ضرورت لیڈر کی یا لیڈر پہچاننے کی؟
اسلام اور سیاست دو ایسے شعبے ہیں کہ ہر پاکستانی خود کو نہ صرف ان کا ماہر سمجھتا ہے بلکہ ان پر اپنی رائے دینا بھی نہایت ضروری سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں نہ تو سیاسی شعور آسکا ہے اور نہ ہی فرقہ واریت ختم ہوئی ہے۔
سیاسی یا انقلابی لیڈر کو پرکھنے کے پیمانے ہر شخص کے اپنے اپنے ہیں۔ علماء حضرات کے نزدیک جسے اسلام کی معلومات سب سے زیادہ ہوں وہی بڑا لیڈر ہوتا ہے، نوجوان سمجھتے ہیں جس نے سلیبریٹی ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ رفاہی کام بھی کئے ہوئے ہوں وہی بڑا لیڈر ہے، عام لوگوں کی نظر میں بڑا لیڈر وہ ہے جو سادہ کپڑے پہنے اور ہر کسی سے گھل مل جائے، سیکولر لوگوں کی نظر میں وہی بڑا لیڈر ہے جو مغربی فلاسفرز کو آئیڈیل سمجھے اور ہر مذہب سے نفرت کرے۔ کچھ لوگ اگر کسی فیلڈ کے ماہر کو دیکھتے ہیں تو اسے لیڈر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ وہ صرف اپنی ہی مخصوص فیلڈ کا ماہر ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک انقلابی لیڈر دور اندیش اور ویژن جیسی صلاحیتوں سے مالامال ہوتا ہے، وہ نہ صرف اپنے ملک کی سیاست کو سمجھتا ہے بلکہ بین الاقوامی سیاسی معاملات پر بھی اس کی گہری نظر ہوتی ہے، اس کی توجہ انتخابات جیتنے کی بجائے نسلوں کو سنوارنے پر ہوتی ہے، وہ حقیقی معنوں میں بے باک اور نڈر ہوتا ہے، اپنے نظریات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا، وہ کسی ایک مخصوص مذہبی یا سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ نہیں رکھتا بلکہ اسلامی اور سیاسی اتحاد کا قائل ہوتا ہے، تمام سیاسی اور مذہبی شخصیات اس سے مختلف امور میں رہنمائی حاصل کرتی ہیں، وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ جس ملک میں وہ انقلاب لانا چاہتا ہے اس میں انقلاب مخالف قوتیں کون کون سی ہیں اور کس طرح کا حکومتی ماڈل اس ملک میں حقیقی تبدیلی لا سکتا ہے، وہ دنیا کے جس خطے میں بھی جائے، اس کی اپنے وطن سے محبت صاف نظر آتی ہے۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ قائد اعظم کے بعد پاکستان میں کوئی حقیقی لیڈر آیا ہی نہیں ہے، یہ بات پر لے درجے کی بے وقوفی پر مبنی ہے، حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی قوم نے حقیقی لیڈر کے اوصاف رکھنے والی کسی شخصیت کو پہچانا ہی نہیں بلکہ اپنی دلی تسکین کے لئے ہر کسی نے لیڈر کے الگ الگ اوصاف گھڑ لئے اور جس شخصیت پر وہ فٹ بیٹھے اسے لیڈر سمجھ لیا۔
فرض کریں اگر لیڈر کے حقیقی اوصاف کآ حامل کوئی شخص دعوی کرے کہ میں پاکستان کا مقدر بدل دوں گا تو کیا ہر پاکستانی اسے لیڈر مان لے گا؟ بالکل نہیں، کیونکہ وہ اسے اپنے مخصوص اور محدود اوصاف پر پرکھنے کی کوشش کرے گا اور جب اس کے من گھڑت پیمانے پر وہ لیڈر پورا نہیں اترے گا تو وہ اس کی مخالفت کرنا شروع کر دے گا۔ اس لئے پاکستان میں ضرورت لیڈر کی نہیں بلکہ لیڈر پہچاننے کی ہے، ورنہ قائد اعظم جیسی کوئی شخصیت بھی یہاں آئی تو اس کی بھی حقیقی خوبیاں دیکھنے کی بجائے کسی کو اس کے فرقے اور مسلک پر اعتراض ہوگا، کسی کو کلین شیو کرنے پر، کسی کو کوٹ پینٹ اور ٹائی لگانے پر تو کسی کو سگریٹ نوشی پر۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ پاکستانی قوم کو حقیقی لیڈر کا شعور عطا فرمائے، آمین۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.