انیسویں قسط۔ ۔۔ معلوماتی سفرنامہ
سکائی پوڈ (Sky Pod)
یہ اس مشاہدہ گاہ کا نام ہے جو مزید سو میٹر بلند ہے۔ یہاں جانے کے لیے ریسٹورنٹ والے فلور سے ایک اور لفٹ چلتی ہے۔ میں اوپر آکر اس لفٹ کے ذریعے یہاں تک پہنچا۔ یہ دنیا کی بلند ترین مشاہدہ گاہ ہے۔ یہ بھی ایک گول دائرے کی شکل میں ہے مگر کافی تنگ ہے۔ یہاں ایک وقت میں صرف ساٹھ آدمی آسکتے ہیں۔ اگر آپ سی این ٹاور کی تصویر دیکھیں تو آپ کو اس میں اوپر کی طرف ٹیوب کی شکل کے دو دائرے نظر آئیں گے۔ پہلا بڑا دائرہ تو آؤٹ لک ہے اور دوسرا چھوٹا اور زیادہ بلندی پر واقع یہی اسکائی پوڈ ہے۔ یہاں سے بہت دور تک نظارہ کرنا ممکن ہے۔ مگر شام کی مدھم روشنی اور دھند کی بنا پر حدِ نگاہ کافی کم ہوگئی تھی وگرنہ یہ بہت خوبصور ت نظارہ فراہم کرتا۔ یہ بھی تمام اطراف سے شیشوں سے بند ہے۔
معلوماتی سفرنامہ،’کھول آنکھ زمیں دیکھ‘۔۔ ۔ اٹھارہویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
میں اوپرپہنچا تو دو انڈین نوجوان ایک کورین لڑکی سے زبردستی تعلقات پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ ان کا مکالمہ کافی دیر تک جاری رہا۔ جب وہ لڑکے اس لڑکی کے گھر کا پتا معلوم کرنے پر مصر ہوگئے تو تنگ آکر وہ بولی، ’’ آپ میرے پیچھے کیوں پڑگئے ہیں؟‘‘۔ ویسے میں نے یہاں اپنے قیام کے دوران جنوب ایشیائی اور عرب لوگوں کو خواتین کے معاملے میں بڑا ہی ندیدہ دیکھا۔ جبکہ دیگر لوگ ہماری طرح نہ تو خواتین کو گھور کر دیکھتے ہیں اور نہ اجنبیوں سے بلا و جہ زیادہ بات چیت کرتے ہیں۔ بعد میں میری اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صاحب نے کہا کہ بھوکوں کے منہ میں ہی پانی آتا ہے۔ جہاں ہر وقت لنگرِ عام چل رہا ہووہاں بد ہضمی تو ہوسکتی ہے ندیدہ پن نہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ تربیت اور اقدار کا معاملہ ہے۔مغرب میں عفت وحیا کا جو معاملہ بھی سہی، خواتین کو گھور کر دیکھنا یا زبردستی تعلقات پیدا کرنا برا سمجھا جاتا ہے اور ابتدا سے یہی تربیت کی جاتی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں خواتین کو گھور کر دیکھنا مرادانہ شان کا تقاضہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو کم ہی یہ بتاتے ہیں کہ خواتین کو دیکھ کر آنکھیں نیچی رکھنا ان کی مذہبی ذمہ داری ہے۔
شہر کا منظر
اس جگہ بھی اور نیچے بھی دوربینیں لگی ہوئی ہیں جن میں سکے ڈال کر دور تک نظارہ کیاجاسکتا ہے مگر اس وقت دھند کی بنا پر یہ ممکن نہ تھا۔البتہ شہر کا منظر بالکل صاف نظر آرہا تھا۔ ٹورنٹو کا شہر انٹاریو جھیل کے شمال میں واقع ہے۔ یہ جھیل دوسری چار مزید جھیلوں سے مل کر دنیا میں میٹھے پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ بناتی ہے۔ اپنی وسعت میںیہ ایک سمندر سے کم نہیں۔ یہ نہ صرف شہر کو پانی فراہم کرتی ہے بلکہ ملک کے دیگر علاقوں اور امریکا سے بحری رابطے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس کے ذریعے سالانہ 150 بلین ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ سی این ٹاور جھیل سے متصل مرکزِشہر کے علاقے میں جھیل کے کنارے واقع ہے۔
اس ٹاور سے ایک طرف تا حدِ نظر پھیلا جھیل کاپانی، اس میں بکھرے چھوٹے چھوٹے سرسبز جزیرے، اس پر چلتی کشتیاں اور فضا میں اڑتے جہاز سب مل کر اس منظر کو بہت خوبصورت بنارہے تھے۔ دوسری طرف دور تک پھیلا ٹورنٹو کا وسیع و عریض شہر اپنی تمام تر دلکشی کے ساتھ نظر آرہا تھا۔ شیشوں کے پاس ساتھ لگی رہنما گائڈ میں شہر کے تمام اہم مقامات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ جن میں فیشن ڈسٹرکٹ، انٹرٹینمنٹ ڈسٹرکٹ، فائننشل ڈسٹرکٹ اور دیگر کئی علاقے شامل تھے۔ ان میں نمایاں طور پر صرف فائننشل ڈسٹرکٹ کا علاقہ ہی نظر آرہا تھا۔ جس کا سبب اس کی بلند وبالا عمارات تھیں۔ جب رات ہوگئی تو پورا شہر جگمگا اٹھا۔ عمارتوں کی روشنیاں ، شاہراہوں کی اسٹریٹ لائٹس اور ان پر دوڑتی گاڑیوں کی متحرک روشنیاں سب مل کر بہت خوبصورت منظر پیش کرنے لگیں۔
پارٹی ٹائم اور اقبال
میں واپس نیچے آیا تو لفٹ نے گلاس فلور کے پاس اتارا۔ میں ریسٹورنٹ والے فلور پر چلا گیا۔ اس وقت وہاں کا ماحول بڑا بدلا ہوا لگ رہا تھا۔یہاں کوئی پارٹی شروع ہوچکی تھی۔ریسٹورنٹ کے ایک حصے پر ایک بورڈ لگادیا گیا تھا کہ یہ حصہ پرائیوٹ فنکشن کے لیے مخصوص ہے۔ پہلے جو دھیما میوزک بج رہا تھا وہ ا ب زور دار ساز میں تبدیل ہوچکا تھا۔رنگ ، خوشبو اور حسن کا سیلاب امڈ آیا تھا۔نوجوان لڑکے لڑکیاں خوبصورت لباس زیب تن کیے، ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے لفٹ سے نکل نکل کر پارٹی میں شریک ہونے کے لیے باہرآرہے تھے۔ ان میں سے کچھ ڈسکو میں جاکر ڈانس کررہے تھے اور کچھ چاروں طرف پھیل کر خوش گپیوں میں مشغول تھے۔
نوجوان زیادہ ترسیاہ رنگ کا سوٹ پہنے ہوئے تھے جو ان کے سفید رنگ پر بڑا بھلا معلوم ہوتا تھا۔ باقی خواتین کے معاملے میں بس یہ ہی عرض کرسکتا ہوں کہ اِدھر مغرب میں مرد جتنے ستر پوش کپڑے پہننے کا اہتمام کرتے ہیں خواتین کالباس اتنی ہی متضاد کیفیات کا حامل ہوتا ہے۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے دن خواتین نے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگادیا تھا۔ سینڈل سے لیکر ہےئر اسٹائل تک سب پر پوری محنت کی گئی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ ہمارے شاعرِمشرق جب یورپ گئے توغالباََمیری ہی طرح ایسی کسی پارٹی میں بن بلائے چلے گئے ہوں گے اور واپسی پر اپنے یہ اشعار لکھے ہوں گے۔
یہ حوریانِ فرنگی دل و نظر کا حجاب
بہشتِ مغربیاں جلوہ ہائے پا بر رکاب
دل و نظر کا سفینہ سنبھال کرلے جا
مۂ و ستارہ ہیں بحرِ وجود میں گرداب
اس سے پہلے کہ میرا سفینہ ڈوبتا یا کوئی حجاب حائل ہوتا میں نے مغرب کی نماز کا ارادہ کیا۔ ویسے اقبال کی اسی غزل کا ایک شعر بھی ہے۔
وہ سجدہ روحِ زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب
میں مذکورہ بالا سجدہ تو نہیں کرسکتا تھا۔البتہ یہ میری خواہش تھی کہ آسمان وزمین کے بیچ میں کھڑے ہوکر خدا کے آگے ضرور گر پڑوں۔ واش روم جاکر وضو کیا۔ بڑی مشکل سے ایک گوشۂ عافیت تلاش کرکے نماز پڑھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا کا مفہوم ہے۔ ’’یا اللہ ہر بلندی پر تو ہی بلند ہے اور ہر حال میں تو ہی قابلِ تعریف ہے‘‘۔ میری یہ نماز اسی حقیقت کا اعتراف تھی۔ اقبال بھی لندن میں نماز کے ذریعے مغربی تہذیب کے اس دھوکے سے بچے تھے اورلندن میں یہ غزل کہی تھی۔
گرچہ ہے دلکشا بہت حسن فرنگ کی بہار
طائرک ِ بلند بال دانہ و دام سے گزر
تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر
مغربی تہذیب کی طاقت
اس روز مجھے مغربی تہذیب کی طاقت کے اس پہلو کو بغور دیکھنے کا موقع ملا۔ ایک عالم اپنے مطالعے کے کمرے میں بیٹھ کر مغربی تہذیب کے خلاف کوئی تنقید لکھ دے یا کوئی واعظ منبر پر کھڑے ہوکر مغرب کو برا بھلا کہہ دے۔ ان کی دو چیزیں ایسی ہیں جن کی بنا پر ایک عام انسان اس میں غیر معمولی کشش پاتا ہے اور کشاں کشاں اس کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے۔ایک ان کا رفاہی نظام جس میں معاشرے کے محروم طبقات کو اسباب زندگی پہنچانے کا پورا اہتمام کیا گیا ہے۔مفت علاج اور تعلیم ، بیروزگاروں اور بچوں کے لیے ماہانہ وظیفہ، معذور اور محروم طبقات کے لیے خصوصی سہولیات ، خواتین اور کمزور طبقات کے حقوق کا خصوصی تحفظ اس رفاہی نظام کی چند خصوصیات ہیں۔
دوسرا پہلووہی ہے جو اس وقت میرے سامنے تھا۔یعنی مادی زندگی کی فتوحات اور عیش و عشرت کی فراوانی۔زمین سے نصف کلومیٹر بلند جس ٹاورپر میں کھڑا تھا اسے جدید فنِ تعمیر کا شاہکار کہا جاتا اور سات جدید تعمیراتی عجائبات میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک طرف شہر کی روشنیاں نگاہوں کو خیرہ کرتیں تو دوسری طرف ساحل کی ٹھنڈی ہوا وجود کو سرشار کرتی ۔ پھر شراب وشباب، سازوآواز، رقص وموسیقی، رنگ وخوشبو ، حسن و دلکشی اور مستی وجوانی کا کچھ ایسا میلہ لگا تھاکہ کون کافر اس صنم کو سجدہ نہیں کرتا۔
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
یہ ایک حقیقت ہے کہ مغربی تہذیب کو فکری طور پر شکست دینا اتنا آسان نہیں جتنا ہم نے سمجھ رکھا ہے۔ یہ انسان کے سطحی جذبات کو اتنے اعلیٰ درجہ پر مخاطب کرتی ہے کہ وہ اس کے اثر سے خود کو نہیں بچا سکتا۔ جب تک انفارمیشن ایج شروع نہیں ہوئی تھی ہم اس کے شر سے بچے ہوئے تھے۔ لیکن اب ذرائع ابلاغ کی تلوارلے کر اس نے ہم پر فیصلہ کن حملہ کردیا ہے۔ ہمارے اسلحہ خانے میں ایک ہتھیار بھی ایسا نہیں جو اس کے مقابلے میں ہم پیش کرسکیں۔بجز عقیدۂ آخرت کے۔بدقسمتی سے فی الوقت یہ عقیدہ صرف قرآن میں پایا جاتا ہے۔ جب تک یہ عقیدہ قرآن سے نکل کر ہماری فکر، عمل، سوچ، رویے اور معاملات میں نہیں آتا مغربی تہذیب دنیا کی غالب تہذیب رہے گی۔
(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔