انتخابات کے بعد دانشمندی کی ضرورت!
8 فروری کے انتخابات کے بعد سے جو کچھ ہو رہا ہے،غیر یقینی بڑھتی ہی جارہی ہے۔عمومی طورپر دیکھا گیا ہے کہ عام انتخابات کے بعد لوگوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ نئی حکومت بہتر کارکردگی دکھائے گی، عوام کے مسائل حل ہونے کی امید پید ا ہوگی ، ملک میں امن و امان کی صورتحال، سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات بہتر ہوں گے لیکن بدقسمتی سے معاشرے کے تمام طاقتور حلقوں افواج پاکستان،سیاستدان،بیوروکریٹس اور عدلیہ نے عوام کو نہ صر ف مایوس کیا ہے بلکہ اپنی انا کی گرداب میں پھنسے ہوئے بہتے ہی جا رہے ہیں، لگتا ہے کہ ان ذمہ داران کو پاکستان کے عوام اور ان کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں،یہ اپنے اپنے جماعتی بتوں کی پرستش میں اتنے مگن ہو چکے ہیں کہ ملکی سالمیت،بقا اور سماج کو بہتر بنانے کی کسی کوشش میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر اور سر جوڑ کر کچھ تدابیر اختیار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، ہر چھوٹا بڑا سیاستدان جس نے بھی موجودہ انتخابات میں اقتدار کو اپنی لونڈی بنانے کے لیے تگ و دو کی ہے، وہ اپنا اپنا موقف پیش کرکے جیت کے دعوے کررہا ہے۔مجھے طویل گفتگو نہیں کرنی، میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ انتخابات سے پہلے پاکستان کے سیاسی ماحول میں سیاستدانوں نے جو غلاظت بکھیری ہے وہ انتخابات کے بعد بھی اسی طرح بدبودار ہے۔
میں پریشان ہوں کہ ملک کو نابلد اور عاقبت نااندیش ہاتھوں میں گروی رکھ دیا گیا ہے،جو صرف اپنے گرد اور اپنی ذات کے سواکچھ نہیں دیکھ سکتے۔ تفصیلات میں جانے سے پہلے میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انتخابات سے پہلے ہر طرف پرنٹ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے بے بنیاد الزامات کا سہارا لے کر الیکشن کمیشن اور عدالت پر بد اعتمادی کا کھلے عام اظہار کیا جاتا رہا اور ابہام پیدا کیا جاتا رہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد کے منظر نامے کی طرح یہ انتخابات بھی نہیں ہوں گے اورنگران حکومت کے ذریعے ہی مقتدر حلقے اقتدار پر قابض رہیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے 8فروری کو انتخابات ہوئے لیکن جس طرح چند سیاستدانوں نے ہر قسم کے میڈیا کے اندر یہ راگ الاپنے شروع کر دیے تھے کہ انتخابات صرف لاڈلے کے لیے کروائے جا رہے ہیں،تاکہ اقتدار کی باگ ڈور اس کے ہاتھوں میں دی جائے۔ لیکن یہ سارے قیافے غلط ہوئے۔ اعلان کردہ تاریخ پر متعدد رکاوٹوں کے باوجود الیکشن بھی منعقد ہوگئے اور انتخابات کروانے میں الیکشن کمیشن بھی سرخرو ہوا تو کچھ عاقبت نا اندیش سیاستدانوں نے دھاندلی کے الزامات کے تحت پرامن فضا کو تلخ بنا کر پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔
میں ان چیزوں پر کچھ نہیں کہنا چاہتا جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے اور بہت سے عجیب و غریب نئے سیاستدان یہ کہتے بھی سنائی دیے ہیں کہ دھاندلی کا منصوبہ کامیاب ہو گیا ہے، اور ملک کی سب سے بڑی جماعت کو اقتدار سے روکنے کے لیے یہ بساط بچھائی گئی تھی اور بہت سے لوگوں کے ساتھ انتخابات سے قبل اقتدار کی ہوس میں جو وعدے کیے گئے تھے، وہ نامکمل ہونے پر، سڑکوں اور میدانوں میں جنگ لڑنے کا آغاز کر رہے ہیں، جس پر ان کو بھی نقصان ہوگا، انہیں عوام کے مسائل سے لا تعلق رکھا گیا ہے، حیرت تو یہ بھی ہے کہ ملک کو اقتصادی بدحالی سے نکالنے کے لیے کوشش کرنے کے بجائے انتشار کی فضا پیدا کی جا رہی ہے، تف ہے ان سیاست دانوں پر جو اپنی ذات کے دائرے کی قید سے نکلنے کی کوشش کرنے کی بجائے ہٹ دھرمی اور انا پرستی کے جال میں پھنس چکے ہیں۔
میں عدلیہ کے حوالے سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ الیکشن سے چند دن پہلے ایک سیاسی پارٹی کے رہنما کے خلاف لگاتار عدالتی فیصلوں نے بھی عوام میں شکوک و شبہات کو پیدا کیا۔لا ابالی اور مجوزہ آئینی قانونی تقاضے پورے کئے بغیر عدالتی فیصلوں کے اثرات یہ ہوئے کہ اس غلط کار آدمی کو سزا کی بجائے، اس سے ہمدردیوں کا طوفان آیا۔ الیکشن میں جس طرح اسے ووٹ ملا،وہ عدالتی فیصلوں کی نفی ثابت ہوتا ہے۔ میں نے اپنی عمر کے اس آخری حصے اور اپنی کارکنانہ سیاسی زندگی میں کبھی نہیں سنا کہ ٹی وی چینل پر بیٹھ کر ایک مدبرسیاستدان چیف سابق آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے بارے میں گوہرافشانی کرے، حیرت کی بات ہے کہ افواج پاکستان کی ذمہ داری دفاع وطن اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہے وہ اپنے دور کی حکومت کی اکھاڑ پچھاڑ کرتے رہے، اسی طرح عدلیہ کے بارے میں جو تاثر میں دیکھ رہا ہوں وہ عوام کے اندر اسی طرح کا ہے اور افواج پاکستان اور اداروں کے بارے میں جو باتیں میڈیا پر چل رہی ہیں، وہ بھی عوام کے دلوں پر کوئی اچھے اثرات نہیں چھوڑ رہی ہیں، اس کے بعد سیاستدانوں کے بارے میں جو عوامی ماحول بنا ہوا ہے کہ اقتدار کی بندر بانٹ میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو باعث شرمندگی ہے۔
ان حالات میں آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے جتنی بھی مشکلات ہیں سر جوڑ کر بیٹھنے سے سیاسی نفرتوں کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کرنے کی بجائے پاکستان کے چند بڑے بڑے مسائل یکسوئی سے حل کرنے کا طریقہ سوچا جائے،نہ کہ اقتدار کی دوڑ میں ایک دوسرے کو دھکے دے کر اقتدار کی کرسی پر قابض ہوا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انتخاب کے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے جہاں جس پارٹی کی اکثریت ہے اسے حکومت بنانے کا موقع دیا جائے ورنہ حالات جس تیزی سے خراب ہورہے ہیں۔ اسی طرح رہیں گے اور شاید بہتری کی صورت نظر نہیں آئے گی،اس لئے اب مل جل کر دانشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، ورنہ حالات1977ء کی طرف بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ خدانخواستہ غیر جمہوری قوتوں کو موقع ملاتو پھر سالوں تک جمہوریت سے محرومی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔