امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد ؒ

امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد ؒ
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد ؒ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ان کے کلام میں جادو،زبان میں سحر اور تحریر میں اعجاز ہی اعجاز تھا وقت کی سیاست نے مسلمانوں کو ان کی امامت سے محروم تو کر دیا لیکن ان کے قلم اور زبان سے نکلے ہوئے فقرے اور جملے آج بھی دِلوں کے لئے محبوب اور دماغوں کے لئے مرغوب ہیں وہ اس دور میں انگریز سامراج سے ٹکرائے جب سر سید کے نظریات کے مطابق انگریزوں سے بغاوت کو بری نظر سے دیکھا جاتا تھا اور دینی رہنما اپنے تئیں اپنی دنیا میں گم تھے جبکہ سیاست میں ہندو لوگ چھائے ہوئے تھے ہندوستان کے مسلمان سیاست میں ساحر افرنگ سے شکست کھا کر ”امنا باالطاغوت“ کا نعرہ عجز وخود فراموشی بلند کر چکے تھیایسے میں کلکتہ سے ایک طاقتور صدا بلند ہوئی جس کو ہندوستان بھر میں سنا گیا یہ آواز ”الہلال“ کے ایڈیٹر کی تھی جس کا نام احمد باالمکنی ابو الکلام الدہلوی اس وقت نامانوس تھا لیکن بعد میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے یہ نام نامانوس نہیں بلکہ مشہور و معروف ہوا کسی نے انہیں وقت کا ڈما ستھنیز کہا تو کسی کے نزدیک وہ سسرو اور گلیڈاسٹون کے ہمسر ٹھہرے، لیکن تاریخ جانتی ہے کہ ابوالکلام آزاد ان سب سے بلند و بالا مرتبے کے حامل تھے۔وہ ایسے خطیب تھے جن کی خطابت میں بجلی کی کڑک،رعد کی گرج، دریا کی روانی،سبزہ زاروں کی طراوت، پہاڑوں کا شکوہ،گلستان کا جمال،ناہید کا نغمہ اور حسن کا تناسب کچھ اس طرح گھلا ملا ہوا تھا کہ ان کا حسن بیان مجسم ہو کر جلوہ آفرین ہو جاتا تھا مولانا ابوالکلام آزاد میں قدرتی طور پر وہ تمام صفات اور صلاحیتیں موجود تھی جو ایک کامیاب لیڈر،خطیب و ادیب اور شاعر میں ہوا کرتی ہیں۔وہ عالی نسب ایسے تھے کہ صدیوں سے ان کا خاندان زہدو درع، رشدو ہدایت کا مرکز رہا وہ بذاتِ خود ذاتی طور پر وجاہت اور مردانہ حسن کا عملی نمونہ تھیان کے علم و فضل اور عربی و فارسی پر قدرت کے سب معترف رہے قدرت نے انہیں طلاقت زبان اور قوت بیان کے ساتھ ساتھ بے مثال حافظے سے بھی نوازا تھا۔

ان کے والد مولانا خیر الدین کلکتے کے بہت بڑے پیر تھے لیکن وہ زندگی بھر اس سلسلے سے دور رہے۔اگرچہ مولانا محمد علی جوہر کی طرح وہ انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن انگریز ان سے تھرتھراتے تھے۔مولانا ابوالکلام آزاد 22 اگست 1988 بروز بدھ کو مکہ المکرمہ میں پیدا ہوئے۔ان کا اصل نام غلام محی الدین احمد تھا وہ ایسے خاندان کے نام لیوا تھے جو صدیوں علم و فضل،تصوف اور دعوت و ارشاد کا گہوارا رہا، ابھی عمر دس برس تھی کہ والدین کے ہمراہ ہندوستان تشریف لائے۔ انیس سو ننانوے میں لکھنو کے ماہنامہ ”خدنگ نظر“ میں پہلی دفعہ ان کا کلام چھپا۔ دو سال بعد انہوں نے ہفتہ وار ”المصباح“ کا اجراء کیا۔1902ئمیں 14 سال کی عمر میں ”احسن الاخبار“ کلکتہ کی ادارت کی 15 سال کی عمر مکمل نہیں ہوئی تھی کہ درس نظامی کی تکمیل ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی 20 نومبر1903ء کو ماہنامہ”لسان الصدق“کا اجرا کر کے انہوں نے علمی حلقوں کو حیران کر کے رکھ دیا ۔1904ء میں لاہور کے انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں ان کی  مولانا الطاف حسین حالی سے پہلی ملاقات ہوئی۔وہ ماہنامہ ”الندوہ“لکھنؤ،سہ روزہ ”وکیل“ امرتسر اورہفت روزہ  ”دارالسلطنت“کے مدیر رہے ان کا سب سے بڑا کارنامہ جس کو ہندوستان کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ 1912ء میں ”الہلال“ کا اجراء  تھا۔ ”الہلال“ کلکتہ سے نکلا اور اس شان سے نکلا کہ بے اختیار تمام ملک کی نظریں اس کی طرف اُٹھ گئیں ان کی ہر بات انقلاب انگیز تھی، ان کے ”الہلال“ میں ظاہری شکل و صورت میں نیا پن اور باطنی طور پر وہ تمام محاسن موجود تھے جو ایک اہم جریدے میں ہونے چاہئیں۔ اس کے دو چار نمبروں نے ہی یوں دھوم مچائی کہ ہر عام و خاص، ادنی و اعلی کی زبان پر ”الہلال“ہی تھا۔”الہلال“ کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا مجتہدانہ  انداز تھا۔ اس جریدے نے کسی کی پیروی نہیں کی لیکن  زمانہ اس کے نقش قدم پر چل پڑا۔ مذہبی دعوت و تبلیغ،پولٹیکل پالیسی،علمی و ادبی مباحث، طرز تحریر و انشاء  الفاظ و تراکیب ، اس کی ہر چیز ہی تو نرالی تھی،بس پھر کیا تھا پچھلے تمام نقش مٹ گئے لیکن ”الہلال“ کا نقش غالب رہا۔


مولانا ابوالکلام آزاد کی طرزِ سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن آزادی ہند کے حوالے سے ان کی قربانیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے سیاسیات ہند کے باب میں وہ شاندار اضافے کئے کہ زمانہ ان کی مثال دینے سے قاصر ہے۔انہوں نے تحریک خلافت،جمیعت علمائے ہند اور کانگریس کے پلیٹ فارم سے انگریز کے خلاف علم بلند کیا اور انگریز کے باغی ٹھہرے، کبھی بغاوت کے جرم میں اور کبھی آزادی کا پرچم بلند کرنے کی پاداش میں انھیں  پابند سلاسل کیا گیا۔ وہ آل انڈیا نیشنل کانگریس کے صدر بھی رہے۔انہوں نے ”ترجمان القرآن“ کے نام سے تفسیر لکھی۔قلعہ احمد نگر میں انہیں نظر بند بھی کیا گیا۔ مولانا آزاد  ہندوستان کے مسلمانوں کے واحد لیڈر تھے جنہیں آزادی کی تحریک  میں مسلمانوں کی طرف سے بے تحاشا گالیاں  سننا پڑیں۔ پاکستان بن جانے کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے لیے وہ آخری سہارا تھے۔ہندو،مسلمان اور سکھ ان کا برابر احترام کرتے تھے۔وہ آزاد ہندوستان کے پہلے عام انتخابات میں لوک سبھا کے ممبر منتخب ہوئے اور مرکزی کابینہ میں تعلیم،قدرتی ذرائع اور سائنسی تحقیقات کے وزیر مقرر ہوئے۔وہ عظیم ادیب،بے بدل خطیب اور انتہائی دلیر صحافی تھے۔دنیائے سیاسیات میں ان کا اپنا نقطہ نظر تھا جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے مقام و مرتبے کو گھٹایا نہیں جا سکتا۔ 19فروری کو علی الصبح ان پر فالج کا شدید حملہ ہوا وہ تین دن بے ہوش رہے، 22 فروری1958ء کو صبح دو بج کر دس منٹ پر انہوں نے  داعی اجل کو لبیک کہا۔سہ پہر تین بجے جامع مسجد دلی  کے زیر سایہ مولانا احمد سعید دہلوی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور وہی اردو پارک میں ان کو دفن کردیا گیا۔

مزید :

رائے -کالم -