جینے کا حق
تھامس فریڈمین نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "The World is Flat" (دنیا چپٹی ہے) میں متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ” اگر دنیا کی آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو یہ ہمارے سیارے کو خطرناک حد تک غیر مستحکم کر سکتی ہے اور یہ کہ ”دنیا کو مستحکم انداز سے چلانا ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ “
2018ءکی عبوری حکومت میں جہاں میرے پاس قانون اور اطلاعات کی وزارت تھی ، وہیں وزارت آبپاشی ،پٹرولیم اور توانائی کا اضافی قلمدان بھی سونپا گیا تھا۔ اس دوران مختلف اعداد و شمار نظر سے گزرے تو میں بھی اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر پاکستان نے بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو نہ پایا تو اس کے لیے اپنے اہداف تک پہنچنا مشکل ہوجائے گا۔ میں افزائش آبادی سے پیدا ہونے والے انتہا پسندی کے طوفان کو دیکھ رہا ہوں جو دیہی افراد کی مجبوراً شہری علاقوں کی طرف منتقلی سے پیدا ہوگا۔ آج بھی پاکستان کی 20 فیصد آبادی ملک کے 10 بڑے شہروں میں رہتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2025ءتک ملک کی آدھی آبادی شہروں میں منتقل ہوچکی ہوگی۔
استعارے کے طور پر زیادہ آبادی والے شہروں کو جنگل کہا جاتا ہے جہاں بیروزگار اور مایوس نوجوان انتہا پسند عناصر کے چنگل میں بآسانی پھنس جاتے ہیں۔
گو نوجوانوں کی بڑھتی آبادی آج ملک کے لیے فائدہ مند ہے لیکن اگر آبادی میں اسی انداز سے اضافہ ہوتا رہا تو یہ فائدہ نقصان میں تبدیل ہو کر ملک کے استحکام کے لیے خطرہ ثابت ہوگا۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان ہی وہ ملک ہے جس نے پہلی بار افزائش آبادی کی روک تھام کی طرف توجہ دلائی تھی ۔لیزلی کورسہ کو 1965ءمیں پاکستان کی پہلی خاندانی منصوبہ بندی کنسلٹنٹ کی حیثیت سے نامزد کیا گیا ۔ وہ لکھتی ہیں ”پاکستان بہت خوش قسمت ہے کہ اُس کے صدر نے شروع ہی میں ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی پر غورو فکر کرنے کا فیصلہ کیا۔“ اُس وقت پاکستان کی آبادی 100 ملین سے کچھ اوپر تھی۔
بدقسمتی سے پاکستان میں پالیسی اور اُس کے نفاذ کے درمیان ایک طویل بُعد رہا ہے۔ اُس پر مزید یہ کہ آٹھویں ترمیم کے بعد خاندانی منصوبہ بندی کے شعبے کو صوبوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اب تک اس معاملے پر بہت دلفریب باتیں اور بلند و بانگ وعدے کیے جا چکے ہیں مگر کسی ایک وعدے پر بھی عمل نہیں ہوا ۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی آبادی بڑھنے کی سالانہ شرح 2.4% اور ملک کی مجموعی آبادی 208 ملین تک جا پہنچی ہے۔ اگر اسی تناسب سے آبادی بڑھتی رہی تو اندازہ ہے کہ 2050ءتک پاکستان کی آبادی 337 ملین کو پہنچ جائے گی۔
انسانوں کے اس سیلاب سے نمٹنے کیلئے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
آبادی پر قابو پانے کے حوالے سے مختلف ماڈل موجود ہیں۔ چین میں 'One Child Policy' کے تحت لوگوں کو جبراً پابند کیا گیا کہ وہ ایک بچے کی پیدائش تک خود کو محدود رکھیں۔ چین کیلئے اس پالیسی پر عمل کروانا آسان تھا کیونکہ وہاں آمرانہ طرز حکومت رائج ہے۔ اسی طرح بھارت نے ’نس بندی‘ کے ماڈل کو اپنایا۔ یہ اندرا گاندھی کی حکومت کے دوران کیا گیا۔ اس کے نتائج بھی بھیانک نکلے۔ بنگلہ دیش نے ’مطلب ‘کے نام سے علماءکرام کی مدد سے ایک پروگرام کا اجراءکیا تاکہ لوگوں کو خاندانی منصوبہ بندی اپنانے میں آسانی ہو۔ اس پروگرام کو بھی خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی۔
ان سب کے برعکس ایران کا خاندانی منصوبہ بندی ماڈل سب سے زیادہ مفید اور قابل عمل رہا۔ ایران کے دیہی علاقوں میں جس تیزی سے آبادی میں کمی آئی اُس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ 1996ءمیں اگر وہاں افزائش آبادی کی شرح 6.5فیصد تھی تو 2012ءمیں 1.6 فیصد ہوگئی۔ اس منصوبے کی تکمیل کا اصل سال 2011ءتھا۔ مگر 11 سال پہلے 2000ءہی میں اُسے مکمل کرلیا گیا۔ ہمیں بھی ایرانی ماڈل سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔
ایرانی ماڈل کی کامیابی کی وجہ علمائے کرام تھے۔ جن کی پشت پر امام خمینی اور دوسرے اکابرین دین کا فتویٰ موجود تھا۔ لوگوں کو بتایا گیا کہ مانع حمل اشیاءاگر خاوند کی مرضی سے استعمال کی جائیں اور اُن سے میاں بیوی کی صحت پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں تو اُن کا استعمال کسی صورت بھی اسلامی اقدار سے متصادم نہیں ۔
اس پالیسی کو نافذ کرنے کیلئے بہت بڑے پیمانے پر صحت کے مراکز بنائے گئے۔ پڑھی لکھی خواتین کو ملازمت پر رکھا گیا اور انہیں جدید تربیت کے ذریعے ہیلتھ ورکر بنا کر دیہاتوں میں خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کے نفاذ کیلئے بھیجا گیا۔
ایرانی حکومت نے عورتوں کو بااختیار بنانے کے پروگرام پر کام شروع کیا ۔ ایرانی حکومت کا ماننا تھا کہ عورتوں کو با اختیار بنائے بغیر آبادی پر قابو پانے کی پالیسی کو کامیاب نہیں بنایا جاسکتا۔
اس حکمت عملی کے ثمرات آج عیاں ہیں۔ ایران میں عورتوں کے کام کرنے کا تناسب 65 فیصد جبکہ مردوں کا 35 فیصد ہے۔ جن ہیلتھ ورکرز کو خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کے نفاذ پر مامور کیا گیا تھا انہی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ خواتین کے اندر با اختیار ہونے کا شعور پیدا کریں۔
پاکستان اور ایران کے کلچر میں بہت مماثلت ہے۔ ہمارے پاس ایک بنا بنایا پروگرام ہے، جسے تھوڑی بہت ترمیم کے بعد بآسانی نافذ کیاجاسکتا ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے مذہبی علماءاور اکابرین دین کو اس بات پر متفق کرنے کی ضرورت ہے کہ مانع حمل اشیاءنہ تو مضر صحت ہیں اور نہ ہی اسلامی اقدار سے متصادم۔ اسی کے ساتھ ہمیں صحت کے شعبے پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
ایران کے پروگرام کی کامیابی کی اہم وجہ اسکی افادیت کو بہترین انداز سے عوام تک پہنچانا ہے۔ پاکستان کو بھی اسی انداز سے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا ہوگی۔ اس کے لیے تھیٹر کے میڈیم کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہم خاندانی منصوبہ بندی میں بیرونی طاقتوں کی شمولیت جیسی غلط فہمیوں کو ختم کرسکتے ہیں۔
مالتھس نے افزائش آبادی سے پیدا ہونے والے نقصانات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے 200سال پہلے اپنی تحریر "An Essay of the Principle of Population" میں کہا تھا کہ انسانی آبادی بہت بری طرح بڑھے گی ، یہاں تک کہ آفات اور مصائب اُس میں کمی لائیں گے۔ مالتھس پر بات کرتے ہوئے شہرہ آفاق Naturalist (فطرت پسند) سر ڈیوڈ اٹین بورو نے کہا ہے کہ ”جوبات مالتھس نے کی وہ بنیادی طور پر درست ہے۔ دنیا میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو کھانا دینا ناممکن ہے۔ “
آبادی کی منصوبہ بندی Millinium Development Goal کا اہم حصہ ہے اور پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے بھی اسے ”زندہ رہنے کا حق “سے تعبیر کیا ہے۔
سی پیک کی وجہ سے پاکستان میں ترقیاتی اہداف مکمل کیے جا رہے ہیں۔ آج مرکزی حکومت کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ اٹھارہویں ترمیم کے باوجود نوجوان نسل کو بوجھ بننے کی بجائے ملکی سرمائے میں تبدیل کرے۔