ہنزہ میں ناچنے کو برا نہیں سمجھا جاتا، ہر قبیلے کی اپنی الگ دھن ہوتی ہے

 ہنزہ میں ناچنے کو برا نہیں سمجھا جاتا، ہر قبیلے کی اپنی الگ دھن ہوتی ہے
 ہنزہ میں ناچنے کو برا نہیں سمجھا جاتا، ہر قبیلے کی اپنی الگ دھن ہوتی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : عمران الحق چوہان 
قسط:166
کچھ دیر بعد سب حاضرین کو نیچے قلعے کے باہر صحن میں چلنے کےلئے کہا گیا۔میر سلیم بھی شاہی چوغہ اتار کر،بیٹی کے ساتھ باہر آ گئے اور جنوبی سمت بنے پتھر کے چبوترے پر بیٹھ گئے۔صحن کے گرد اور آس پاس کی چھتوں پرکریم آ باد کے عوام با لخصوص خواتین کثیر تعداد میں موجود تھیں۔ ہر طرف شوخ رنگوں کا طغیان تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ہنزہ کی بہار کے سارے رنگ اوڑھنیوں کی شکل میں زندہ ہو کر چھتوں پر کھل اٹھے ہیں۔ اب ہنزائی رقص کا آغاز ہوا۔ سازندوں کا طائفہ بڑا ہوگیا تھا۔ وہ قلعہ کی دیوار کے ساتھ بنے حفا ظتی پشتے پر بیٹھ گئے جو چھوٹے سے مستطیل سٹیج کا کام دے رہا تھا۔ موسیقی شروع ہوئی، رقاصوں نے سازندوں کے سامنے ایک قطار میں کھڑے ہو کر رقص کا آغاز کیااور پھر صحن میں ایک دائرے کی شکل میں حرکت کرنے لگے ۔اس موسیقی میں صدیوں کی تہذیب اور ثقافت کی گو نج تھی۔ہنزائی رقص میں ایک ٹھہراؤ اور چوکنّاپن ہے۔ہر عضوکی حرکت کا تعلق الگ ساز سے ہے۔ قدم بڑے ڈھول کے ردھم پر نزاکت لیکن اعتماد سے اٹھایا جاتا ہے، کندھے دماماکی تھاپ پر تھرکتے ہیں، بازو شرنائی کی لے پرآ ہستگی کے ساتھ بلند ہوتے ہیں اور ہاتھ بل کھاتے ہیں۔رقاص سازندوں کی آنکھوں میں آ نکھیں ڈال کر نرت بھاؤ بتاتا ہے تو ان کے سازوں کی لے بھی اونچی ہو جاتی ہے۔زیادہ معزز رقاص ایک خاص گرم چوغہ جسے ”شقہ“ کہتے ہیں، پہن کر رقص کرتا ہے جس کی آ ستینیں انسانی بازو سے تقریباً دُ گنی لمبی ہوتی ہیں جنہیں لہرا کر رقص میں مزید حسن پیدا کیا جاتا ہے۔ اس قسم کے چوغے قدیم چینی مصوری میں دکھائی دیتے ہیں۔ حاضرین کسی بھی ناچے کے رقص کی داد نو ٹوں سے دیتے (جیسے ہمارے ہاں ویل دی جاتی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ ویل نظر یا صدقہ اتارنے کے لیے دی جاتی ہے جسے میراثی وصول کرتا ہے لیکن ہنزہ میں یہ رقم داد یا انعام کے طور پر دی جاتی ہے جسے رقاص یا ناچا بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قبول کر لیتاہے)۔ اس رقص میں وقتاً فوقتاً ناظرین میں سے بھی کوئی شامل ہو جاتا تھا۔ہنزہ میں ناچنے کو برا نہیں سمجھا جاتا بلکہ نا چے کو عام لوگوں پر ایک قسم کی فوقیت اور فضیلت حا صل ہے۔ موسیقی سے محبت کا یہ عالم ہے کہ ہر قبیلے کی اپنی الگ دھن ہوتی ہے جس کی لے پر اس قبیلے کے مرد و زن ناچتے ہیں۔بزرگ ناچنے کا فن اگلی نسل کو ذوق و شوق سے منتقل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہ سلسلہ کافی دیر چلنے کے بعد اختتام کو پہنچا۔ ہمارے علاوہ دیگر معززین ِ ہنزہ رخصت ہوئے (ہم تو نظام سقے کی طرح ایک پہر کے معزز تھے)۔ تھوڑی دیر میں جیتا جاگتا، زندگی کے رنگوں اور آوزوں سے بھرا صحن خاموش ہو گیا۔ ہنزہ ایک طلسمات کی نگری ہے۔ ہم سب جیسے خواب میں جی رہے تھے۔
 دوپہر سہ پہر میں بدل رہی تھی۔ ہم دیر تک اُلتر پیک کے نیچے راکا پو شی کی طرف مونھ کیے خاموش بیٹھے رہے۔ شایدایک بار ہماری باتوں کا ذخیرہ ختم ہو گیا تھا۔
قلعے کے ارد گرد وہی قدیم آبادی ہے جس کا نام بلتیت ہوا کرتا تھا ۔ پرانے بلتیت کی پُر پیچ اور اونچی نیچی گلیوں کی فضاءآج بھی پرانے عہد والی ہے۔ اس حصے میں سڑک کا کوئی تصور نہیں ہے۔ بس بل کھاتی گلیاں ہیں جو اترتی چڑھتی ایک دوسرے میں گم ہوتی ہیں۔ ہم قلعے سے قریب ایک گلی کی سیڑھیاں چڑھ کر آبادی سے باہر نکل آئے جہاں پہاڑ سے لگا ایک راستہ بل کھا تا آگے جاتا تھا۔ دائیں ہاتھ گہری کھائیاں تھیںاور کگر کے ساتھ ساتھ ایک نالہ بہ رہا تھا جو التر کی بلندیوں سے آتا ہے اور صدیوں سے کریم آباد ، التیت ، مومن آباد وغیرہ کی زمینوں کو سیراب کر رہا ہے۔مقامی زبان میں اسے ”کوہل“ کہتے ہیں(پنجابی میں کھیتوں کو سیراب کرنے والے پانی کے نالے کیلئے اس کے مشابہ ایک لفظ ہے”کھال“)۔سرمئی پانی کے اندر مٹی کے مر غولے اٹھتے تھے جن میں لا تعداد ذرّات تھے جو دھوپ میں چاندی کی طرح چمکتے تھے۔یہ ہنزہ کا قدیم ترین ذریعۂ آب رسانی تھاجس میں معدنیات کی کثرت تھی جن کی وجہ سے ہنزہ کے پانی کو کرشماتی صفات کا حامل سمجھا جا تا ہے۔ ہم اسی چشمے کے ساتھ ساتھ چلتے رہے، خیال تھا کہ ملکہ وکٹوریہ کی یاد گار تک جائیں گے لیکن راستہ کڈھب تھا جس پر کنکر پتھر بکھرے ہوئے تھے۔آگے جا کر راستہ تنگ ہو تا گیا اور با لآ خر ایک چٹان نے اسے بالکل مسدود کر دیا۔ہم وہیں نالے کے کنارے سائے میں ہو کر بیٹھ گئے۔ ہم قلعے کے با لکل عقب میں تھے اور یہاں سے قلعے کے پیچھے بنے ہوئے زینہ وار حفاظتی پشتے واضح دکھائی دیتے تھے ، دور سے یہ چٹان ایک بڑے سے شادی کیک کی طرح دکھائی دیتی تھی جس کے اوپر دلہا دلہن کے مجسمے کی جگہ قلعہ بلتیت رکھا تھا۔ دھوپ کی شدت سے آسمان کا نیلا رنگ زرد پڑ گیا تھا اور راکاپوشی کی سفید برفیں کمھلا گئی تھیں۔ ہمارے ارد گرد اخروٹ کے سایہ داراورتریک کے ستواں پیڑوں کی ہر یاول تھی جو آنکھوں کو بھلی لگتی تھی اور آواز سے زیادہ دل فریب خا موشی تھی۔ یہ ایک سہولت بھرا دن تھا جس میں ہمیں کہیں نہیں پہنچنا تھا، کچھ نہیں کرنا تھا بس ہنزہ کی فضا میں آسودگی سے رہنا تھا۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔