صحافتی ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد اور حکومت

صحافتی ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد اور حکومت
صحافتی ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد اور حکومت
کیپشن: dr ahsan akhtar naz

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حامد میر پر حملے کے دلخراش واقعہ کے بعد حالات ابھی تک نارمل نہیں ہوئے۔ پہلے حساس قومی ادارے نالاں ہوئے۔ اب میڈیا اور سیاسی رہنما باہم دست وگریباں۔ ایک میڈیا گروپ پر واقعی کڑا وقت ہے۔ الزامات کا طوفان ہے کہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔ اگر ایک بار معاملات بگڑ جائیں تو پھر ان کو درست ہونے میں دیر لگتی ہے۔ کئی نئے الزامات بھی جمع ہوتے جاتے ہیں۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک صحافی یا اینکر پرسن اپنے ٹی وی پروگرام یا کالم میں قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کا دفاع کرتا ہے، تو وہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک نوجوان خاکی وردی پہنے سخت ترین محاذوں پر دن رات جان ہتھیلی پر رکھ کر ڈیوٹی دیتا ہے تو ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کر رہا ہوتا ہے۔ بلاشبہ دونوں محافظوں کا اپنا اپنا میدان ہے، لیکن یہ ذہن میں رہے کہ ملک کا جغرافیہ رہے گا تو دیگر تمام ادارے موجود رہیں گے، لہٰذا ان محافظوں کا احترام و تقدس زیادہ اہم ہے۔
سرکاری یا نجی اداروں میں خرابیاں اس وقت خوفناک شکل اختیار کر لیتی ہیں، جب معاملات کو باقاعدگی کے ساتھ مضبوط قوتِ فیصلہ کے ساتھ چیک نہیں کیا جاتا۔ بقول پروفیسر عنایت علی خان صاحب کہ:
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
مثلاً یہ حادثہ تو کئی میڈیا اداروں میں دیکھنے میں آتا رہتا ہے کہ ہمیں خبر نہیں ہوئی کہ کیا الفاظ شائع ہو گئے ہیں یا کیا الفاظ اور ویڈیو کلپس آن ایئر چلے گئے ہیں۔ ایسے میں تو ادارے کے سربراہ کو ہی سب سے زیادہ ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ کہنے کو تو، ہر حساس ادارے میں آئین، قانون اور حلف نامے موجود ہیں اور میڈیا آرگنائزیشنوں نے اپنے صحافتی ضابطہ ہائے اخلاق بنا رکھے ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے حدود و قیود پھلانگ دی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ کوئی اچھا نہیں ہوتا۔ شکیب جلالی کا کیا خوبصورت شعر ہے کہ

فصیلِ جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
زیادہ دور کی بات نہ کی جائے، تو حدودِ وقت کا تعین تو ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے قائم کردہ میڈیا کمیشن نے کر دیا تھا۔ یہ کمیشن ریٹائرڈ جسٹس ناصر اسلم زاہد کی سربراہی اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور سینیٹر جاوید جبار پر مشتمل تھا۔ اس کمیشن کی رپورٹ اور سفارشات پر مشتمل 369صفحات کی یہ کتاب انہوں نے بڑی محبت سے بھجوائی ہے۔ یہ کتاب ایک غیر ملکی اشاعتی ادارے فریڈرک ایبرٹ سٹفنگ (FES) کے تعاون سے شائع کی گئی ہے۔ کتاب کے آغاز میں انہوں نے اپنے دو غیر سرکاری اداروں کا تعارف بھی کروایا ہے۔ ”سٹیزن انیشیٹو آن میڈیا ایشوز“ (CIMI) اور سوسائٹی فار آلرنیٹو اینڈ ریسرچ (SAMAR) جو بلاشبہ قابل قدر کام کر رہے ہیں۔
اس میڈیا کمیشن کے مقاصد یہ بیان کئے گئے کہ، میڈیا سے متعلق کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کرنا اور غیر جانبدار اورخود مختار میڈیا کو یقینی بنانے کے لئے تجاویز دینا۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے کمیشن نے نیوز میڈیا کے عمومی مندرجات کا تجزیہ کیا۔165افراد اور 80صحافتی اداروں کے اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں انٹرویو کئے گئے۔ اس کے بعد قومی انتخابات سے قبل میڈیا کو غیر جانبدار اور خود مختار بنانے کی راہیں تلاش کی گئیں۔ اس کے علاوہ مختلف صحافتی تنظیموں اور اداروں کے ضابطہ ہائے اخلاق اور کوڈز آف کنڈکٹ کا بھی جائزہ لیا گیا، جن میں آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (APNS)، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹر (CPNE)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ)، پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن (PTV)، پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (PCB)، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (PEMRA)، پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن (PBA)، پریس کونسل آف پاکستان (PCP)، پاکستان کولیشن فار ایتھیکل جرنلزم (PCET)، پاکستان ایڈورٹائزر سوسائٹی (PAS)، ایڈور ٹائزنگ ایسوسی ایشن آف پاکستان (AAP)، الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) اور متعلقہ بین الاقوامی ضابطے اور گائیڈ لائن وغیرہ وغیرہ۔
کمیشن نے وزارتِ اطلاعات کی طرف سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو اطلاعات اور مواد کی فراہمی کو یقینی بنانے کا بھی جائزہ لیا۔ پیمرا آرڈی ننس کے مطابق پیمرا اپنے فرائض ادا کر رہا ہے۔ کیا پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان اور اے پی پی جیسے قومی ادارے جو اربوں روپے کے عوامی بجٹ سے چل رہے ہیں ان میں انتظامی اخراجات صاف اور شفاف طریقے سے ہو رہے ہیں اور کیا یہ ادارے عوام کو مطلوبہ انداز اور معیار کے مطابق اطلاعات فراہم کر رہے ہیں۔ یہ پہلو بھی کمیشن کے سامنے آیا کہ میڈیا سیلف ریگولیٹری کوڈ آف کنڈکٹ بین الاقوامی معیار کے مطابق اختیار کر لے۔
اس کمیشن کا ایک اور مقصد پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو شفاف، بلا امتیاز اور معروضی انداز میں حکومت کی طرف سے سرکاری اشتہارات دینے کی پالیسی تجویز کرنا بھی تھا۔
ان تمام مقاصد سے بڑھ کر یہ مقصد اس میڈیا کمیشن کے پیش ِ نظر تھا اور جو عدالتی حکم کے تحت اس کے ذمہ لگایا گیا تھا کہ میڈیا میں کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کرنا اور آئندہ کے لئے ایک غیر جانبدارانہ اور خود مختار میڈیا کے کردار کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات تجویز کرنا۔ ان الزامات میں کرپشن کی کوئی بھی صورت ہو، جس کی بنیاد پر کوئی فرد اپنے آپ کو نمایاں کرتا یا اپنی حمایت میں کوریج حاصل کرتا ہے یا دوسروں کے خلاف بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی خبریں دے کر ان کی کردار کشی کرتا ہے۔ اگر میڈیا کسی گورنمنٹ افسر یا سربراہِ ادارہ سے بلا استحقاق مالی فوائد یا اشتہارات حاصل کرتا ہے، تو یہ بھی کرپشن کی ہی ایک صورت ہوتی ہے۔ صحافیوں کا غیر صحافتی طور پر کاروباری مفادات وابستہ رکھنا یا دیگر کاروباری اداروں کا مالک ہونا جس کی وجہ سے نیوز میڈیا کے مندرجات اور اس کی کوریج پر اثر انداز ہوا جا سکے، یہ سبھی کچھ بھی کرپشن کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ کراس میڈیا کی ملکیت پر بھی اس کرپشن کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، یعنی اس کرپشن کی وجہ سے زیر اثر آ جاتے ہیں۔ اس طرح سرکاری میڈیا کو انفرادی یا ادارہ جاتی مفاد کے لئے غیر اخلاقی طور پر استعمال کرنا یہ سبھی کچھ کرپشن اور بدعنوانی کی مد میں شمار کیا جائے گا۔
اس دستاویز میں الیکشن مہم کے دوران پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر صوبائی حکومتوں کی طرف سے اپنے سرکاری محکموں کی طرف سے اشتہارات کی صورت میں میڈیا کو مالی طور پر نوازنے کی کرپشن کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
قومی الیکشن 2013ءمیں کچھ صحافی مالکان، ایڈیٹرز، براڈ کاسٹرز کو کچھ مخصوص سیاسی پارٹیوں اور رہنماﺅں کی حمایت کرنے کے عوض مالی مراعات بھی دی گئی ہیں۔ یہ بات اس دستاویز میں صفحہ نمبر10 پر لکھی ہے، لیکن اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے، اس لئے اس الزام سے تو ہر کوئی بآسانی بری الذمہ ہو سکتا ہے۔
اس دستاویز میں میڈیا میں تحقیقاتی رپورٹنگ کی صورت حال اور دیگر کئی پہلوﺅں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ مثلاً ٹی وی چینلوں کے نیوز بلیٹن، ٹاک شوز، دیگر حالات حاضرہ کی رپورٹیں اور پروگرام، یعنی انٹرویوز وغیرہ، سیاسی مزاحیہ پروگرام، تحقیقاتی ڈاکو مینٹریز، بریکنگ نیوز کے متعلق اعلانات، ٹکرز چلانا، موضوع سے غیر متعلقہ ویژول یا سمبل چلانا، غیر ملکی مندرجات، مصنوعات کے اشتہارات، ادا شدہ رقم سے چلائے جانے والے سیاسی اشتہارات اور دیگر مندرجات وغیرہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس طرح ریڈیو کے موسیقی پروگراموں کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ ہمارے خیال میں ٹی وی کے نیوز بلیٹن میں ”انٹرٹینمنٹ“ کے نام پر غیر ملکی فلموں بالخصوص ہمسایہ ملک کی فلموں اور اداکاروں کی تشہیر کا اس دستاویز میں خصوصی تذکرہ ہونا چاہئے تھا، جبکہ ریڈیو پر ہندوستانی اور مغربی موسیقی اور گانوں کی بات کی گئی ہے۔ اسی طرح پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے والی نیوز رپورٹیں، خبروں سے متعلقہ اور غیر متعلقہ فوٹو گرافس، فیچر، کالم اور مضامین جو رائے عامہ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اداریے، کارٹون، دیگر باکس آئٹم، اشتہارات اور دیگر مندرجات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس طرح سوشل میڈیا میں رونما ہونے والی اخلاقی بے قاعدگیوں کا ذکر بھی اس دستاویز میں موجود ہے۔ بلاگز اور ایس ایم ایس پیغامات کا بھی تذکرہ موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا کمیشن کی اس رپورٹ کو ضروری ترامیم و اضافوں کے بعد اردو میں بھی شائع کیا جائے اور نئے سرے سے جدید مسائل اور تقاضوں کے مطابق نئے صحافتی ضابطہ ہائے اخلاق نہ صرف وضع کئے جائیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ ضروری ان پر عملدرآمد کا کوئی نتیجہ خیز میکنزم بنانے کا کام ہے اور اس سلسلے میں حکومتوں کو مجرمانہ خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ اصل ذمہ دار وہی ہیں۔

مزید :

کالم -