یہ 30سال پرانے واقعات ہیں، بڑھاپادروازے پر دستک دے رہا ہے ذہن نے بھی کچھ کچھ بغاوت کی ٹھان لی، کچھ غلط سلط ہو جائے تو درگزر کر دیجئے

یہ 30سال پرانے واقعات ہیں، بڑھاپادروازے پر دستک دے رہا ہے ذہن نے بھی کچھ کچھ ...
یہ 30سال پرانے واقعات ہیں، بڑھاپادروازے پر دستک دے رہا ہے ذہن نے بھی کچھ کچھ بغاوت کی ٹھان لی، کچھ غلط سلط ہو جائے تو درگزر کر دیجئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:  محمد سعید جاوید
قسط:7
سوچا کیوں نہ دونوں ادوار کو یکجا کرکے سہل زبان میں پیش کر دیا جائے۔ جہاں صاحبِ ذوق افراد کو نہ صرف جدید مصر کے بارے میں کچھ آگہی حاصل ہو، وہیں ان کے صبر کا امتحان لینے کے لیے اس خطے کی قدیم تاریخ کی ہلکی پھلکی خوراکیں بھی دے دی جائیں۔ درمیان میں آنے والے ادوار سے میں نے اس لئے صرف نظر کیا کہ وہ کوئی اور لکھ دے گا۔
ان دو ادوار کو مدغم کرنا اتنا آسان بھی نہیں تھا کیونکہ ہزاروں سال پر محیط تو صرف فرعونوں کا دور تھا، پھر اس کے بعد اور بھی بڑے لوگ قطار میں منتظر بیٹھے تھے کہ کوئی آئے اور ان کے قصے کہانیوں کو بھی بیان کرے۔
میں نے فیصلہ کیا کہ قارئین کی یکسوئی کی خاطر میں چند مشہور فرعونوں اور کرداروں کو چن لوں اور پھر سادہ سی زبان میں ان کے کچے چٹھے اس طرح بیان کروں کہ زبان کی سادگی کے علاوہ اس میں دلچسپی اور ہنسی مزاح کا عنصر قائم رہے تاکہ قاری ان سب کو بیچ میں ہی چھوڑ کر راہ فرار نہ اختیار کر لے۔ اس لئے میں نے فرعونوں کی رشتہ داریوں اور ان کے غیر ضروری اور غیر سرکاری کاروبار زندگی کو نہیں چھیڑا۔ صرف وہی کچھ پیش کیا جو قارئین کو آسانی سے سمجھ آ جائے اور ہضم بھی ہو جائے۔
میں عام سیاحوں کی طرح میں کسی ایک ہی مقام پر ٹک کر نہیں بیٹھا رہا،بلکہ دیار مصر میں پنجوں کے بل بھاگتا ہی پھرا، ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک مقام سے دوسرے مقام تک۔وہاں کی معاشرت کو سمجھنے کے علاوہ میرا مقصد فرعونوں کا ان کے معبدوں، مندروں اور مدفنوں تک پیچھا کرنا بھی تھا، اور وہ میں نے کیا بھی۔ان کی تلاش میں نجانے کہاں کہاں بھٹکا، اور کتنے ہی عمیق اور اندھیرے غاروں میں اترتا ہی چلا گیا۔
دوسری طرف میں نے مصر کی تاریخ، جغرافیہ اور معاشرتی حالات کو ہلکے پھلکے انداز میں اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ قارئین کی دلچسپی آخر تک قائم رہے۔
کچھ واقعات کی مزید وضاحت کے لئے جہاں بھی ضروری محسوس ہوا تصویروں سے مدد لی کیونکہ کچھ واقعات نہ تو بغیر تصویر کے سمجھ آنے والے تھے اور نہ ہی ان پر قارئین کو یقین آنا تھا، مناسب تصویروں کے چناؤ نے میری یہ مشکل بھی حل کر دی۔
یہاں ایک حقیقت کا برملا اعتراف کرتا چلوں کہ مصر آنے سے پہلے اور اس کے بعد بھی میرابے شمار ملکوں میں آنا جانا لگا رہا،لیکن جو لطف اور سکون مجھے وہاں گزرے گئے ایک ہفتے میں آیا وہ کہیں اور نصیب نہ ہوا۔ مصر میری رگ رگ اور روح کی گہرائیوں میں اتر گیا تھا اور مجھے اس عظیم اسلامی مملکت سے محبت ہوگئی، تاخیر تو ہوئی لیکن میں نے یہ کتاب لکھ کر مصر سے اپنی اس بے پایاں محبت کا قرض اتار دیا ہے، جو مدتوں سے میرے اندر موجود تھی۔
آخری بات، یہ 30سال پرانے واقعات ہیں۔ بڑھاپا بھی دروازے پر دستک دے رہا ہے اور ذہن نے بھی کچھ کچھ بغاوت کی ٹھان لی ہے۔ ایسے حالات میں یادداشت میں اونچ نیچ کی وجہ سے اگرکچھ غلط سلط ہو جائے یا واقعات آگے پیچھے ہو جائیں تو درگزر کر دیجئے۔ ویسے بھی اس کو آپ ایک ہلکی پھلکی کتاب سمجھ کر ہی پڑھئے۔ یہ مستند تاریخ کی کتاب ہرگز نہیں ہے جس کو مکمل تحقیق کرکے تحریر کیا گیا ہو۔میرے وہ قاری جن کو ان واقعات کی تفصیل میں جانا مطلوب ہو وہ اپنے طور پر تحقیق کے دروازے کھول سکتے ہیں۔
محمد سعید جاوید
30اگست 2015
 (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -