معلوماتی سفرنامہ۔۔۔ بیسویں قسط
لفٹ اور دھماکہ
تین چار گھنٹے یہاں گزارنے کے بعد میں نے واپسی کا ارادہ کیا۔ واپسی میں لفٹ میں بیٹھا تو شہر کا منظر نیچے اترتی لفٹ سے دیکھا۔ ہم تیزی سے پھسلتے ہوئے نیچے چلے آرہے تھے۔زمین لمحہ بہ لمحہ قریب ہورہی تھی۔ لفٹ ہلکی ہوئی مگر اتنی نہیں کہ زمین تک پہنچتے پہنچتے رک جائے۔ میرا دل دھک سے رہ گیا۔ لمحہ بھر کے لیے محسوس ہوا کہ لفٹ دھماکے سے زمین سے ٹکرائے گی۔ مگر ایسا نہ ہوا۔دراصل لفٹ زیرِ زمین چلی گئی تھی۔ لفٹ نے مسافروں کو نیچے واقع شاپنگ سنٹر میں اتارا تھا تاکہ دکانداروں کا بھی کچھ بھلا ہوجائے۔ خیر موجودہ مالی حالات میں مجھ سے تو انہیں یہ بھلا کسی صورت نہیں پہنچ سکتا تھا۔ میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر راہداری میں آگیا۔ یہاں مانیٹرز پر اس ٹاور اور دنیا کی دیگر بلند عمارات کے متعلق کافی تفصیلات دی گئی تھیں۔مسجدوں کے میناروں کا بھی خاص طور پر تذکرہ تھا۔ بعض معلومات بڑی دلچسپ تھیں۔ مثلاََ یہ ٹاور 419کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والے طوفان کو بھی سہہ سکتا ہے۔ یہ 18انچ تک اپنے مرکز سے اِدھر اُدھر جھول سکتا ہے۔ دیگر اہم معلومات میں پیچھے درج کرچکاہوں۔
انیسویں قسط۔ ۔۔ معلوماتی سفرنامہ کی پچھلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
لمبے بالوں والیاں
یہاں تقریباً تمام خواتین بہت چھوٹے بال رکھتی ہیں۔ مردوں کی داڑھیاں نہیں ہوتیں۔ دونوں کے کپڑے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ یعنی پینٹ کے ساتھ شرٹ یا بنیان۔ ان حالات میں اپنی نگاہوں کو اچھا خاصا گنہگار کیے بغیر یہ پتا چلانا مشکل ہوتا ہے کہ برابر میں مرد کھڑا ہے یا عورت۔ خدا خدا کرکے جب گرمیاں آئیں اور خواتین کے کپڑے ان کے بالوں کے سائز کے ہوگئے تب کہیں جاکر اس تحقیقاتی مشن سے نجات ملی۔ لیکن میں سوچ رہا تھا کہ سخت سردیوں میں جب لوگ ’’بنڈل اپ‘‘ ہوکر یعنی کپڑوں سے لد کر گھروں سے نکلتے ہوں گے تو انسانی مساوات کا وہ اعلیٰ نمونہ قائم ہوتا ہوگا کہ مردوزن کی آخری ظاہری تمیز بھی مٹ جاتی ہوگی۔ اس کے بعد کسی بھی اجنبی سے گفتگو کا آغاز کرتے وقت بڑے شش و پنچ سے گزرنا پڑتا ہوگا کہ سر کہہ کر گفتگو کا آغاز کریںیا میڈم۔ میرے لیے یہ چیز اس لیے بھی مسئلہ تھی کہ میں یہاں کی تہذیب اور لوگوں کو سمجھنے کے لیے پاس بیٹھنے والوں سے گفتگو کرتا رہتاتھا۔
خواتین کے چھوٹے بالوں سے یاد آیا کہ اپنے مشرق میں لمبے بال ہمیشہ حسن کی علامت قرار دیے گئے ہیں۔ یہاں کینیڈا میں پہلی دفعہ بس میں ایک لمبے بالوں والی خاتون کو دیکھا تو بڑی حیرت ہوئی۔ کیونکہ کوئی خاتون لمبے بالوں کے ساتھ ابھی تک نظر نہیں آئی تھیں۔ خیال آیا کہ کم ہی سہی لیکن یہاں کی خواتین بھی لمبے بال رکھتی ہیں اور مغرب میں کچھ لوگ تو ہیں جواس مشرقی اندازِ حسن کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ جب ان خاتون کا اسٹاپ آیا اور وہ اپنی نشست سے اٹھیں اور میری طرف رخ کیاتو پتا چلاکہ میری ممدوح کوئی خاتون نہیں ایک حضرت تھے۔ بعد میں تواتر کے ساتھ جب ایسے ہی واقعات پیش آئے تو میں نے ایک کلیہ اخذ کرلیا کہ لمبے بالوں کے ساتھ جب کوئی نظر آئے گا تو وہ کوئی موصوفہ نہیں سو فیصد موصوف ہوں گے۔
سردی جو جاکر نہیں دیتی
جون کے مہینے کا آغاز ہوچکا ہے۔ دنیا بھر میں موسم معتدل بلکہ اکثر جگہ گرم ہوچکا ہے۔ جبکہ یہاں کافی تیز ٹھنڈ ہے۔ پچھلے دنوں ٹھنڈ میں ذرا فرق پڑا تھا جس کی بنا پر ہیٹر بند کردیے گئے تھے۔ مگردو دن بعد سردی کی وہ لہر آئی کہ دوبارہ ہیٹر کھولنے پڑگئے۔ یہاں فلیٹس میں ہیٹنگ کا نظام مرکزی ہوتا ہے جس کا کنکشن گھر کے ہر کمرے میں آرہا ہوتا ہے۔ نئے فلیٹوں میں یہ سہولت ہے کہ لوگ ٹمپریچر اپنی مرضی سے سیٹ کرسکتے ہیں کیونکہ ان کے ہر کمرے میں اسے سیٹ کرنے والاتھرمواسٹیٹ سسٹم دیا ہوتا ہے۔ تاہم کامران کے گھر میں یہ سہولت نہ تھی۔ ایک خاص درجے کی حرارت قائم کردی جاتی اس کے بعد سردی لگے یا گرمی یہ انتظامیہ کا مسئلہ نہ تھا۔ جن لوگوں کے جسم یہاں کی شدید سردی کو برداشت کرنے کے عادی تھے ان کے لیے تو مسئلہ نہ تھا مگر میرے جیسے نئے آنے والے کے لیے اس صورتحال سے نمٹنا اتنا آسان نہ تھا۔
جن دودنوں میں ہیٹر بند ہوئے میرے لیے راتو ں کو سونا مشکل ہوگیا۔ میں زمین پر سوتا تھا۔ سوتے وقت تو اتنی سردی نہیں ہوتی تھی مگر رات بھر میں درجۂ حرارت کافی نیچے آجاتاجس کے بعد سردی، کمبل اور گدے دونوں سے سرائیت کرکے مجھے آدبوچتی۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ میں رات بھر کروٹیں بدلتا رہتا۔ تیسرے دن جب ہیٹر کھلا تو میںآرام سے سویا۔ ویسے ہیٹر میں بھی ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ یہ کہ ہیٹر مسلسل چلتے چلتے کمرے سے نمی ختم کردیتا ہے۔ جس کے بعد سانس لینے میں دشواری پیدا ہوجاتی ہے۔ نگہت باجی کی چھوٹی بیٹی عائشہ جس کی یہ پہلی سردیاں تھیں وہ اس بنا پر شدیدبیمار پڑ گئی۔ کیونکہ ہیٹر مسلسل چلنے سے کمرے کی نمی ختم ہوگئی۔ وہ چھوٹی سی بچی کیا بتاتی کہ اسے کیا محسوس ہورہا ہے۔ آخر کار اس بیچاری کی سانس کی نالی میں انفیکشن ہوگیا۔عام طور پر اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کھڑکی کو تھوڑا سا کھلاچھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ تازہ ہواآتی رہے۔ یہاں پر میں یہی کرتا تھا کہ کمرے کی کھڑکی ذرا سی کھلی چھوڑدیتا۔ اس کے نتیجے میں جو ٹھنڈ اندر آتی اسے بہرحال برداشت کرنا پڑتا۔
قیامت کیسے آئے گی؟
قرآن میں بڑی تفصیل کے ساتھ قیامت کے ہولناک واقعات کی ایسی دل ہلادینے والی تفصیل بیان ہوئی ہے کہ انسان پڑھے تو رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔لیکن اول تو ہمارے ہاں قرآ ن کوسمجھ کر پڑھنے کا رواج ہی نہیں اور جو تھوڑے بہت لوگ اسے سمجھ کر پڑھتے ہیں انہیں قیامت کوئی اہم چیز نہیں لگتی۔ وہ اسے بہت دور کی چیز سمجھتے ہیں۔تاہم قرآن وحدیث میں قیامت کی جو نشانیاں بیان کی گئی ہیں ان میں سے کئی پوری ہوچکی ہیں۔بظاہر یہ لگتا ہے کہ جو باقی ہیں ان کے پورا ہونے میں بھی اب بہت دیر نہیں لگے گی۔میں نے اس بارے میں بہت سوچا ہے کہ قیامت کس طرح آئے گی۔قرآن میں اس کے وقوع کا جو نقشہ بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق اچانک آنے والی یہ عالمی آفت زمین اور اہلِ زمین کی اینٹ سے اینٹ بجادے گی۔سمندر ابل پڑیں گے۔پہاڑ وں کے پرخچے اڑجائیں گے۔ سورج، چاند ، ستارے بے نور ہوجائیں گے۔ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس آفت کا نقطۂ آغاز کسی سیارچے کا زمین سے ٹکرانا ہوگا۔مجھے اس کا کچھ اشارہ سور ۂالذاریات کی آیت ۲۲میں نظر آتا ہے: ’’اور تمہارا رزق اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے(یعنی قیامت) آسمان میں ہے‘‘۔
میں نے یہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ ایک روز ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھا۔ جس میں یہ بتایا گیا تھاکہ ایسے کسی واقعے کا ہونا بعید نہیں بلکہ کم وبیش یقینی ہے۔ خلا میں بے گنتی اجرام فلکی گھومتے پھررہے ہیں۔ان میں سے بہت سے زمین کا رخ بھی کرتے رہتے ہیں مگر یہ اکثر بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی یہ ان حفاظتی ڈھالوں سے رگڑ کھاکر، زمین تک پہنچنے سے قبل ، ختم ہوجاتے ہیں جو کرۂ ارض کے ارد گرد موجود ہیں۔ مگر بہت سی خلائی چٹانیں کافی بڑی بھی ہوتی ہیں۔ان میں سے کسی ایک نے بھی کبھی زمین کا رخ کرلیا تو زمین کی فضا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔پروگرام میں بتایا گیا کہ اگر ایک کلومیٹر بڑی چٹان زمین سے آکر ٹکراتی ہے ، جو کہ بہت چھوٹاسائز ہے تو پچاس کروڑ ایٹم بموں کی طاقت کے برابر دھماکہ ہوگا۔ زمین سے مٹی کی ایک لہر اٹھے گی جو آسمان کو ڈھانپ لے گی۔ چاند سورج اور ستاروں سب کی روشنی اس میں ماند پڑجائیگی۔ سمندروں سے ایسی لہریں اٹھیں گی کہ تمام ساحلی شہر اس میں بہہ جائیں گے۔ زمین پر سے حیات مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ پروگرام کے مطابق آج سے ساڑھے چھ کروڑ سال قبل ڈائناسور ایسے ہی کسی واقعے کے نتیجے میں ختم ہوئے تھے۔
اس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ایسی کسی صورتحال سے بچنے کے لیے سائنسدان چوبیس گھنٹے خلا کی نگرانی کررہے ہیں۔ کیونکہ اگلے تیس سالوں میں ایک کلومیٹر طویل ایک چٹان زمین کا رخ کرسکتی ہے۔ ایسا ہوا تو وہ میزائل کے ذریعے ایٹم بم مار کر اسے تباہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ مگر یہ بھی کوئی یقینی حل نہیں۔ میرے خیال میں اگر خدا نے اسی ذریعے کا انتخاب کیا تو زمین والوں کے سارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ بلکہ جب میں سورۃ القمر پڑھتا ہوں جس کی پہلی آیت کہتی ہے ’’قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا‘‘تو خیال آتا ہے کہ عجب نہیں کہ خدا ایک دفعہ پھر چاند کے دو ٹکڑے کردے۔ یا اس کا کوئی حصہ کسی وجہ سے بھی ٹوٹ کر اس سے جدا ہوجائے اور اپنے زور میں اس کی کشش سے آزاد ہوکر زمین کا رخ کرلے۔ چاند زمین سے اتنا قریب ہے کہ زمین والوں کو سنبھلنے کی مہلت بھی نہ ملے گی۔ واللہ اعلم۔ بہرحال بات یہ ہے کہ سورۃ المعارج میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’یہ اسے (قیامت کو)دور دیکھ رہے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں‘‘۔اب جبکہ غیر مسلموں نے بھی اس قیامت کو دیکھنا شروع کردیا ہے تو ہم مسلمان جو قطعیت سے جانتے ہیں کہ ایسا ہوکر رہے گاکیوں نہ ان سے پہلے اسے دیکھ لیں اوراس کی تیاری کرلیں۔
(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔