساتھ مناتے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں،ہم اپنے گھروں اور دفاتر کے درودیوار پاکستان کے پرچم والی جھنڈیوں سے سجاتے ہیں لیکن دوسرے دن وہی جھنڈیاں فرش پر بکھری، پیروں تلے کچلی اور مسلی جا رہی ہوتی ہیں، رمضان المبارک کے دوران ہمارے تاجر حضرات عوام کے ساتھ جو کچھ کرتے ہیں اور جس طرح لوگوں کی جیبوں پر ڈاکا ڈالتے ہیں اس کی مثال دنیا کے کسی اور ملک میں نظر نہیں آئے گی بلکہ کہا یہ جاتا ہے غیر مسلم ممالک میں کرسمس جیسے تہواروں حتیٰ کہ عیدوں پر بھی خصوصی ڈسکاؤنٹ دیئے جاتے ہیں تاکہ عام استعمال کی چیزیں لوگوں کی قوتِ خرید کے اندر آ سکیں لیکن ہمارے ہاں ایسے مواقع کو زیادہ سے زیادہ منافع کمانے اور اپنی تجوریاں بھرنے کا موقع سمجھ لیا جاتا ہے۔ بڑی عید آ جائے تو لوگ جانور کی قربانی کرنا تو یاد رکھتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے نبیؐ نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے، ہر طرف قربان کئے گئے جانوروں کی آلائشیں نظر آتی ہیں، اہلِ علاقہ فرض شناسی کا مظاہرہ نہیں کرتے اور آلائشیں گلیوں کے کونوں اور سڑکوں کے کناروں پر ڈال دیتے تھے، نتیجہ اس کا یہ نکلتا تھا کہ ایک دو روز میں ان آلائشوں سے اٹھنے والا تعفن اہلِ علاقہ کا وہاں سے گزرنا محال بنا دیتا تھا۔
پچھلے ایک سال سے لاہور میں صفائی کی ایک الگ طرح کی صورت حال نظر آئی، عیدالاضحی کے موقع پر صفائی کو یقینی بنانے اور آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کا کام مثالی رہا، اس مقصد کے لئے شہر کے مختلف علاقوں میں کیمپ لگائے گئے جن میں شہریوں کو پلاسٹک کے بڑے بڑے بیگز تقسیم کئے گئے اور تاکید کی گئی کہ قربان کیے گئے جانوروں کی ویسٹس ان میں ڈال کر انتظامیہ کے طے کردہ مقامات پر رکھی جائیں،علاوہ ازیں عید پر ہر علاقے میں لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی گاڑیاں گشت کرتی رہیں اور ہر علاقے سے مسلسل ویسٹس اٹھاتی رہیں۔ کمشنر لاہور زید بن مقصود بڑے متحرک رہے مگر لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے محنتی چیف ایگزیٹو افسر بابر صاحب دین نے تو سخت گرمی میں کمال کر دیا، عید کے دنوں میں خود چھٹی کی نہ کمپنی کے کسی دوسرے افسر اور سٹاف ممبر کو کرنے دی، گزشتہ سال میں نے صرف چیک کرنے کے لئے عید کی دوپہر کو ہیلپ لائن پر فون کر کے جوہر ٹاؤن کے ایک علاقے کی نشاندہی کی،حیرت کی بات ہے کہ مجھے ایک گھنٹے بعد واپس آتے ہوئے وہ علاقہ صاف ستھرا نظر آیا،اس سال عید پر لاہور میں عزیز واقارب سے ملنے کے لئے نکلا تو پچھلے سال آلائیشوں والا کوئی اکا دکا معاملہ بھی دکھائی نہ دیا، میرے عزیز عمران صاحب ملے تو ساتھ ہی اس صفائی ستھرائی کو اپنی پارٹی مسلم لیگ (ن) کے کھاتے میں ڈالتے دیر نہ لگائی اور کہا ”ویکھیا جے محسن صاحب، مریم نواز دی کارکردگی،ان کی محنت کی وجہ سے عید پر لاہور صاف ستھرا اور چمکتا نظر آیا“۔ معلوم ہوا کہ شہر بھر میں ویسٹ کو ہٹانے کے سلسلے میں ہونے والے کام کا جائزہ لینے کے لئے مانیٹرنگ روم بھی قائم تھے جس سے صورت حال کو کنٹرول کرنے میں خاصی مدد ملی،عید قربان پر صفائی ستھرائی اور ٹھوس فضلے کو ہٹانے کے سلسلے میں انتظامات کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا گیا تھا،پہلے مرحلے میں لوگوں میں صفائی کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا جانوروں کی آلائشیں ڈالنے کے لئے پلاسٹک کے بڑے بیگز تقسیم کئے گئے اور شکایات سیل قائم کئے گئے تاکہ صفائی سے متعلق شہری اپنی شکایات درج کروا سکیں، خوش آئند امر یہ ہے کہ شہریوں کی شکایات پر فوری ردِ عمل ظاہر کیا گیا، دوسرے مرحلے میں جو عید کے پہلے روز شروع ہوا آپریشنل ہیلپ ڈیسک اور کنٹرول روم قائم کئے گئے، موبائل کولیکشن ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور جانوروں کی آلائشوں کو ڈمپنگ پوائنٹس پر پہنچانے کے انتظامات کئے گئے۔ پہلے دو مراحل کے ساتھ ساتھ تیسرے مرحلے کا کام جاری رہا تا وقتیکہ زیرو ویسٹ کو یقینی بنا دیا گیا، ڈمپنگ سائٹس کو بند کیا گیا جس کے بعد سڑکوں کی دھلائی کی جا رہی ہے، آخری مرحلے میں فینائل کا سپرے کیا جائے گا تاکہ اگر آلائشوں کی وجہ سے کہیں بیماریوں کے جراثیم پنپ رہے ہوں تو ان کو مکمل طور پر تلف کیا جا سکے،اتنی شاندار کارکردگی پر سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے لئے شاباش تو بنتی ہے۔
پنجاب کے نئے سیکرٹری اطلاعات احمد عزیز تارڑ نے اپنی تعیناتی کے ابتدائی دنوں میں ہی صحافیوں کے دلوں میں اپنے کام سے جو جگہ بنائی ہے وہ بھی قابل تعریف ہے، ٹیلی فون پر عید مبارک کے تبادلے میں ان سے کہا اپنی کامیابی کا گر تو بتائیں تو ہنستے ہوئے کہنے لگے آپ کے چھوٹے بھائی ہیں، یہی گر ہے، میں نے ان کے ساتھ لاہور کی بہترین صفائی کا ذکر کیا تو کہنے لگے صرف لاہور نہیں پورا پنجاب عید کے موقع پر مثالی صاف رہا ہے،آپ کینیڈا سے آ گئے ہیں، مل کر تفصیل بتاتا ہوں۔میں ان کی بات پر سوچ میں پڑ گیا کہ کیا ہمارے ملک کے ہر محکمے اور ہر شعبے کی کارکردگی لاہور ویسٹ مینجمنٹ جیسی ہو سکتی ہے؟ آپ خود ہی سوچیں کہ اگر ایسا ہو جائے تو کیا پاکستان کے سارے مسائل خود بخود ہی حل نہیں ہو جائیں گے؟