وفاقی دارالحکومت پر تحریک انصاف کا دھاوا
24نومبر کو اسلام آباد میں کیا ہو گا؟پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے24نومبرکو وفاقی دارالحکومت پر دھاوا بولنے اور دھرنے کی کال کے نتیجہ میں ایک سیاسی ارتعاش برپا ہو گیا ہے اور اس تناظر میں مختلف سوالات جنم لے رہے ہیں سیاسی تجزیہ کار اندازے لگا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی احتجاج،جلوس اور دھرنے کی یہ کال کس قدر کارگر ہوگی۔جلوس کا حجم کیا ہو گا؟ کیا پی ٹی آئی حکومتی پابندیوں اور رکاوٹوں کو عبور کر کے اسلام آباد پر دھاوا بولنے میں کامیاب ہو جائے گی اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو کیا دھرنا بھی ہو گا اور اس کی طوالت کتنی ہو سکتی ہے!دلچسپ امر یہ ہے کہ پی ٹی آئی یہ سیاسی طوفان اس وقت بپا کر رہی ہے جب حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ملکی معیشت کو درست ڈگر پر گامزن کیا ہے۔مہنگائی کم ہو رہی ہے،برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم ہونے جا رہا ہے،شرح سود میں کمی سے ملکی معیشت کا پہیہ قدرے تیزی سے چلنے لگا ہے۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم ہے، سٹاک مارکیٹ ہر روز نئی بلندیوں کی جانب گامزن نظر آتی ہے۔مہنگی بجلی کو سستاکرنے کی غرض سے آئی پی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کی جا رہی ہے جو کہ ایک انتہائی کٹھن، بلکہ ناممکن کام تھا اس پر بعض عالمی اداروں کی جانب سے تحفظات بھی سامنے آئے ہیں،لیکن حکومت نے عوام کے مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے اس تنقید کو برداشت کرنا گوارا سمجھا ہے۔گزشتہ دو اڑھائی سال کی محنت کے نتیجے میں جب معاشی ثمرات ملنے لگے ہیں تو پی ٹی آئی کی قیادت نے ملک کو پھر سے سیاسی انتشار میں دھکیلنے کے اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ایک ایسے وقت میں جب ملک معاشی لحاظ سے استحکام کے بعد ٹیک آف کرنے کی پوزیشن میں آ رہا ہے تو پھر سے سیاسی عدم استحکام کا راستہ ہموارکرنے کی کوشش ہو رہی ہے یہ تو پی ٹی آئی کی احتجاجی کال کا مجموعی تناظرہے لیکن اس عمومی تناظر کے ساتھ ساتھ کچھ مخصوص عوامل بھی نظر آ رہے ہیں۔ایک تو ان دنوں بیلاروس کے صدرکا پاکستان کا ایک دورہ متوقع ہے جو کہ دنیا اور بالخصوص خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں تزویراتی لحاظ سے غیر معمولی ہے۔دوئم سانحہ9مئی کے ملزمان کے کیفرکردار تک پہنچانے کے حوالے سے اہم عدالتی پیش رفت بھی نظر آ رہی ہے۔وفاق کی ایک اکائی کی جانب سے وفاقی دارالحکومت پر دھاجوا بولنے کی سنجیدہ دھمکی ایک تشویشناک صورتحال کی غماز ہے اب دیکھنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی مرکز اور پنجاب کی حکومتیں پی ٹی آئی کے جلوس اور دھرنے کے لئے کیا لائحہ عمل اپناتی ہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں تو دفعہ 144 نافذکر دی گئی ہے جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے بھی ہر ممکن اقدامات کے لئے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بھی کہا ہے ملکی معیشت درست سمت کی جانب گامزن ہے اور ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس محصولات کے حصول کے لئے سخت کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔غیر ملکی سفارتکار بھی وفاقی دارالحکومت کی سیاسی صورتحال پر فیڈ بیک لے رہے ہیں۔ ملک کے بیشتر حصے بالخصوص پنجاب اور کے پی کے ماحولیاتی آلودگی کے باعث ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجہ میں سموگ کا شکار ہیں اب بعض علاقوں میں بارش کی بدولت اس میں قدرے کمی واقع ہوئی ہے جبکہ پچھلے دنوں پاکستان سموگ کا بدترین شکار تھا انہی دِنوں وزیراعظم محمد شہباز شریف آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ماحولیات کی عالمی کانفرنس کوپ29- میں شریک تھے جہاں انہوں نے دیگر عالمی رہنماؤں کے ساتھ کلیدی خطاب کیا اور ماحولیاتی فنڈ کے قیام اور اس کی متاثرہ ممالک کو بآسانی فراہمی پر زور دیا۔انہوں نے اس موقع پرایک گول میز کانفرنس کی بھی میزبانی کی جس میں انہوں نے پاکستان کے بدترین سیلاب کے نتیجے میں تباہ کاریوں کے بعد ایک عالمی ڈونر کانفرنس میں کیے گئے وعدوں کو نبھانے پر زور دیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کوپ۔29 کے موقع پر حاشیہ پر بہت سے عالمی رہنماؤں کے ساتھ دوطرفہ ملاقاتیں بھی کیں ان ملاقاتوں میں قابل ذکر چین کے نائب وزیراعظم، آذربائیجان کے صدر عزت مآت الہام علیوف، چیک ریپبلک اور ڈنمارک کے وزیراعظم ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے تاجکستان کی میزبانی میں گلیشیرز کے حوالے سے بھی ایک اہم کانفرنس میں شرکت کی تاہم وزیراعظم کی وطن واپسی پر خوش قسمتی سے بارش کے نتیجہ میں سموگ میں کمی واقع ہو گئی اس باراسلام آباد بھی سموگ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔اگرچہ اسکا دورانیہ دو تین روز کا ہی تھا لیکن اس سے یہ اندازہ ہو گیا کہ اگر ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو سموگ کا روگ بڑھتا جائے گا بالخصوص اسلام آباد کے باسیوں کے لئے ہلکی پھلکی سموگ کی لہر بھی انتہائی تشویشناک تھی۔ وفاقی دارالحکومت میں ماحولیاتی آلودگی کی بڑی وجہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بے پناہ افزائش ہے۔ وی پی این کی بندش کا بہت چرچا ہے تاہم چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل(ر) حفیظ الرحمن نے واضح کیا ہے کہ صرف غیر رجسٹرڈ وی پی این کو بند کیا جا رہا ہے۔سینٹ آف پاکستان پارلیمانی سفارتکاری کے حوالے سے پیش پیش ہے جس کے لئے نہ صرف چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی بلکہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹر سیلال خان کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں اس ضمن میں گزشتہ ہفتے سپین سے ایک پارلیمانی وفد آیا جس کی میزبانی سینٹ نے کی۔
٭٭٭
24 نومبرکو کیا ہو گا، تشویش کا اظہار