احیائےاتحادِامت مسلمہ !!!

عصرِ حاضر میں سیاسی اوراقتصادی میدان میں کامیابی ہی ریاستی استحکام کی ضامن ہے لہذٰا بڑی طاقتوں میں تجارتی اجاراداری کی جنگ شدت اختیار کرچکی ہے۔ کسی بھی ملک پر دباؤ ڈالنے کےلیے معاشی ہتھکنڈوں کی اہمیت فوجی کارروائی سے زیادہ اہمیت ااختیارکرچکی ہے۔اگردیکھا جائے تو اُمتِ مسلمہ ابھی تک سیاسی مفادات کے تحفظ کےلیے اقتصادی ہتھیار کومئوثر طریقے سےاستعمال کرنے میں ناکام ہے۔اِس کااہم سبب مسلم ممالک کےدرمیان اتفاق واتحاد کی شدیدکمی ہے،وقت گزرنے کےساتھ ساتھ " اوآئی سی "مکمل طورپر غیر مئوثر ہوچکی ہے۔اقتصادی میدان میں" اوآئی سی "کےممبرممالک کی کوئی مشترکہ حکمتِ عملی سامنے نہیں آسکی۔ یہ بات دیکھنے میں آئی ہےکہ اکثر مسلم ممالک کےکاروباری اور تجارتی روابط ان غیرمسلم ممالک کے ساتھ جڑچکے ہیں ,جن سے سیاسی طورپر پراُمتِ مسلمہ کو نقصان اٹھانا پڑرہاہے۔لہذٰا امت مسلمہ کو اپنی تجارتی , کاروباری اور اقتصادی پالیسیوں پر نظر ثانی کرناہوگی۔سعودی عرب جوکہ خودکو امت مسلمہ کا قائد سمجھتا ہے,وہ بھارت جیسے ملک سے معاشی تعلقات کو بڑھارہاہے۔کیا سعودی عرب کوخبر نہیں کہ گزشتہ پانچ ماہ کے دوران مقبوضہ جموں و کشمیر کےمسلمان کس قسم کی صورتحال سےدوچار ہیں ؟بھارت وہاں آبادی کا تناسب تبدیل کرنےکا اسرائیلی ماڈل آزماتےہوئے کشمیری عوام سےاُن کی سر زمین چھین لیناچاہتاہےاورتاریخ انسانی کی سب سے نسل کشی متوقع ہے ۔ کیا سعودی عرب کو احساس نہیں کہ ہندو مہاسبھائی قیادت " ہند صرف ہندووں کےلیے" کی پالیسی پر گامزن ہےجسکے تحت بھارتی مسلمانوں کی شہریت چھیننے کےلیے بھارتی قانون شہریت کو بدل دیا گیا ہے؟اسکےخلاف پورے بھارت میں مسلم کمیونٹی سراپااحتجاج ہے ۔
ذراسوچیے !!! یہ کروڑوں مسلمان جو کشمیر اور بھارت کے دیگر علاقوں میں بستے ہیں , فریاد لے کر کس کے در پر جائیں ؟؟؟ جبکہ ان کا مستقبل اورزندگی خطرے میں پڑچکی ہے؟؟؟ کہاں ہے " اوآئی سی "؟؟؟ کہاں ہے امت مسلمہ کا قائد سعودی عرب ؟؟؟ کہاں ہے متحدہ عرب امارات ؟؟؟حالت یہ ہے کہ اگر ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اور ترک صدر رجب طیب اردوگان " کوالالمپور سمٹ " کے ذریعے اُمت مسلمہ کے ازسرنو اتحاد و یگانگت , اور سیاسی و معاشی مفادات کے تحفظ کےلیے کچھ اقدامات کا سوچتے ہیں تو امت مسلمہ کا یہ ہی قائد سعودی عرب اعتراضات کی بوچھاڑ کردیتا ہے۔
سعودی حکومت نےپاکستان کےوزیراعظم کوباقاعدہ طورپر ریاض بلاکر" کوالالمپور سمٹ " میں شرکت نہ کرنےکی یقین دہانی حاصل کرلی اورہم اپنےغریب مزدوروں کی خاطرخاموش رہے ،یہ معاملہ تو دب ہی جاتا اور کسی کو خبر ہی نہ ہوتی اگر ترک صدر رجب طیب اردوگان سعودی عرب کےپاکستان کےساتھ نامناسب رویے پرتحفظات کا اظہارنہ کرتے اگرچہ ترک صدر رجب طیب اردوگان اور ملائیشین وزیراعظم مہاتیرمحمد پاکستان کی مجبوری کو مدنظر رکھتے ہوئے درگزرکرگئےہیں لیکن اس کے باوجود یہ نقصان ضرورہواہےکہ ہم " کوالالمپورسمٹ " میں کوئی کردارادا نہیں کرپائے اورنہ ہی’کوالالمپورسمٹ ‘ کےفیصلوں اوراقدامات سے کوئی فائدہ اٹھاپائیںگےجوکہ خودہمارے قومی مفادات کےمنافی ہے۔ ترکی اور ملائیشیا اگر ہماری مجبوری کا ادراک کرتےہوئے"مسئلہ کشمیر " پرہماری حمایت جاری رکھیں گےتویہ اُن کا ہم پراحسانِ عظیم ہوگا ۔
سعودی عرب کوبڑےدل کا مظاہرہ کرتےہوئےشیعہ سنی اختلافات کوایک طرف رکھتے ہوئے "ایران " سے تعلقات معمول پرلانے چاہییں اوراسی طرح سعودی عرب کو قطرکو ساتھ باہمی تنازعات حل کرلینے چاہییں تاکہ مستقبل میں " اتحادِامت مسلمہ " کےلئے" کوالالمپورسمٹ " جیسے شاندارمواقع سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔اسی طرح متحدہ عرب امارات کوبھی اپنے مئوقف میں تبدیلی لانی چاہیے کیونکہ"اتحادامت مسلمہ" کےلیےیہ ناگزیرہوچکا ہے۔"کوالالمپورسمٹ "میں ہونےوالےفیصلوں کےمطابق سمٹ میں شریک ممالک نے زبر دست اقتصادی فیصلے کیےہیں جن میں ڈالرکی تجارتی اجاراداری ختم کرنےکےلیےگولڈ اوربارٹرسسٹم کے ذریعے تجارت اور ڈالرکے مقابلے کےلیےایک مشترکہ کرنسی کےاجراء کی تجاویز قابلِ ستائش اورقابلِ تقلید ہیں۔اگر ایران , ترکی , ملائیشیا اورقطر اقتصادی نوعیت کا ایک مئوثر مسلم فورم قائم کرنےمیں کامیاب ہوگئے تویہ یقیناً " اوآئی سی "سےکہیں زیادہ فعال اور سودمند ثابت ہوگا۔ عرب ممالک کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ مسلم ممالک کواپنے کاروباری اور تجارتی اثرورسوخ سےفائدہ اٹھانےکےلیے عالمی طاقتوں کی اقتصادی اجاراداری ختم کرنا ہوگی اوریہ قطعاً ضروری نہیں کہ اس کےلیے صرف اوآئی سی کوہی بنیادی فورم بنایا جائے۔ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اقوام متحدہ کی موجودگی میں بھی یورپین یونین , نیٹو , دولتِ مشترکہ برطانیہ , شنگھائی تعاون تنظیم , سارک , جی فائیو اور جی ایٹ جیسے مختلف نوعیت کے فورمزموجود ہیں , جومختلف مقاصد کےحصول کےلیے وقتاً فوقتاً بنائےگئے , اوریہ کافی کامیاب اور مئوثرفورمزسمجھےجاتےہیں ۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔