ہماری ریاست اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے

  ہماری ریاست اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے
  ہماری ریاست اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 آئین پاکستان کے آرٹیکل25۔اے کے مطابق ریاست پر یہ لازم ہے کہ وہ میٹرک تک تمام بچوں کو مفت تعلیم مہیا کرے،لیکن ریاست پاکستان اپنی یہ آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہیومن ڈویلپمنٹ کے اہم ترین شعبے تعلیم و تربیت کو چھوڑ کر ہماری سیاسی حکومتیں سڑکیں، گلیاں اورنالیاں بنانے، سولنگ لگانے اور سیوریج بچھانے کو ہی ڈیویلپمنٹ کا نام دے کر عوام الناس کو عرصہ دراز سے بے وقوف بنا رہی ہیں اور قوم کا تعلیمی استحصال کر رہی ہیں۔ظلم تو یہ ہے کہ حکومتیں صرف 56 فیصد بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلہ کی سہولت فراہم کر کے بقیہ44فیصد کو پرائیویٹ اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹتی  نہیں تھکتیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 3,06,600تعلیمی ادارے ہیں، جن میں تقریبا 5,19,00,000بچے زیرتعلیم ہیں۔ ان میں کل اساتذہ 2,74,000ہیں۔دوسری طرف پرائیویٹ تعلیمی ادارے تقریباً ایک لاکھ16ہزار ہیں جو کل اداروں کا 38 فی صد ہیں، لیکن پرائیویٹ تعلیمی ادارں میں زیر تعلیم بچے کل بچوں کا 44فی صد ہیں۔اس طرح ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تعدادکل اساتذہ کا54فیصد ہیں۔ ملک بھر میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کے کل ادارے تقریباً 3800ہیں جن میں سے1650 سرکاری اور2150پرائیویٹ ہیں اس طرح پرائیویٹ ٹیکنیکل تعلیمی ادارے56فیصد اور سرکار کے  ادارے44فی صد ہیں۔ اب ہم دنیا کے دوسرے ممالک میں سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی شرح کی طرف آتے ہیں۔ چین میں سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی شرح بالترتیب67فیصد اور33فی صد ہے۔ بھارت میں 69اور31فی صد ہے، انگلینڈ میں 93اور7 فی صد، ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں 90فیصد اور10فی صد جبکہ وطن عزیز میں یہ شرح56فیصد اور44فیصد ہے۔

دیے گئے اعداد و شمار کے تقابل سے  یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ  پاکستان میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی شرح تمام ممالک سے زیادہ ہے۔اب تو ہمارے سیاستدانوں، صاحب حیثیت لوگوں اور اعلیٰ سرکاری عہدیداران کی ایک کثیر تعداد کے لئے، جو بڑے بڑے تعلیمی برینڈز کے مالک ہیں،یہ ایک منافع بخش انڈسٹری بن چکی ہے۔بقیہ زیادہ تر پرائیویٹ تعلیمی ادارے مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس لوگوں نے کوٹھیوں میں قائم کر رکھے ہیں۔انہیں محکمہ تعلیم کے ساتھ رجسڑیشن اور تعلیمی بورڈز کے ساتھ الحاق کروانے کے لئے نہ جانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔سرکاری اہلکار اپنی مٹھی گرم ہونے تک انہیں پریشان کرتے ہیں۔ان میں غیر محفوظ مستقبل کے حامل اساتذہ کی تنخواہیں بہت ہی کم ہوتی ہیں۔ اس لئے وہ ان اداروں کو عارضی پناہ گاہ کے طور پر لیتے ہیں۔ جب بھی کوئی بہتر چانس ملتا ہے وہ غائب ہو جاتے ہیں، جس سے بچوں کا تعلیمی تسلسل ٹوٹنے سے ناقابل تلافی تعلیمی نقصان ہوتا ہے۔بہت سارے والدین ان اداروں کی دو دو تین ماہ کی فیسیں مار کر بھاگ جاتے ہیں، جس سے ان اداروں کو مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ انہیں عمارتوں کے کرائے، بجلی کے بل اور اساتذہ کو تنخوا ہیں تو ہر حال میں ادا کرنا ہوتی ہے۔  

جن اداروں کو محکمہ تعلیم رجسٹر کرتا ہے یا تعلیمی بورڈ الحاق دیتے ہیں وہ بھی ایک مذاق سے کم نہیں ہے۔ حکومت نے ہر دو کے لئے نہایت کڑے معیار مقرر کر رکھے ہیں۔راقم ایک ڈویژن میں ایڈیشنل کمشنر تعینات تھا۔محترم کمشنر صاحب ان دِنوں تعلیمی بورڈ کے چیئرمین بھی تھے انہوں نے ان اداروں کے الحاق اور رینیول کا کام میرے ذمہ لگا رکھا تھا۔میں نے ذاتی طور ہر ادارے کا وزٹ کیا۔ میرے خیال کے مطابق زیادہ سے زیادہ 20فی صد الحاق شدہ ادارے سرکاری معیار پر پورے اُترتے تھے۔میں نے ایسے ادارے بھی دیکھے جن میں کھیل کے میدان، سائنس لیب، کمپیوٹر لیب اور لائبریری وغیرہ سرے سے ہی موجود نہ تھے۔یہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے عام طور پربچوں کے کنسیپٹ کلیئر کرنے کی بجائے رٹا لگوا کر زیادہ سے زیادہ نمبرلینے کی تیاری کرواتے ہیں۔ بڑے بڑے تعلیمی برانڈز تعلیمی بورڈز کے ملازمین کی ملی بھگت سے اپنی مرضی کے امتحانی سنٹر بنواتے ہیں اور عملہ تعینات کرواتے ہیں، بچوں سے نقل جیسا مکروہ دھندا کرواتے ہیں (چند ماہ پہلے پنجاب میں ایسے لوگ پکڑے بھی گئے تھے)،مارکنگ بورڈ ز سے بھی رابطے میں ہوتے ہیں۔ اپنے بچوں کو بورڈز میں پہلی پوزیشنیں دلواتے ہیں۔اس کی اشتہار بازی کرتے ہیں، یوں ان کے اداروں میں داخلہ کروانے والوں کا رش پڑتا ہے۔پھر چمکتا ہوا گلشن کا کاروبار مزید چمکتا ہے۔

جہاں تک پرہماری پرائیویٹ یوینورسٹیوں اور دیگر اداروں کے تعلیمی معیار کا تعلق ہے چندایک کو چھوڑ کرباقی غیر ہنرمنداور ڈگری ہولڈرز کی سالانہ کھیپ تیار کر کے ملکی بیروزگاری میں اضافہ کر رہے ہیں۔ راقم بھی ایک پرائیویٹ سکول سسٹم چلا رہا ہے۔ ہم نے پچھلے سال انگریزی کے استاد کے لئے اشتہار دیا۔ ایک صاحب تشریف لائے، جنہوں نے ایک پرائیویٹ یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کر رکھا تھا اور اسی یوینورسٹی سے ایم فل بھی کر رہے تھے۔ انہیں نوکری کے حصول کے لئے انگریزی میں درخواست لکھنے کا کہا گیا۔موصوف نے درخواست لکھی جو صرف پانچ جملوں پر مشتمل تھی اور پانچوں ہی  غلط تھے۔ حتیٰ کے موصوف نے فرسٹ پرسن۔آئی۔کو بھی سمال لیٹرز میں لکھا تھا۔ پچھلے ہفتے کی بات ہے۔ایک خاتون اپنے بچے کو جماعت نہم میں داخل کروانے کے لئے لے کر آئی، جس کے ہاتھ میں اس کے بچے کو گوجرانوالہ کے ایک معروف پرائیویٹ تعلیمی ادارے کے پرنسپل صاحب کی طرف سے جاری کردہ آٹھ دس میرٹ سرٹیفکیٹ تھے۔ جن میں اردو اور انگلش رائٹنگ کے مقابلے میں پہلی پوزیشن کا سرٹیفکیٹ بھی تھا۔میرے وائس پرنسپل صاحب بہت متاثر ہوئے۔ انہیں بچوں کا ٹیسٹ لینے کا کہا گیا۔ ٹیسٹ لیا گیا۔ تو بچے کی ماں بھی شرمندہ تھی اور میرے وائس پرنسپل صاحب بھی،نہ تو بچے کو صحیح طرح سے انگریزی لکھنی آتی تھی، نہ ہی اردو۔ ریاضی، اسلامیات، معاشرتی علوم کے ٹیسٹ کا بھی برا ہی حال تھا۔ان دو مثالوں سے قارئین کو اندازہ ہو ہی گیا ہو گا کہ ہمارا تعلیمی معیار کتنا گر گیا ہے،جس کی ذمہ دار صرف اور صرف ریاست ہے،جس نے اتنا اہم شعبہ پرائیویٹ سیکٹر کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔

لہٰذا اصلاح احوال کے لئے ریاست کو چاہئے کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ہر بچے کو میٹرک تک مفت تعلیم مہیا کرنے کا بندوبست کرے۔ تعلیمی شعبے کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرکے ملک میں فوری طور پر ایجوکیشن ایمرجنسی نافذ کرے۔ سرکاری اداروں کی تعداد کو بتدریج بڑھا کر دوگنا کرے۔جب تک ایسا نہیں ہوتا میٹرک تک کے طلباء کی فیسیں، یونیفارم، کتابیں اور سٹیشنری وغیرہ سرکاری بجٹ سے ادا کرے۔ ممبران اسمبلی اور تمام سرکاری ملازمین پر لازم کر ے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کروائیں۔پورے ملک کے تمام قسم کے تعلیمی اداروں میں ایک ہی سلیبس پڑھایا جائے۔ تعلیمی اداروں کی مانیٹرنگ کے لئے ایماندار اور ذمہ دار افسروں کا تقرر کیا جائے۔جب ریاست تمام طلباء کو تعلیمی سہولتیں دینے کے قابل ہو جائے تو تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں پربتدریج پابندی لگا دی جائے تاکہ ہم صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ قوموں کی صف میں کھڑے ہو سکیں۔

مزید :

رائے -کالم -