مقتدرہ کی ناکامی
ہمارے معاشی معاملات سدھرتے دکھائی دینے لگے ہیں مہنگائی میں کمی آ رہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی آسمان کی طرف نہیں جا رہیں۔ ڈالر بھی قابو میں ہے۔ شرح سود میں ہوشربا کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ سرمایہ کاری کا حجم بڑھنے کی امید کی جا رہی ہے۔ ہاں بجلی کے معاملات اس طرح قابو میں نہیں آ رہے،جس طرح حکومت سے توقع کی جا رہی تھی۔ جماعت اسلامی کے دھرنوں کے دباؤ کے تحت حکومت نے کچھ مثبت اقدامات کئے ہیں لیکن بجلی کی قیمت ابھی تک کم نہیں ہو رہی ہے اور شاید آئے،کیونکہ معاملات کو اس نہج تک پہنچانے میں ہمارے پالیسی سازوں اور حکمرانوں نے خاصی محنت کی ہے اور بہت وقت صرف کیا ہے اور اب بھی وہی لوگ فیصلہ ساز ہیں۔ حکمران ہیں، جماعت اسلامی کی نئی قیادت نے خوب شور مچایا، ہوم ورک کرکے بات عوام تک پہنچائی اور انہیں حقائق سے آگاہ کیا۔ حکمرانوں نے تھوڑی دیر کے لئے عوام کو خوش کرنے کے لئے کچھ درشنی قسم کے اقدامات کئے، کچھ بیانات دیئے اور یہ جاوہ جا۔ عوام بھی اب ایسے معاملات کی عادی ہو چکی ہے۔ سموگ کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ عوام کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ حکمران اس معاملے میں بھی فائر فائیٹنگ کر رہے ہیں،کبھی ہندوستان کے ساتھ اس مسئلے پر بات چیت کرنے کی باتیں ہوتی ہیں۔ کبھی کچھ فیکٹریوں پر چھاپے مارے جاتے ہیں، کچھ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بند کیا جاتا ہے، کبھی سکول بند کئے جاتے ہیں اور عملہ حاضر باش کر دیا جاتا ہے، کبھی ورک فرام ہوم کی پالیسی نافذ کرنے کی باتیں ہوتی ہیں، کبھی کاروبار 8بجے شب بند کرکے سموگ سے نمٹنے کا اعلان کیا جاتا ہے، کوئی پائیدار حکمت عملی اختیار نہیں کی جاتی۔ ویسے حکمت عملی سے پہلے سوچ و بچار ضروری ہوتا ہے، ویژن ہوتا ہے، دوراندیشی اور دوربینی کے ساتھ مسئلے کو پرکھا جاتا ہے پھر کسی حکمت عملی کو اختیار کیا جاتا ہے۔خوش قسمتی سے ہمارے ہاں معاملات اپنے ہی ڈھنگ پر چلائے جاتے ہیں۔ ہم ہمیشہ معاملات کو ری ایکشن کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب کوئی مصیبت سر پر آن پڑتی ہے تو ہم لنگر لنگوٹ کس کر ری ایکٹ کرتے ہیں، مسئلہ حل ہو جائے تو یہ جاوہ جا۔وقتی طور پر معاملات حل ہو جائیں یا خطرہ ٹل جائے تو ہم خوش ہو جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم مسائلستان بن چکے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل حال کو دیکھتے ہوئے اپنے مستقبل سے قطعاً مایوس ہے۔ ہمارا جاری نظام معاملات کو حل کرنے اور مستقبل کی راہیں نکالنے اور دکھانے میں ناکام نظر آ رہا ہے۔ اس قسم کے حالات کے تناظر میں عمران خان ہمارے قومی سیاسی منظر پر ابھرے تھے انہوں نے جاری ہیئتِ حاکمہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ تبدیلی کا نعرہ لگایا نوجوانوں کو بہتر مستقبل کی امید دکھائی۔ پھر وہ مقتدرہ کے کاندھوں پر سوار ہو کر برسراقتدار آئے اور بری طرح ناکام ہوئے۔ وہ نیا نظام تو کیا دیتے، جاری،لولے لنگڑے نظام کے جوڑوں میں بیٹھنے لگے تھے ان کے ایسے برتاؤ کے باعث ریاستی انتظام و انصرام بھی خطرات کا شکار ہو گیا انہیں رخصت ہونا پڑا۔ اب وہ زخمی سانپ کی طرح پھنکار رہے ہیں، انقلاب کی کال دے چکے ہیں۔
24نومبر2024ء انہوں نے اپنے لوگوں کو سڑکوں پر آنے اور اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا حکم جاری کر دیاہے۔ مہنگائی، بجلی کی ہوشربا قیمتیں، دہشت گردی وغیرہ جیسے مسائل کے حل کے لئے نہیں بلکہ مقتدرہ پر دباؤ ڈالنے کے لئے کہ ”آؤ میرے ساتھ مذاکرات کرو“ یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔پی ٹی آئی ڈونلڈ ٹرمپ سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے کہ وہ مداخلت کریں گے اور عمران خان رہا ہوں گے۔ پی ٹی آئی کے مسائل حل ہوں گے۔ عمران خان نے آخری کال دے دی ہے۔ حکمران حسب ِ سابق اس کال سے نمٹنے میں لگے ہوئے ہیں اس سے پہلے پی ٹی آئی 5دفعہ مارچ کی کالیں دے چکی ہے ان مارچ کالوں کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت کا ہیولا تار تار ہوا۔ ٹائیگرز کی مبینہ دہشت ختم ہوئی۔ پارٹی میں موجود نااتفاقی کھل کھلا کر سامنے آئی۔ حد یہ ہے کہ پنجاب کے مرکز لاہور میں موجود قیادت کہیں نظر نہیں آئی۔ حد یہ ہے کہ لاہور کے ”عظیم الشان جلسے“ میں علی امین گنڈا پور اپنے جتھے سمیت نہ پہنچ سکے۔ جلسہ ختم ہونے کے بعد انہیں سرکاری اہتمام کے ساتھ سٹیج تک پہنچایا گیا تاکہ وہ اندھیرے میں بچے کھچے سامعین کے ساتھ خطاب فرما کر ویڈیو بنا لیں جسے سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل کرکے ”کامیاب جلسے“ کا پروپیگنڈہ کر سکیں۔
اطلاعات ہیں عمران خان کو ان کی زوجہ نے اور ان کی بہنوں نے مشورہ دیا ہے کہ کالے کوٹوں والوں سے جان چھڑالیں۔ وکیلوں نے عمران خان کی نہ کوئی قانونی مدد کی ہے اور نہ ہی ماورائے عدالت معاملات نمٹانے میں کوئی کارکردگی دکھائی ہے۔مفت میں مقدمہ لڑنے والے وکلاء کی کارکردگی انتہائی پست رہی ہے اس لئے انہیں پیشہ وارانہ بنیادوں پر مقدمات کا سامنا کرنے کے لئے بہترین وکلاء کی خدمات حاصل کرنا چاہئیں۔ دوسری طرف پارٹی کی وکلاء قیادت بشمول بیرسٹر گوہر علی اور سلمان اکرم راجا کی کارکردگی بھی صفر ہی نہیں منفی ہے انہیں ایک بڑی پارٹی، بڑی فالونگ کے ساتھ ملی تھی وہ اسے سنبھال ہی نہیں سکے پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ ویسے لگ رہا ہے کہ عمران خان نے مشورہ مان لیا ہے۔24نومبر کی کال کی اطلاع یا اعلان پارٹی قیادت کے ذریعے نہیں بلکہ اپنی زوجہ کے ذریعے دیا ہے پارٹی ایم پی ایز اور ایم این ایز کی میٹنگ بیگم صاحبہ نے کال کی اور انہیں لانگ مارچ کو کامیاب بنانے کے لئے احکامات دیئے۔ بیرسٹر گوہر اور سلمان اکرم راجہ پچھلی صفوں میں جاتے محسوس ہو رہے ہیں۔ پارٹی تنظیمی لحاظ سے تووڑ چکی ہے لانگ مارچ ایک ٹیست ہے کہ اس کی عوامی مقبولیت کا بھانڈہ بھی پھوٹ جائے گا۔
دوسری طرف ہمارے حکمران / مقتدرہ کی کارکردگی بھی قابلِ ستائش نہیں ہے۔ نظری و فکری طور پر وہ عمران خان اور پی ٹی آئی کا ”ملک دشمن“ چہرہ عوام کے سامنے لانے میں قطعاً ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ 9مئی کے واقعات کے حوالے سے عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ فکری اور عملی میدان میں جو سلوک کیاجانا چاہیے تھا وہ نہیں کیا گیا۔ عمران خان کا گولڈ سمتھ خاندان سے تعلق اور اس کا سیاست میں اطلاق، عالمی صیہونی لابی کا عمران خان کے لئے نرم گوشہ، پی ٹی آئی کی امریکہ و برطانیہ میں سرگرمیاں اور علی ہذا القیاس معاملات کو عوام کے سامنے لانے میں مقتدرہ کی ناکامی بھی عیاں ہے۔ حکمران عمران خان کی مزاحمتی سیاست کو ناکام بنانے میں مصروف ہیں اس کی احتجاج کی کالوں سے نمٹ بھی رہے ہیں لیکن کسی حجت پر؟ کنٹینر لگا کر، شہر بند کرکے، کاروبار زندگی مفلوج کرکے معاملات چلائے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح فتنہ خوارج کے خلاف یکسوئی کے ساتھ نمٹا جا رہا ہے اسی طرح فتہ عمرانیہ کے ساتھ نمٹنے کی حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے۔