اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 140
ایک دفعہ حضرت عبداللہ منازلؒ نے ابو علی ثقفیؒ سے فرمایا ”کہ مرنے کے لیے تیار ہو۔“
انہوں نے آپ سے کہا ”آپ کو تیاری کرنی چاہیے۔“
چنانچہ آپ کے سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر دراز ہوگئے اور فرمایا کہ لو میں مرگیا۔ ”یہ کہتے ہی حقیقت میں آپ کا انتقال ہوگیا۔“
اس واقعہ سے ابو علی بہت نادم ہوئے کیونکہ ان کے اندر عبداللہ منازلؒ جیسی قوت اس لیے نہیں تھی کہ وہ عیالدار تھے اور آپ مجرو۔ حضرت عبداللہ منازلؒ اکثر یہ فرمایا کرتے تھے کہ بو علی مخلوق سے ہٹ کر صرف اپنے مفاد کی بات کرتے ہیں۔
٭٭٭
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 139 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت مولانا شیخ جمالیؒ جب ہرات پہنچے تو پریشان حال تھے۔ آپ کے جسم مبارک پر صرف ایک تہبند تھا۔ کوءی دوسرا کپڑا نہیں تھا۔ آپ حضرت جامیؒ سے اسی ح ال میں ملنے چلے گئے۔ سلام علیک کرکے حضرت جامیؒ کے برابر جابیٹھے۔
یہ بات حضرت جامیؒ کو ناگوار گزری۔ انہوں نے آپ سے کہا ”گدھے میں اور تجھ میں کیا فرق ہے؟“
یہ سن کر آپ نے بالشت بیچ میں رکھ دی حضرت جامیؒ نے حیران ہوکر پوچھا ”تم کون ہو؟ کیا تمہیں جمالیؒ کی کوئی چیز یاد ہے۔“
اس پر آپ نے حجرت جامیؒ کو کچھ اشعار سنائے۔ پھر حضرت جامیؒ نے آپ سے دریافت کیا ”تم بھی کچھ شعر کہتے ہو۔“
آپ نے حسب حال شعر کہا
مارا ز خاک کویت پیراہن است برتن
آنہم ز آب دیدہ صد چاک تابہ دامن
آپ نے یہ شعر پڑھا اور اس کے ساتھ ہی آپ کی آنکھوں سے ایک سیلاب اشک رواں ہوگیا۔
حضرت جامیؒ سمجھ گئے یہی جمالیؒ ہیں۔ وہ اُٹھ کر آُ سے بغل گیر ہوئے اور تعظیم و تکریم کی۔
٭٭٭
خلفاءمیں سے کسی خلیفہ نے دس ہزار درہم حضرت مالک بن دینارؒ کے پاس بھجوائے اور کہا کہ انہیں تقسیم کردیجئے۔
آپ نے لیے اور تقسیم کردئیے اور ایک درہم بھی اپنے پاس نہ چھوڑا۔ حضرت محمد بن واسعؒ کا آپ سے ملنا ہوا تو پوچھا ”سچ کہیے کہ خلیفہ کے اس رقم بھیجنے سے تمہارے دل میں اس لیے محبت بڑھ گئی ہے یا نہیں۔“
آپ نے کہا ”ہاتھ بڑھ تو گئی ہے۔“
حضرت واسعؒ نے کہا ”آہ! مجھے بھی یہی خدشہ لاحق ہورہا تھا۔ آخر اس مال کی نحوست تمہارے معاملے میں یہ رنگ لائی۔“
٭٭٭
ایک روز کا واقعہ ہے کہ حضرت شاہ مدارؒ دریا کے کنارے رونق افروز تھے۔ ایک سوداگر اپنا مال کشتی میں رکھ کر روانہ ہوا۔ کچھ دور جاکر وہ کشتی دریا میں ڈوب گئی۔ ایک شخص نے جو وہاں موجود تھا اس حادثے کی خبر آپ کو دی۔
آپ نے ایک مٹھی خاک اس کو دی اور دریا میں ڈالنے کی تاکید فرمائی۔ اس نے وہ خاک دریا میں ڈال دی، کشتی برآمد ہوگئی۔
٭٭٭
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن بن یحییٰؒ سے توکل کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر تو اژدہے کے منہ میں ہاتھ ڈالے اور وہ تمہیں پہنچے تک نگل جائے تو بھ ی اللہ کے سوا غیر سے تجھے اندیشہ نہ ہو۔
اس کے بع دمیں ابو یزیدؒ سے توکل کے متعلق سوال کرنے چلا اور ان کے دروازے پر دستک دی۔ آپ نے فرمایا ”کیا تجھے عبدالرحمن کا قول کافی نہیں ہوا جو مجھ سے توکل کے بارے میں پوچھنے چلا آیا۔“
میں نے عرض کیا ”دروازہ تو کھولیے۔“
آپ نے فرمایا ”تو میری زیارت کو نہیں آیا ہے۔“
غرض دروازہ نہ کھولا۔ میں وہاں سے واپس لوٹا اور ایک سال کے بعد پھر گیا۔ دیکھ کر فرمایا ”مرحبا۔ اب تم زیارت ہی کے واسطے آئے ہو۔“(جاری ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 141 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں