جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر66
ایک قطار میں بیت الخلاء بنے ہوئے تھے۔
’’فٹا فٹ فارغ ہو جاؤ‘‘ اس نے ایک دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ میں اندر داخل ہوگیا۔ فارغ ہو کرمیں نے اس سے کہا۔
’’کرم دین ایک اور احسان میرے اوپر کر دو‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔
’’میں روزانہ غسل کرتا ہوں برسوں سے عادت ہے اگر مہربانی کر سکو تو ۔۔۔‘‘ اسنے مشکوک نظروں سے میری طرف دیکھا۔
’’تم توکہتے تھے میں نے ’’کچھ نہیں کیا‘‘ پھر نہانے کی ضرورت کیوں پڑ گئی۔‘‘ میں شرم سے کٹ کر رہ گیا۔
’’مم۔۔۔میں نے بتایا ہے ناکہ مجھے روزانہ نہانے کی عادت ہے۔‘‘ میں نے جھجکھتے ہوئے کہا۔
’’اچھا آؤ تم بھی کیا یاد کرو گے کس سخی سے واسطہ پڑا تھا‘‘ پھر میری جیب پر نظر ڈالی۔
’’جیب میں کچھ مال پانی بھی ہے یا خالی خولی ہو۔‘‘
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر65 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’تم تو جانتے ہو کہ مجھے کس حالت میں لوگ تھانے لائے تھے میرے ۔۔۔‘‘ میں اسے بتانے ہی لگا تھا کہ یہ کپڑے بھی مجھے تھانے میں ہی میسر آئے ہیں لیکن فوراً ہی بات بدل لی۔ مجھے معلوم تھا کہ محرر نے چھپ کر لباس فراہم کیا ہے۔ وہ جلدی میں تھا اس لئے اس نے میری بات پر توجہ نہ دیا ور مجھے ایک طرف لے چلا۔ اسی طرح ایک قطارمیں حمام بنے ہوئے تھے بنیان اور دھوتی پہنے کئی سپاہی جا بجا مسواک کر رہے تھے کچھ ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھے۔ چار غسل خانے تھے لیکن خالی کوئی بھی نہ تھا۔
’’اوئے کرم دین!‘‘ ایک سپاہی نے اسے آواز دی۔
’’ہاں بھئی افضل کیا بات ہے؟‘‘ کرم دین نے کہا۔
’’اوئے اس پھٹل (زخمی) بندے کو کدھر لیے پھر رہے ہو؟ اسکی پٹی شٹی نہیں کرائی۔ یہ تو بہت زخمی ہے‘‘ اس نے میری طرف دیکھ کرپوچھا۔ کرم دین چونک گیا جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہو۔
’’اوئے سر جی!۔۔۔صاحب نے کہا تھاکہ تمہیں اسی حالت میں جج صاحب کے سامنے پیش کرنا ہے اگر تم نہا لو گے تو زخموں پرسے سارا خون شون تو صاف ہو جائے گا نا‘‘ اس نے مجھے سمجھایا۔
’’چلو۔۔۔چلو پیشی بھگتنے کے بعد نہا لینا گھرجا کر‘‘ یہ کہہ کر وہ جلدی سے واپس چل پڑا۔ سپاہی مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ جو لباس میں نے پہنا ہوا تھا شاید وہ کسی سپاہی کاتھا۔۔۔سفید رنگ کا کرتا شلوار، جو میرے زخموں سے نکلنے والے خون سے سرخ ہو رہا تھا۔ میں تیز تیز چل رہا تھا حالانکہ جتنے زخم میرے جسم پر لگے تھے انکی موجودگی میں ہلنا جلنا بھی مشکل تھا۔ اور یہی بات ان کے لئے باعث حیرت تھی لیکن وہ تونہیں جانتے تھے کہ یہ کرشمہ بسنتی کا ہے۔ وہ مجھے بڑا جی دار سمجھ رہے تھے جو اسقدر زخمی ہوکر بھی میں بالکل نارمل انداز میں چل پھر رہا تھا۔ جب ہم واپس حوالات کے کمرے میں پہنچے تو چارپائی اور بستر غائب تھے کرم دین مجھے چھوڑ کرچلا گیا اس بار اسنے باہر سے تالا لگا دیا تھا۔ مجھے بیٹھے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ باہر سے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ آنے والے کئی تھے۔ کرم دین دروازہ کھول کر ایک طرف ہٹ گیا۔ سب سے پہلے وہی انسپکٹر اندر داخل ہوا جس نے مجھے رات کھانا چارپائی اور بستر فراہم کیا اور اپنا نام عادل بتایا تھا۔ اس کے پیچھے ڈی ایس پی تھا۔ اسکی نظریں برچھی کی طرح میرے جسم کے آر پار ہو رہی تھی۔ شکل سے ہی وہ تند خو اور غصیلا لگتا تھا۔
’’سر! بہت بری طرح ان لوگوں نے اسے مارا ہے‘‘ انسپکٹر نے دبے دبے لہجے میں کہا۔
’’اگرمیرے بس میں ہوتا تو میں اسے جان سے مار دیتا۔ یہ سزا تو اسکے لئے کچھ بھی نہیں آج مجھے اس کا ریمانڈ لینے دو پھر دیکھنا میں اسکا کیا حشر کرتا ہوں۔‘‘ وہ زہریلے لہجے میں بولا۔
’’سر! اس کے بقول یہ سب شرارت ریٹائرڈ ڈی ایس پی عمر حیات کی ہے۔ رات میری پروفیسرصاحب کے ساتھ بھی بات ہوئی تھی انہوں نے بڑے وثوق سے کہا ہے کہ وہ اسے بڑی اچھی طرح جانتے ہیں یہ اس قسم کا انسان نہیں۔۔۔پانچ وقت کا نمازی اور نیک آدمی ہے۔‘‘
انسپکٹر بھرپور طریقے سے میرا دفاع کر رہا تھا۔ نہ جانے یہ سب کچھ وہ اپنی فطرت کی باعث کہہ رہا تھا یا اس میں کالی داس کی پراسرار قوتوں کو دخل تھا۔
’’پروفیسر صاحب آج عدالت میں بھی آئیں گے‘‘ انسپکٹر نے بتایا۔
’’تمہاری تقریر ختم ہوگئی یا ابھی باقی ہے؟‘‘ ڈی ایس پی کی سرد آواز کمرے میں گونجی۔ انسپکٹر کا چہرہ سرخ ہوگیا۔
’’سر! میں تو آپ کو رپورٹ پیش کر رہاتھا کہ اب تک میں نے کیا معلوم کیا ہے؟‘‘ وہ جز بزہو کر بولا۔
’’اس کی مرہم پٹی وغیرہ کیوں نہیں کرائی گئی‘‘ ڈی ایس پی نے مجھے گھورتے ہوئے انسپکٹر سے سوال کیا۔
’’سر !آپ نے خود ہی توکہا تھا کہ اسکے قریب بھی کوئی نہ پھٹکے‘‘ انسپکٹر نے کہا۔
’’گدھے ہو تم سب‘‘ اسنے ایک قہر بھری نظر مجھ پر ڈالی اور تیز تیز قدموں سے باہر نکل گیا۔ اس کے جانے کے بعد کرم دین نے دروازے کو تالا لگادیا۔میں دوبارہ فرش پر بیٹھ گیا۔
’’کیوں چنتا کرتا ہے؟‘‘ اچانک میرے پیچھے کالی داس کی آواز آئی۔ میں بری طرح اچھل پڑا۔ مڑ کر دیکھا وہ بڑے اطمینان سے دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ اسکے ہونٹوں پر دوستانہ مسکراہٹ تھی۔
’’ڈی ایس پی بہت غصے میں ہے‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’یہ حرامی کیا شے ہے اس کے تو بڑے بھی تیری سیوا کریں گے‘‘ کالی داس نے ٹھوس لہجے میں کہا۔ پھر ایک طرف منہ کرکے آواز دی۔
’’بسنتی!‘‘
’’جی مہاراج‘‘ فورا بسنتی کی مدہر آواز کمرے میں گونجی۔ وہ نظروں سے اوجھل تھی۔
’’ساراپربندہوگیا؟‘‘ کالی داس نے نرم لہجے میں پوچھا۔
’ہاں مہاراج! تمری اچھا کے انوسار، سمے آنے پر سب وہاں پہنچ جائیں گے‘‘ بسنتی نے جواب دیا۔
’’عدالت میں تو نے وہی کچھ کہنا ہے جو کل تھانے دار سے کہہ چکا ہے‘‘ کالی داس نے مجھے خاطب کیا۔
’’کیا تم عدالت میں موجود ہو گے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’سب تیری اچھا کے انورسار ہوگا نشچنٹ رہ‘‘ اس نے میرے سوال کا جواب دینے کے بجائے مجھے تسلی دی۔ اس کے بعد وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا۔‘‘ کاش میں بھی کالی داس کی طرح پراسرار قوتوں کا ماہرہوتا ‘‘ میں دل میں خواہش جاگی۔
’’خان بھائی!‘‘ میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ عمران کی آواز آئی۔ میں نے چونک کردیکھا۔ عمران سلاخیں پکڑے کھڑا تھا۔ اس کے چہرے سے افسردگی ظاہرہورہی تھی۔ میں جلدی سے اٹھ کر اسے پاس چلا آیا۔
’’پروفیسر صاحب نے ایک بہت قابل وکیل کا بندوبست کیا ہے آپ فکر نہ کریں انشاء اللہ تعالیٰ آپ باعزت بری ہو جایں گے‘‘ وہ آہستہ سے بولا۔
’’عمران!میں کس منہ سے تمہارا شکریہ ادا کروں؟ تم نے دوست ہونے کا حق ادا کر دیا‘‘ میری آواز بھراگئی۔ عمران کو دیکھ کر مجھے صائمہ اور بچے یاد آگئے تھے۔ اسکی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔
’’خان بھائی! فکرنہ کریں انشاء اللہ فتح ہماری ہوگئی۔ میں نے اسے بھی وہی کہانی سنا دی جوانسپکٹر کو کالی داس کے کہنے پر سنائی تھی۔ وہ حیرت سے منہ کھولے سنتا رہا۔
’’لوگ دنیاوی مفادکے لئے اتنا بھی گر سکتے ہیں مجھے گمان تک نہ تھا۔ خیر کوئی بات نہیں دشمنوں کو شکست اور ہمیں فتح نصیب ہوگئی انشاء اللہ۔ دکھ اس بات کاہے کہ آپ نے مجھے ہر بات سے بے خبر رکھا۔ اگر اس حرامزادے نے آپ کودھمکی دی تھی تو آپ مجھے بتاتے‘‘ اس نے مجھے یقین دلانے کے بعد گلہ کیا۔
پھر کہنے لگا’’وکیل صاحب بہت قابل ہیں۔ ہو سکتاہے پہلی پیشی پر ضمانت نہ ہو سکے لیکن آپ فکر نہ کریں ہم سب آپ کے ساتھ ہیں‘‘ اس نے مجھے تسلی دی۔
’’ایسی بات نہیں ہے عمران ! میں بے قصور ہوں مجھے یقین ہے جب جج صاحب کو اصل حالات کا علم ہوگا تووہ مجھے باعزت بری کردیں گے‘‘ میں نے یقین سے کہا۔
’’اللہ کرے ایسا ہی ہو‘‘ عمران نے کہا۔
’’اچھا میں چلتا ہوں بڑی مشکل سے محررکی جیب گرم کرکے میں نے ملاقات کا وقت لیا ہے ۔ عدالت میں ملاقات ہوگی۔‘‘
اسکے جانے کے تھوڑی دیر بعد انسپکٹر عادل کرم دین کے ساتھ آیا۔ مجھے عدالت نے جانے کا وقت آگیا تھا۔
’’جی تو نہیں چاہتا کہ میں تمہیں ہتھکڑی پہناؤں لیکن مجبوری ہے ڈی ایس پی ساتھ جائے گا‘‘ اسنے معذرت کی۔ میں نے ا س کی ہمدردی پر اسکا شکریہ اداکیا۔ کرم دین نے میرے ہاتھوں میں آہنی زیورپہنا دیا۔ باہر لاکر مجھے بند گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ گاڑی تھانے کی حدود سے نکل کر میری جانی پہچانی سڑکوں پر دوڑنے لگی۔ گاڑی کی باڈی میں جالیاں لگی ہوئی تھیں۔ میں یونہی باہر جھانکنے لگا میرے ساتھ چار سپاہی تھے۔ پندرہ منٹ کے سفر کے بعدہم عدالت پہنچ گئے۔ جیسے ہی گاڑی عدالت کے احاطے میں داخل ہوئی میری آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ لوگوں کا ایک جم غفیر عدالت میں موجود تھا۔ ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈ تھے جن پرمیرے خلاف مختلف عبارتیں درج تھیں۔ اس کے علاوہ لوگ نعرے لگا رہے تھے ۔ عورتوں کی تعداد زیادہ تھی۔ وہ چیخ چیخ کر میرے خلاف نعرے لگا رہی تھیں۔
’’عزتوں کے لٹیرے کو پھانسی دو۔ ایسے درندوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
گاڑی پر نظر پڑتے ہی ان کے نعروں میں تیزی آگئی۔ کئی جو شیلے تو پولیس کا گھیرا توڑ کر گاڑی پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن پولیس نے بڑے منظم طریقے سے ان کو کنٹرول کر رکھا تھا۔ گاڑی کو بالکل عدالت کے کمرے کے سامنے لے جایا گیا۔ جب میں گاڑی سے اترا تو ایک بار پھر لوگوں کا جوش بڑھ گیا۔ میرے چہرے کو ایک تولیے سے ڈھک دیا گیا تھا۔ یہ کام انسپکٹر نے کیا تھا۔ جس کی وجہ اس نے یہ بتائی تھی کہ پریس فوٹو گرافرز میری تصویر بنانا چاہتے ہیں۔ کمرہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کالی داس کے یقین دلانے کے باوجود میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ ان پراسرار قوتون کے مالک لوگوں کی مجبوریاں بھی بعض اوقات آڑے آجاتی تھیں جیسا کہ رادھا کسی جاپ کی وجہ سے نہ آسکتی تھی۔ میرے سینے سے ایک آہ نکل گئی ۔اگر وہ ہوتی تو نوبت یہاں تک کبھی نہ پہنچتی۔ (جاری ہے)
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر67 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں