امریکہ رویہ،کیا نیا بلاک ممکن ہو گا؟
وزیراعظم محمد شہباز شریف اِسی ماہ امریکہ جا رہے ہیں، وہاں انہوں نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنا ہے،اس کے علاوہ دیگر مصروفیات کے حوالے سے تاحال آگاہ نہیں کیا گیا۔وزیراعظم کے نیو یارک پہنچنے سے قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں اسرائیل کو غزہ سے نکل جانے کے لئے کہا گیا ہے،جبکہ لبنان میں سائبرز کرائم کے ہونے والے دھماکوں اور جانی نقصان کے ایشو پر سلامتی کونسل کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا،ان دھماکوں کے حوالے سے یہ الزام لگایا گیا کہ امریکہ اور اسرائیل کی ملی بھگت سے یہ سانحہ ہوا، ابتداء میں اسرائیل نے تردید کی اور امریکہ کی طرف سے لاتعلقی کا اعلان ہوا، تاہم اگلے ہی روز اسرائیلی وزیر فاع نے بالواسطہ ذمہ داری قبول کر لی انہوں نے کہا کہ اب محاذ جنگ بھی تبدیل ہو گیا اور حزب اللہ کو اس سے بھی سنگین نتائج بھگتنا ہوں۔دوسری طرف امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ان دھماکوں سے اپنے تعلق کی تردید اور تحقیقات کا اعلان کیا تاہم امریکی وزیر دفاع نے اسرائیلی وزیر دفاع کو فون کر کے امریکی حمایت کا یقین دلایا۔
غزہ کے بعد لبنان میں ایسی دہشت گردی اور امریکی حمایت کے بعد اسرائیل نے لبنان سے پھر جنگ کا عندیہ دیا اور حزب اللہ نے جوابی کارروائی کا اعلان کیا ہے، ایران کے صدر نے اسرائیلی کی مکمل حمایت پر امریکہ کی مذمت کی اور کہا کہ امریکہ براہ راست ان جرائم میں شامل ہے۔
یہ جو کچھ ہو رہا، نیا نہیں،کشیدگی تو عرصہ سے چلی آ رہی ہے،لیکن ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا جب سے اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا عمل شروع کر رکھا ہے اور اس میں اسے امریکہ اور یورپی ایٹمی ممالک کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے،لبنان میں ہونے والے حادثوں کی وجہ سے ایک اہم خبر اوجھل ہو گئی،ہمارے میڈیا میں بھی یہ موجود ہے،لیکن دبی دبی سی ہے،حالانکہ ٹی وی کے خبرنامے میں چلی تھی،اس کے مطابق امریکی ترجمان میتھیو ملر نے بریفنگ کے دوران کہا کہ امریکہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے خلاف ہے،گو پاکستان امریکہ کا قدیمی شراکت دار ہے، لیکن بیلسٹک میزائل پروگرام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔وزارتِ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے یہ بھی بتایا کہ امریکہ نے ایسی چھ سات کمپنیوں پر پابندی عائد کی ہے، جن سے پاکستان میزائل پروگرام کے لئے مطلوبہ سامان خریدتا ہے۔
یہ سب اس وقت ہو رہا ہے اور امریکہ کا رویہ بالکل واضح اور اسلام دشمن ہے، لیکن دُکھ تو یہ ہے کہ مسلمان ممالک ہی امریکی خوف کے باعث غزہ اور لبنان کے معاملے پر بھی مذمتی بیانات سے آگے نہیں بڑھ پا رہے ہیں اور یوں کبوتر کی طرح آنکھ بند کر کے بلی کے گذر جانے کی توقع رکھتے ہیں،حالانکہ آنکھیں بند کر لینے سے خطرہ ٹل نہیں جاتا اور اب تو اسرائیل نے امریکی تعاون سے لبنان میں پہلے پیجر اور پھر گھریلو الیکٹرک آلات کے دھماکے کر کے ٹیکنالوجی میں اپنی برتری منوانے کی کوشش بھی کی ہے۔
ان دِنوں پاکستان میں سیاست گری مسلسل خوار ہو رہی ہے اور کسی کو بھی ان حالات اور ملک کی فکر نہیں،ہر کوئی اپنا اپنا سکور برابر کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے،میرا خدشہ یہ ہے کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف کا آنے والا دورہ امریکہ مشکل ترین ثابت ہو گا اور ان کو خارجہ حکمت عملی اور ڈپلومیسی کو بروئے کار لاتا ہو گا۔یوں بھی حالات حاضرہ کی روشنی میں کسی فائدے کی کوئی توقع نہیں۔یہ دور ایسا آ گیا کہ ہمارے اکابرین ملکی سلامتی کے حوالے سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور باہمی مشاورت کے بعد ملکی سلامتی کے لئے ایک مفصل پروگرام پر متفق ہو کر آگے بڑھیں،امریکہ نے کبھی بھی نہیں چھپایا کہ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے خوش نہیں اور ایران کو ایٹمی قوت بنتے نہیں دیکھ سکتا، حال ہی میں امریکہ نے ایران کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کیا اور الزام لگایا ہے کہ ایران نے روس کو بیلسٹک میزائل فراہم کئے ہیں۔
دنیا اور خطے کی اس مجموعی صورتحال کے دوران ہی روس کے نائب وزیراعظم الیکسی اوورچک نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا اور یہاں وزیراعظم اور آرمی چیف سے ملاقات کے علاوہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار سے مذاکرات کئے اور ہر دو نے طے کیا کہ معاشتی اور تجارتی سطح پر تعاون کے علاوہ توانائی کے شعبہ میں بھی مشترکہ تعاون بڑھائیں گے۔
روس کے نائب وزیراعظم کا یہ دورہ معروضی حالات میں انتہائی اہم اور اس سے بھی یہاں مغربی مفکرین کی اس تھیوری کو تقویت ملتی ہے کہ مستقبل میں دنیا میں تبدیلی واقع ہو گی اور امریکہ اور روس کے دو بلاکوں میں اراکین ممالک بھی تبدیل ہوں گے۔ ان مبصرین نے تحقیق کے بعد یہ کہا تھا کہ مستقبل قریب میں ایران کے بعد پاکستان بھی روس کے قریب ہو گا اور غزہ میں جاری نسل کشی کے باعث کئی دوسرے مسلمان ممالک بھی روس کی طرف جھک سکتے ہیں اور یوں ایک نئی کشمکش شروع ہو گی۔روسی بلاک میں اب چین اور ایران تو ہیں ہی،پاکستان کو بھی مجبوراً شامل ہونا پڑے گا اور یوں امریکہ کے مقابل ایک بڑا مضبوط بلاک سامنے آئے گا کہ امریکی پالیسیوں کے باعث اب تو امریکہ کے مقابلے میں روس کی ضرورت اور بڑھتی جا رہی ہے،اِس لئے نئے بلاک کے لئے روس اور چین کے علاوہ کئی اور اسلامی ممالک بھی ساتھ دیں گے۔یہ نئی صورتحال واضح طور پر بنتی نظر آ رہی ہے اور پاکستان کو دنیا اور اپنے معروضی حالات کو پیش نظر رکھ کر پالیسی وضع کرنا ہو گی۔