اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 141
حضرت شیخ ابو الحسن شنجیؒ فرماتے ہیں کہ جو خود کو صاحب عزت تصور کرتا ہے خدا اس کو ذلت دیتا ہے۔ بندہ کو چاہیے کہ ہر فتنہ پر نظر رکھے۔
اگر آپ کی قبر پر کوئی دنیا طلب درویش ہوتا ہے تو آپ رات کو خواب میں اسے فرماتے ”اگر دنیا طلب کرنی ہے تو بادشاہوں کے مزاروں پر جاکر اور اگر عقبیٰ کا خواہشمند ہے تو ہم سے رجوع کر۔“
٭٭٭
مولانا چندن حضرت شیخ عبدالقدوس کے صاحبزادے شیخ رکن الدینؒ کے استاد تھے اور آپ حضرت عبدالقدوس سے بیعت تھے۔
ایک مرتبہ کپڑے دھونے تالاب پر گئے۔ وہاں ایک حسین عورت کو دیکھ کر اس پر فریفتہ ہوگئے۔ قبل اس کے کہ وہ دراز دستی کریں انہوں نے دیکھا کہ آپ کے پیر و مرشد حضرت عبدالقدوسؒ تالاب میں عصالیے کھڑے ہیں۔
مولانا چندن تالاب میں آپ کو کھڑا دیکھ کر اپنے کیالات فاسدہ سے شرمندہ ہوئے اور جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے مسکرا کر فرمایا ”کچھ دہشت کی بات نہیں ہے، پیر محافظ وقت ہوتے ہیں۔“
٭٭٭
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 140 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شہنشاہ اکبر کے کوئی لڑکا نہ تھا۔ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ سے دعا کا طالب ہوا۔ آپ نے مراقبہ کرنے کے بعد فرمایا۔ ”افسوس ہے تیری تقدیر میں بیٹا نہیں ہے۔“
شہنشاہ اکبر نے یہ سن کر آپ سے عرض کیا ”چونکہ میری تقدیر میں بیٹا نہیں ہے اسی لیے آپ سے دعا کے لیے عرض کیا ہے۔“
اس پر آپ نے پھر مراقبہ کیا اور فرمایا ”اچھا کل بادشاہ بیگم کو میری بیوی کے پاس بھیج دینا۔“
دوسرے دن جب بادشاہ بیگم آپ کے یہاں آئی تو آپ نے اپنی اہلیہ محترمہ کو رانی کی پشت سے پشت ملا کر بیٹھنے کا حکم دیا۔ جب آُ کی اہلیہ مبارک رانی کی پشت سے پشت ملا کر بیٹھیں تو آپ نے اپنی چادر دونوں پر ڈال دی پھر اپنی اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ اپنا ہونے والا فرزند رانی کو دے دو۔
اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد بادشاہ بیگم کے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔ اس لڑکے کا نام اپنے نام پر سلیم رکھا۔ شہزادہ سلیم (جہانگیر) کو آپ پیار سے شیخو بابا بھی کہا کرتے تھے۔
٭٭٭
حضرت عبدالواحد بن زیدؒ فرماتے ہیں کہ میں چین میں ایک راہب کے صومعہ پر سے گزرا میں نے اسے پکارا لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے دوسری مرتبہ پھر پکارا۔ پھر بھی اس نے جواب نہ دیا۔ تیسری مرتبہ اس نے جھانک کر دیکھا اور کہا ”اے شخص! میں راہب نہیں ہوں۔ راہب وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو، جو آسمانوں پر ہے او راس کی کبریائی کی تعظیم کرتا ہو اور اس کی بلاﺅں پر صبر کرتا ہو اور اس کی قضا پر راضی ہو اور اس کی بخششوں پر حمد کرے۔ اس کی نعمتوں کا شکر کرے۔ اس کی لذت کے سامنے ذلت اختیار کرے۔ اس کی قدرت کو تسلیم کرے۔ اس کی ہیبت کے آگے سر جھکائے اور اس کے حساب و کتاب میں فکر کرتا رہا۔ اپنا دن روزہ میں اور شب قیام میں گزارے۔ اسے دوزخ کے اور سوال و جواب کے ذکر نے بیدار کررکھا ہو اور میری ذات تو ایک پھاڑ کھانے والے کتے جیسی ہے جس نے اپنے آپ کو صومعہ میں قید کررکھا ہے تاکہ کسی کو اپنی زبان سے نہ پھاڑ کھاﺅں۔“
میں نے اس سے سوال کیا ”اے راہب! کس چیز نے مخلوق کو اللہ کی طرف سے بہا رکھا ہے؟“
اس نے جواب دیا ”اے بھائی! اللہ کی معرفت کے بعد جس نے اس سے لوگوں کو بہکایا ہے۔ وہ حب دنیا ہے اور زینت دنیا ہے کیونکہ یہی چیزیں گناہ اور نافرمانی کی جڑہیں۔ عاقل ہے جو اس کو قلب سے نکال دور کرے اور اپنے گناہوں سے اللہ کے حضور میں توبہ کرے اور اللہ سے قریب کرنے والی اشیاءکی طرف متوجہ ہوجائے۔
٭٭٭
ظفر آباد میں حضرت میر سید اشرف جہانگیر سمنانیؒ کا مذاق اڑانے کی غرض سے کچھ لوگ ایک زندہ شخص کو کفن پہنا کر اور پلنگ پر لٹا کر آپ کے پاس لائے اور آپ سے درخواست کی کہ نماز جنازہ پڑھائیں۔
آپ نے اول تو انکار کیا لیکن جب وہ لوگ نہ مانے تو آپ نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ جب تکبیر پر جیسا کہ طے ہوا تھا کہ وہ شخص اٹھ بیٹھے گا، وہ نہیں اٹھا تو لوگوں نے پاس جاکر دیکھا۔ تو اس شخص کو مردہ پایا۔(جاری ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 142 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں