سیاسی توازن اور گڈ گورننس (حصہ ششم)
آپ مغرب کے بارے میں ضرور جاننا چاہیں گے۔ خاص کر ایسے ملکوں کے بارے میں جنکی گورننس مثالی مانی جاتی ہے۔ آپکو ضرور دلچسپی ہوگی ایک ایسے ملک کے بارے میں جاننے کی جو وطن عزیز سے آبادی میں لگ بھگ چالیس گنا چھوٹا ملک ہے۔ نارتھ پول پر واقع ہے اور مئی میں بھی کبھی کبھار ہمارے ہاں والے دسمبر جیسی سردی کی لہر آجاتی ہے۔ موسم سرما کی بات ہی نہیں کرتے۔گلیشیئر کے بارے میں تو سن رکھا ہے نا۔ اور نارتھ پول پر ایک تاریک گلیشئیرکا تصور کریں۔بڑا مہنگا ہے یہاں زندہ رہنا۔یقینا سیاچن جتنا مہنگا ہوگا۔آپ سردیوں میں بھی پنڈی اسلام آباد کے فٹ پاتھ پر موٹی رضائی اوڑھ کر رات گزار سکتے ہیں۔لیکن گلیشیئر پر آدھ گھنٹے میں جسم ٹھٹھرا ہوا مجسمہ بن سکتا ہے۔ آئیے رویوں کی بات کرتے ہیں۔اٹیچوڈز کی بات کرتے ہیں۔سوچ اور سمجھ کی بات کرتے ہیں۔ کیوں نہ کریں اس چھوٹی سی آبادی والے ملک کی کرنسی وطن عزیز کی کرنسی سے بیس گناہ بڑی جو ہے۔دو عشرے پہلے تک کرنسی کا یہ فرق پانچھ گنا تھا۔ یہ فرق بڑھتا گیا۔ یہ وائرس کی وبا ذرا چھٹ جانے دیں پھر دیکھتے ہیں یہ فرق کتنا بڑھتا جاتا ہے۔
آج صبح یہاں اوسلو میں ایک دکان میں جانا ہوا تو اخبار پر نظر پڑی۔ دو عورتیں کچھ پودوں پر جھکی ہوئی تھیں۔ انکی تصویر فرنٹ پیج پر تھی۔ میں ان دونوں عورتوں کو بہت اچھی طرح پہچانتا ہوں۔ پورا ملک پہچانتا ہے۔میں نے یہ اخبار خرید لیا ہے اور اپنے ساتھ لے آیا ہوں۔ یہ خواتین پودوں پر جھکی ہوئی ہیں۔ گارڈننگ کا شوق بھی ہے انکو۔ ایک ناروے کی سابقہ فنانس منسٹر ہیں دائیں بازو کی سیاسی جماعت کی لیڈر ہیں اور گذشتہ سات سال سے اس پورٹ فولیو کو سنبھالے رکھا ہے ۔ اور دوسری خاتو ن محترمہ ناروے کی وزیراعظم ہیں۔ یہ خواتین اپنے جتھے کے ساتھ ملک کو چلا رہی ہیں۔۔ جسے آپ بقیہ کابینہ کہہ سکتے ہیں۔ اخبار کی سرخی تھی کہ ہم عورت قانون کے خلاف ہیں۔عورت قانون سے کیا مراد ہے؟ آپ کیا سمجھے ہیں؟ یہاں مرد لوگ آپس میں بڑبڑاتے رہتے ہیں کہ اس ملک میں قانون سازی کا رخ اس طرف مڑا ہوا ہے کہ عورت کو مرد کے برابر بنانا ہے۔ اس کاوش میں خواتین کے حقوق پر اتنا زور رہا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں لڑکی کا قانون چلتا ہے۔ویسا باغیچے والی یہ خواتین اس بات کو مانتی نہیں ہیں۔اور ہاں جب میں مرد لوگ کہہ رہا ہوں تو میری مراد خاص کر ایشیا او ر افریقہ سے آے ہوے مرد لوگ ہیں۔ یہاں کے مقامی مردوں کو یاد ہی نہیں رہا کچھ۔ یہاں کے مردوں میں عورت کی صفات ترقی پاگئی ہیں لگتا ہے۔ ذرا بعد کی عمر میں انہیں افسوس رہتا ہے کہ کاش وہ بھی عورت ہی ہوتے۔ اگر اس ملک کی کرنسی میرے وطن عزیز کی کرنسی کے برابر ہوتی یا اس سے چھوٹی ہوتی تواللہ جانتا ہے یہ اخبار میں کبھی نہ خریدتاجسکی قیمت پاکستانی چار پانچ سو روپے ہے۔مجھے یاد ہے شروع شروع میں انگریزی اخبار ڈھونڈھنے نکلا تھا۔ کسی نے بتایا کہ لایبریری میں پتہ کریں۔ لائیبریری والوں نے برا سا منہ بنایا اور کہا کہ ادھر کوئی انگریزی اخبار نہیں آتا۔میں نے پوچھا یہاں ناروے میں انگریزی اخبار نہیں چھپتا؟ مجھے لگا موصوف نے مجھے حقارت سے دیکھاتھا۔ اور پھر بتایا کہ ٹائمز اور نیوز ویک کے پرانے شمارے آتے رہتے ہیں ۔ ویسا انگریزی بزنس لینگویج کے طور پر تو مانی جاتی ہے لیکن یہاں اپنی نارویجن زبا ن بولتے ہوے انگریزی کے جملے اور لفظ بولنا رواج نہیں ہے۔اور نہ ہی اسے پسند کیا جاتا ہے۔ اپنی مادری زبان میں اچھی سمجھ آنا قدرتی بات ہے۔ نئی ایپلیکیشنز آگئی ہیں جو اردو سمیت بیشتر زبانوں کے ساؤنڈ ترجمے کرتی ہیں۔ ویسا اگر آپ نے اردو ٹیکسٹ گوگل ٹرانسلیٹ کرنے کی کوشش کی ہے تو اس میں کافی خامیاں رہ جاتی ہیں۔ فیس بک کی پوسٹ پڑھتے ہوے اکثر پتہ نہیں چلتا ہمارے دوست اصل میں کیا کہنا چاہتے ہیں؟
ہم آپکو ان پھولوں پر جھکی ہوئی خواتین کے بارے میں بتارہے تھے۔ محترمہ وزیراعظم صاحبہ کی سالگرہ ستائیس فروری کو تھی۔ اور جس بات کا ذکر راقم اب کرنا چاہتا ہے۔ وہ ہی اصل بات ہے۔ کرونا وبا کی وجہ سے یہاں ناروے میں بھی لاک ڈاون ہے۔ لاک ڈاون کی خلاف ورزی پر جرمانہ ہوتا ہے۔ بات ہورہی ہے محترمہ وزیر اعظم صاحبہ کی سالگرہ کی۔ جنھوں نے اپنی سالگرہ کے ڈنر کا پروگرام بنایا۔ ظاہر ہے فیملی ممبرز کا دباو ہوا ہوگا۔ تیرہ سے چودہ ممبران نے ڈنر اکٹھے کیا ۔ خود وزیراعظم صاحبہ اس ڈنر میں شریک نہ ہوئی۔ وزیراعظم صاحبہ کے سالگرہ ڈنر کی خبر پوشیدہ نہ رہ سکی۔ میڈیا چیخ اٹھا کہ وزیراعظم صاحبہ کے سالگرہ ڈنر نے لاک ڈاون کی خلاف ورزی کی ہے۔ وزیر اعظم صاحبہ نے اگرچہ خود ڈنر میں شرکت نہیں کی تھی لیکن ڈنر کا پروگرام بنانے میں شامل تھی۔ چنانچہ محترمہ کو وہی سزا ہوگی جو اس صورت میں ملک کے کسی بھی عام شہری کو ہونی ہوتی ہے۔ لاک ڈاون کی خلاف ورزی کرتے ہوے چودہ افراد نے اکٹھے کھانا کھایا تھا۔
چنانچہ وزیر اعظم صاحبہ کو بیس ہزار کراون کا جرمانہ ہوا۔ اور قانون اور دستور کے تقاضے پورے کیئے گیے۔ آپ کے خیال میں یہ جرمانہ کیا جانا وزیراعظم صاحبہ کی توہین ہے؟ اس جرمانے کی ایک علامتی حیثیت ہے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ بظاہر یہ بیس ہزار کراون کا جرمانہ ایک چھوٹی سی بات لگتی ہے۔ لیکن اسکی علامتی اہمیت اور حیثیت بہت بڑی ہے۔ کیا اسی طرح کے قانون اور قاعدے اور اصول و ضوابط نے اس ملک کی کرنسی کو وطن عزیز کی کرنسی سے بیس گنا بڑا کردیا ہے۔اور کیا کیا وجوہا ت ہیں؟ ہمارے دفاعی اخراجات زیادہ ہیں کیا؟ناروے کے دفاعی چیلنجز کافی ہیں۔آے روز روسی ایٹمی آبدوزیں سمندری سرحدوں پر غوطہ خوری میں مشغول نظر آتی ہیں۔ روسی فوجی نقل و حمل پر ناروے کو تشویش رہتی ہے۔ اور یقینا نیٹو اتحاد والے جو نارتھ پول پر سرحدوں کی کڑی نگرانی کرتے ہیں۔ اپنا اچھا خاصا حصہ وصول کرتے ہوں گے۔
آپکو وطن عزیز میں سٹریٹیجک پالیسی شفٹ پر تحفظات ہیں کیا؟ سٹریٹیجک پلاننگ میں سافٹ بارڈرز کا کنسپٹ سٹیٹ کا معاشی بوجھ ہلکا کرنے کی طرف مثبت پیش رفت ہے۔ سٹریٹیجک پالیسی پلاننگ میں ایڈجسٹمنٹ اور ری ایڈجسٹمنٹ وقت کی ضرورت ہے۔اور خاص طور پر جب لہریں طغیانی پر ہوں اور سر کو پانی سے باہر رکھنا مشکل نظر آنے لگے تو یہ سروائیول سٹریٹیجی ہے۔ آپ سروائیو کریں گے تب ہی ری باونس کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ سٹیٹ گورننس کو ایفی شینٹ اور جدید بنانے کی کاوش وقت کی انتہائی تیز رفتار دوڑ میں ہماری بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ ہم تو اس بات پر قائل ہیں کہ سٹیٹ کی گڈ گورننس کی عمارت کی بنیادیں جن اصولوں پر رکھی جاتی ہے۔ عمارت کی پختگی براہ راست ان بنیادوں پر قائم اور دائم رہتی ہے۔ یہ اصول ایک سائنسی فارمولے کی طرح ہیں۔ سائنس پڑھے ہوے لوگ تو جانتے ہیں کہ فارمولہ سا ئنسی علوم کی چابی ہے۔ لیکن کوئی فارمولہ یا اصول کوئی چھلانگ یا جمپ بھی نہیں ہے کہ وہ اپلائی کرنے سے عمارت راتوں رات سکائی سکریپر بن جاے گی۔ عمارت تعمیر کرنا پڑتی ہے۔ اینٹ در اینٹ۔ منصوبہ بندی۔ محنت۔ وقت اور پیسے کے مصرف کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ اور ہاں جب کوئی بھی ٹیکنالوجی بیسڈ منصوبہ لانچ کیا جاتا ہے تو اسکی ابتدائی نوعیت ایک پائلٹ پراجیکٹ کی ہوتی ہے۔ اس پراجیکٹ کے فلاز اور لوپ ہولز، شارٹ کمنگز اور رسک فیکٹرز سے نپٹنا ایک ٹائم کنزیومنگ پراسیس ہے۔ ورنہ کس ترقی پذیر ملک کا دل نہیں کرتا کہ وہ ترقی یافتہ ہوجاے۔ راتوں رات قرضے ادا کردیے جائیں۔ فارن ریزیروز بڑھا دئیے جائیں۔ کرنسی ڈالر کا کندھا چونے لگے۔ اور ایک کچی آبادی کا مکین بھی جہاز کا ٹکٹ لے اور دنیا گھوم آے۔
اللہ ہمارا حامی اور ناصر ہو۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.