نئی فصل کے آٹے کی روٹی مکھن اور گلاب کے پھولوں کے بیچ رکھے 2 پیالے

نئی فصل کے آٹے کی روٹی مکھن اور گلاب کے پھولوں کے بیچ رکھے 2 پیالے
نئی فصل کے آٹے کی روٹی مکھن اور گلاب کے پھولوں کے بیچ رکھے 2 پیالے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : عمران الحق چوہان 
قسط:165
ولی عہد پہلے آکر، بشمول ہمارے، سب حاضرین سے ملے۔ ان کے ساتھ ان کی چودہ پندرہ برس کی بیٹی بھی تھی جس نے سرخ رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے اور اس کی مشابہت، اسی کی ہم عمر میری بھانجی مشعل سے بہت زیادہ تھی۔ معانقوں اور مصافحو ں کے بعد ولی عہد کو اندر کمرے میں لے جایا گیا اور ایک بار پھر سب حا ضرین ان کی برامدگی کا انتظار کرنے لگے۔ سمیع اور معاویہ پہلی بار ہنزہ آئے تھے اور اس طرح حیران اور خوش تھے جیسے پریوں کی کسی کہانی میں آگئے ہوں۔ گینانی میں شرکت تو خود اعظم، ندیم اور میرے لیے بھی حیران کن تھی۔ ولی عہد کو باہر آ نے میں تاخیر ہو ئی تو لوگ بھی مضطرب ہو نے لگے۔اب چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کا انتظار تھا۔جب یہ انتظار طول کھینچنے لگا تو لوگ اونچی آواز میں نا راضی ظاہر کر نے لگے۔ آخرولی عہد کچھ لوگوں کی معیت میں خود ہی باہر آ گئے۔ اس بار وہ اصل شاہ زادہ بن کر آئے تھے۔ انہوں نے سیاہ رنگ کا کمخواب قسم کے کپڑے کا چوغہ پہن رکھا تھا جس پر سلمہ ستارے کا انتہائی نفیس اور اعلیٰ کا م دکھائی دے رہا تھا۔ سر پر”پٹو“کی سفید گرم روایتی ٹوپی تھی جس میں سامنے کے رخ سفید اور سیاہ پر وں کا شنتی یا شانتی یعنی پلیو مِج (plumage) سجا ہواتھا (یہ پلیومِج خاص پروں سے بنتا ہے جن کا حصول روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے اس لیے نئی نسل اب سنتھیٹک کے مصنوعی پر استعمال کرنے لگی ہے)۔ سلیم خان کے ہاتھ میں ایک تلوار تھی جو اس وقت نیام میں تھی۔ وہ آکر گول برامدے میں تخت پر بیٹھ گئے اور دوبارہ چیف سیکریٹری کا انتظار ہو نے لگا۔ جب یہ دورانیہ طویل ہو گیا تو تقریب اس کے بغیر ہی شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ موسیقی تھم گئی۔تلاوت سے آغاز کے بعد ایک نہا یت دبلا آدمی کھڑا ہوا۔ وہ سبز اور نیلی دھاریوں والی عبا پہنے ہوئے تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ او نی کپڑے سے بنی عبا کو چوغہ اور بروکیڈ کی بنی عبا کو ”جَپُّن“کہا جاتا ہے۔ اس کا پتلا سنجیدہ چہرہ، ہو نٹوں پر اوندھی لمبی چھدری بھوری مونچھیںاور عربی بِشت نماعبا دیکھ کر مجھے ننجا ٹرٹل کاماسٹر سپلنٹر(splinter) یاد آگیا۔ اس کے تاثرات سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ صورت ِ حال کو بہت سنجیدہ لے رہا ہے اورخو د کو بہت اہم سمجھ رہا ہے۔ اس نے تہہ کیا ہوا ایک طومار کھول کرپڑھنا شروع کیا جیسے کوئی شاہی فرمان سنا رہا ہو۔ اس نے جشن کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ یہ جشن 21 سے 30جون کے درمیان منایا جاتا ہے۔ اس موسم میں جَو کی فصل پکتی ہے اور چیری کا پھل تیار ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ اس نے بتا یا کہ لاطینی امریکہ کے بعض ملکوں، مثلاً بولیویا میں بھی ایسا ہی جشن منایا جاتا ہے جس کا آ غاز ”سورج کا دروازہ“ کھولنے سے ہو تا ہے۔پھر ایک اور صاحب نے ہنزہ اور اس کے باسیوں کی تعریف میں لکھی گئی شاعری پڑھی۔ دوران تقریب میر سلیم کے ساتھ تخت پر بیٹھی ان کی بیٹی، گرد و پیش کی ساری ثقافتی اور تہذیبی گہما گہمی سے بے نیاز اپنے فون پر مسلسل ٹیکسٹنگ میں یا کسی کھیل میں مصروف تھی کیوں کہ اس کی نظر سکرین پر مرتکز تھی اور دونوں انگوٹھے مسلسل حرکت کر رہے تھے جب کہ ولی عہد اپنے شاہی چو غے اور شاہی تخت و شمشیر کے ساتھ جام ِ مئے ناب کے بجائے کولڈ ڈرنک کا کین پی رہے تھے(سب کچھ بدل رہا ہے!)۔ اچانک وادی کی فضا ءہیلی کاپٹروں کی کریہ آواز سے لرزنے لگی اور تقریب کا سارا سحر چکنا چور ہو گیا۔ 2ہیلی کاپٹر نیچے وادی میں اڑتے نظر آ نے لگے۔یہ غالباً سیکریٹری صاحب تھے۔ لیکن اب جشن ان کے بغیر ہی شروع ہو چکا تھا۔ مجھے عبیر ابو ذری کے ناقابلِ اشاعت کلام کا ایک شعر یاد آگیا :
آجاندے تے شان اوھناں دی ودھنی سی
 نئی آئے تے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اگر وہ آجاتے تو انہی کی شان بڑھنی تھی، لیکن نہیں آئے تو۔۔۔ اس سے آگے وہ بات ہے جس کے باعث یہ ناقابلِ اشاعت ہے)۔
چند لوگ میر صاحب کی بیٹی کو قریبی کھیت تک لے گئے اور کچھ دیر بعداس ننھی لڑکی سے نئی فصل کٹوا کرپکی ہو ئی جو کے خو شے ایک تھال میں رکھ کر لے آئے۔موسم ِ ِ بہار کے آ غاز اور ہنزہ کی اس نو عمر بیٹی میں ایک گہرا رشتہ تھا۔ اس وقفے میں مَیں نے میر سلیم کے ساتھ تصویر بنوانے کی خواہش ظاہر کی تو منتظمین ذرا ہچکچا ئے لیکن پرنس سلیم نے مجھے پاس بلا کر تخت ہی پر اپنے پہلو میں بٹھا لیا اور باتیں کرنے لگے۔ ان کے شاہی لباس کے مقابلے میں یہ عاجزایک پرانی ٹی شرٹ اور گندی سی سوتی پنٹ میں ملبوس تھا جو کئی دنوں سے زیب ِ تن تھی۔ پرنس سلیم ایک خوش گوار اور کھلی ڈُلی شخصیت کے مالک تھے جیسا کہ عام طور پر لوگ ہوتے ہیں لیکن مصاحب انہیں ماورائی مخلوق بنا کر رکھتے ہیں۔میں نے پرنس کو بتا یا کہ کئی سال پہلے میں میر غضنفر صاحب سے بھی ان کے گھر پر ملا تھا اور آج اگلی 2 نسلوں سے بھی ملاقات کا موقع مل گیا ہے۔ وہ خوش ہوئے اور مجھے دوبارہ ملا قات کی دعوت دی جو میں نے شکریے کے ساتھ قبول کر لی۔ 
تھوڑی ہی دیر میں کچھ لوگ نئی فصل کے آٹے کی روٹی اور مکھن لے کر آئے جسے پہلے میر صاحب کو اور پھر حاضرین کو پیش کیا گیا۔ سب نے ایک ایک لقمہ مکھن کے ساتھ کھا یا۔ یہ بہت مزے دار مکھن تھا۔پھر ایک سجے ہوئے تھال میں گلاب کے سرخ، سفید اور گلابی پھولوں کے بیچ رکھے 2 پیالے لائے گئے ۔ ایک میں کوئی سفید محلول تھاجس میں سیاہ دانے تیر رہے تھے۔ دوسرے میں تازہ گندم یا جو کے بھنے ہوئے دانے تھے۔ پیا لا سامنے آ نے پر ہر شخص اس میں سے ایک ایک چمچ چکھتا اور پیا لا آ گے بڑھا دیتا۔۔ یہ لسی تھی اور اس میں جو کے بھنے ہوئے دانے تیر رہے تھے۔ اس کے بعد سب کو ایک ایک پلیٹ پیش کی گئی جس میں کچھ بھرتا نماءچیز تھی، جیسے چاولوں میں زیادہ پانی پڑنے سے حلوا (پپھا)سا بن گیا ہو، اسے جَو کا ہریسہ کہا گیا، جس پر ابلے ہو ئے گوشت کے چند چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تھے اور ساتھ میں پراٹھا نما روٹی کا ٹکڑا تھا۔ یہ ہنزہ کی روایتی غذا تھی جس کی شکل اور ذائقہ ہمارے لیے اجنبی تھا۔ میں تو ایسے مقامات سے پہلے بھی گزرا ہوں لیکن باقیوں نے ایک ایک چمچ لےنے کے بعد مزید کھانے سے انکار کر دیاکیوں کہ اس میں ہمارے والے مرچ مسا لے نہیں تھے۔ جب سبھی مقامی لو گوں نے ایک ایک، دو دو چمچ چکھ کر پلیٹیں واپس کر نا شروع کیں تو میرے ساتھیوں کی مشکل بھی آسان ہو گئی۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔