یہ کیس اب میرے سامنے آ گیا ، ملوث پولیس افسروں کو چھوڑوں گا نہیں،چیف جسٹس عامر فاروق کے شہریوں کو حبس بے جا میں رکھنے کے کیس میں ریمارکس
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)اسلام آباد پولیس کی جانب سے 3شہریوں کو حبس بے جا میں رکھنے کیخلاف کیس میں چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آئل ٹینکرز گم ہونے کا کیس ہے اور ملزمان کا براہ راست تعلق بھی نہیں،یہ کیس اب میرے سامنے آ گیا ہے تو میں اس پر آرڈر کروں گا، میں اس کیس میں ملوث پولیس افسروں کو چھوڑوں گا نہیں۔
سما ٹی وی کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں اسلام آباد پولیس کی جانب سے 3شہریوں کو حبس بے جا میں رکھنے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی،عدالتی طلبی پر آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی عدالت میں پیش ہوئے،اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام آباد پولیس افسران کے نظام احتساب پر سوالات اٹھا دیئے ۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ آئی جی صاحب!آپ اسلام آباد پولیس کے سب سے بڑے آفس ہولڈر ہیں،آپ کے افسران کی وجہ سے آپ کو بار بار عدالت پیش ہونا پڑتا ہے،میں نے ڈی آئی جی اسلام آباد کو طلب کیاتھا مگر بتایا رابطہ نہیں ہورہا،ایک ڈی آئی جی موجود نہ تھاتو کوئی دوسرا عدالت پیش ہوجاتا،اگر میں نے آرڈر کیا ایک افسر پیش ہو تو اس کا مطلب ہے پیش ہو۔
آئی جی اسلام آباد نے کہاکہ ایک ڈی آئی جی موجود تھے اور ان کو عدالت میں پیش ہونا چاہئے تھا،چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہاکہ آپ کے ادارے میں اختیارات کے ناجائز استعمال کی انتہا ہے یہ کیس مثال ہے،درخواستگزار وکیل کے مطابق تینوں کو 17ستمبر کو ایس پی آفس سے اٹھایا گیا، پولیس کہتی ہے 19ستمبرکو مقدمہ درج کرکے گرفتار کیا اسی دن ریمانڈ لے لیا، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ کیا اتفاق ہے بازیابی درخواست آنے کے بعد مقدمہ بھی ہو گیا اور ریمانڈ بھی؟جج نے کہاکہ پولیس نے خود کو بچانے کیلئے کاغذی کارروائی پوری کی، اتفاقات پر یقین نہیں رکھتا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آئل ٹینکرز گم ہونے کا کیس ہے اور ملزمان کا براہ راست تعلق بھی نہیں،یہ کیس اب میرے سامنے آ گیا ہے تو میں اس پر آرڈر کروں گا، میں اس کیس میں ملوث پولیس افسروں کو چھوڑوں گا نہیں،آئی جی اسلام آباد نے کہاکہ میں اس معاملے کو خود دیکھوں گا اور تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دوں گا، چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہاکہ عوامی اعتماد نہیں رہے گا تو آپ اور ہم کہاں جائیں گے؟دکھا سکتا ہوں آپ کے افسروں کیخلاف انتظامی سائیڈ پر کتنی شکایات آتی ہیں،میرے پاس سوموٹو اختیار نہیں ان درخواستوں پر کچھ نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ پولیس زمینوں پر قبضے، خریدوفروخت میں ملوث ہے،ایک ایس پی ڈھائی ہزار کنال زمین لیتا ہے اور سب اس کو تحفظ دینے میں لگ جاتے ہیں،یہ سارا کچھ کہاں سے آ رہا ہے یہ چیزیں کیوں ہو رہی ہیں؟چیف جسٹس ہائیکورٹ نے آئی جی اسلام آباد سے استفسار کیا کہ کیا ہم قابل احتساب نہیں ہیں؟میں تو مجسٹریٹ کیخلاف بھی لکھوں گا کیا مواد موجود تھا اس نے ریمانڈ دے دیا،ایف آئی آر میں تو پولیس اہلکاروں کے بھی ملوث ہونے کا لکھا گیا ہے،چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیاکہ پولیس کے کون سے بندے کی شناخت ہوئی ہے؟عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو تحقیقات کرکے 24ستمبر تک رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔