سپین میں انتخابات ، حکومت اور اپوزیشن دونوں پریشان
تجزیہ: آفتاب احمد خان
سپین کے انتخابات ملک کے لئے ایک بڑی تبدیلی لے کر آئے ہیں، حکمران جماعت اپنی اکثریت کھو بیٹھی ہے اور اپوزیشن جماعت بھی اب اپنی پہلے والی پوزیشن پر نہیں رہی۔ تین عشروں سے ان جماعتوں نے اقتدار اور اپوزیشن میں رہنے کے لئے اپنی باریاں طے کر رکھی تھی، کسی تیسری جماعت کو اقتدار میں آنے کا موقع نہیں دیا جاتا تھا مگر انتخابات کے نتائج سے جو نئی صورتحال سامنے آئی ہے اس میں حکمران پاپولر پارٹی اور اپوزیشن سوشلسٹ پارٹی اب باری باری اقتدار کے مزے لوٹنے کے قابل نہیں رہیں، دیگر دو جماعتوں کے خاصی نشستیں حاصل کرلینے کے باعث بظاہر منقسم نتائج سیاسی بے یقینی کا باعث بنیں گے، دیکھتے ہیں آگے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
حکومتی اور پوزیشن جماعت، دونوں کی مخالف پارٹیاں پوڈیموس اور سیوڈا ڈانوس نے خاصی نشستیں جیتی ہیں اور پوڈیوس پارٹی کے سربراہ پبلو اگلیسیا س کا کہنا ہے کہ اب سپین پہلے جیسا نہیں رہا، ہم بہت خوش ہیں۔‘‘ اب پاپولر پارٹی اور سوشلسٹ پارٹی میں سے کوئی بھی دیگر دو بڑی جماعتوں کے بغیر حکومت بنانے کے قابل نہیں ہیں۔ پاپولر کو انتیس فیصد، سوشلسٹ کو بائیس فیصد، پوڈیموس کو اکیس فیصد اور سیوڈا ڈانوس کو چودہ فیصد ووٹ ملے ہیں۔ اس طرح اگرچہ پاپولر پارٹی اب بھی پہلے نمبر پر ہے مگر اسے واضح اکثریت حاصل نہیں ہو سکی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی پارٹی اکیلئے حکومت نہیں بنا سکے گی۔ اگر سوشلسٹ اور پاپولر نے مل کر حکومت بنائی تو اسے دیگر دو جماعتوں کی سخت اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔پوڈیموس پارٹی سپین کے عالمی بحران کے دوران میں قائم کی گئی تھی جو انتخاب میں ایک بڑی سیاسی طاقت بن کر سامنے آئی ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد قائم کر لے اور یہ بھی امکان ہے کہ وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے، نئے اتحاد کے حوالے سے کوششیں چند روز میں آگے نہیں بڑھ سکیں گی بلکہ اگلی حکومت کے خدو خال سامنے آنے میں چند ہفتے لگ سکتے ہیں۔
ادھر پاپولر پارٹی کے سربراہ ماریانو راجوئے نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی جماعت سے کچھ مشکل اور غیر مقبول فیصلے ہوئے تاہم وہ حکومت بنانے کی کوشش کریں گے، وہ اس میں کامیاب بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ اب بھی نمبر ایک جماعت کے سربراہ ہیں اور انہیں سیاسی جوڑ توڑ کا بھی کافی تجربہ ہے، سوشلسٹ پارٹی کے سربراہ پیڈو سانچیز بھی حکومت سازی کے لئے دوسری جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ مذاکرات کے آگے بڑھنے پر ہی صورتحال واضح ہو گی کہ اب کے اقتدار کن جماعتوں کے حصے میں آتا ہے۔