تفہیم اقبال: پیامِ مشرق کی آخری نظم

تفہیم اقبال: پیامِ مشرق کی آخری نظم
تفہیم اقبال: پیامِ مشرق کی آخری نظم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اقبال کی اردو کی کلیات میں ساڑھے تین کتابیں شامل ہیں (بانگِ درا، بالِ جبرئیل، ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز) اور فارسی کلیات میں ساڑھے پانچ کتابیں ہیں (اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، پیامِ مشرق، زبورِ عجم، جاوید نامہ، پس چہ باید کرد اور ارمغانِ حجاز)…… ارمغان حجاز کا آدھا حصہ اردو میں ہے اور آدھا فارسی میں ہے۔ ان کے سیننِ اشاعت درجِ ذیل ہیں: (1) اسرارِ خودی 1915ء…… (2) رموزِ بے خودی 1919ء…… (3) پیامِ مشرق 1923ء…… (4) بانگِ درا 1924ء…… (5) زبورِ عجم 1927ء…… (6) جاوید نامہ 1932ء ……(7) بالِ جبرئیل 1935ء…… (8) پس چہ باید کرد 1936ء…… (9) ضربِ کلیم 1936ء…… (10) ارمغانِ حجاز 1938ء
ان کے علاوہ اقبال نے تین کتابیں نثر میں بھی لکھیں۔

سب سے پہلی کتاب کا عنوان علم الاقتصاد ہے جو 1903ء میں شائع ہوئی۔ دوسری کا نام تاریخِ ہند ہے جو سکولوں کے لئے بطور نصابی کتاب تحریر کی گئی اور تیسری نثری تصنیف انگریزی میں ہے جس کا نام ہے: ”ری کنسٹرکشن آف ریلجس تھاٹ اِن اسلام“ جو چھ تقاریر (Lectures) کا مجموعہ ہے اور وہ 1928ء میں اشاعت پذیر ہوئی۔ حضرتِ علامہ نے تین اور کتابیں بھی (برائے اشاعت) سوچ رکھی تھیں اور وہ تینوں نثر میں تھیں۔ لیکن بوجوہ وہ کتب چھپ نہ سکیں۔ ان کے عنوانات درجِ ذیل ہیں:


1۔ دورِ حاضر کے فلسفہء قانون پر اسلامی فقہ کی فوقیت
2۔اسلام: میری نظر میں
3۔پٹھانکوٹ میں ایک اقامتی درسگاہ کے خد و خال


درجِ بالا سطور کے تین نکات قابلِ غور ہیں۔ پہلا یہ کہ علامہ نے سب سے پہلے جو کتاب لکھی وہ نہ صرف یہ کہ نثر میں تھی بلکہ اکنامکس پر تھی۔ وہ احباب جو اقبال کو محض ایک روائتی شاعر سمجھتے ہیں وہ شائد حیران ہوں گے کہ ان کی پہلی ترجیح اکانومی تھی، شاعری نہیں …… دوسرا یہ کہ ان کو اکانومی کے بعد تاریخ سے دلچسپی تھی۔ اگرچہ انہوں نے سکولوں کے طلباء کے لئے یہ تاریخ مرتب کی تھی لیکن اس سے علامہ کی تاریخ سے خصوصی رغبت کا اظہار ہوتا ہے۔

اس لئے ان کے اردو اور فارسی کلام میں علمِ تاریخ سے یہ دلچسپی جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ اس موضوع پر مزید تفصیل کی گنجائش موجود ہے لیکن یہ موضوع اس کالم کے نفسِ مضمون سے ہٹ کر ہے۔ اور تیسرا پہلو ”ری کنسٹرشن آف ریلجس تھاٹ“ کے بارے میں ہے جس کے کئی ایڈیشن نکلے اور ان کے نصف درجن سے زیادہ اردو تراجم بھی شائع ہو چکے۔یہ کتاب نہ صرف زبان و بیان کے اعتبار سے ادق ہے بلکہ اس کی تفہیم میں ایک اوسط فہم و فراست کے قاری کے لئے چند در چند مشکلات ہیں۔ خود میں نے دو تین بار کوشش کی کہ اس کو کماحقہ سمجھ سکوں لیکن ناکامی کا سامنا ہوا۔انگریزی کی است و بود کا کچھ نہ کچھ علم مجھے ضرور ہے لیکن اسلامی فقہ اور فلسفیانہ موشگافیاں اس تصنیف میں اس گہرائی اور گیرائی کی ہیں کہ کوششِ بسیار کے باوجود سر کے اوپر سے گزر گئیں۔


اس مختصر تمہید کے بعد اب اس فارسی نظم کا ذکر کرتے ہیں جو ”پیام مشرق“ کی آخری نظم ہے اور جس کا عنوان ”خردہ“ ہے۔ خردہ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے بہت سے معانی ہیں مثلاً ٹکڑا، ریزگاری، جھڑن، عیب، باریکی، فروخت وغیرہ…… اس لفظ سے کئی فارسی مرکبات بھی اردو زبان میں عام مروج ہیں۔ مثلاً خردہ بینی، خردہ بیں، خردہ فروش،خردہ گیر اور خردہ گیری وغیرہ…… ان تمام مرکبات کے مفاہیم الگ الگ ہیں۔ اقبالؒ نے اس نظم میں ’خردہ‘کو جن معنوں میں استعمال کیا ہے وہ اس لفظ کا پہلا مفہوم ہے یعنی ٹکڑا، حصہ یا پارچہ۔


مجھے یہ شرف اور فخر حاصل ہے کہ میں نے کلیاتِ اقبال (اردو اور فارسی) کا باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے لیکن اقبال شناسی کا کوئی دعویٰ نہیں۔ اس کے لئے شعر و شاعری کی ابجد کا علم ہونے کے علاوہ قرآن حکیم، اسلامی فقہ، مشرق و مغرب کے معروف فلاسفروں کی سوانح اور ان کی تصانیف کا خلاصہ، تاریخِ عالم، فارسی شعراء اور ایران کی قدیم و جدید تاریخ اور سب سے بڑھ کر شعر فہمی کا وہ ذوق ہے جو اردو، فارسی اور انگریزی زبانوں کے قارئین اور طلباء کی ایک کثیر تعداد کے نصیب میں نہیں ہوتا۔


بعض اقبال شناس جاوید نامہ کو اقبال کی سب سے عظیم تصنیف خیال کرتے ہیں لیکن میری نظر میں پیامِ مشرق علامہ کی وہ شعری تصنیف ہے جو بے بدل اور بے مثل ہے۔ اس کا ایک بسیط دیباچہ بھی ہے جو اردو میں ہے اور سات صفحات پر مشتمل ہے اور جس کا مطالعہ پیام مشرق سے استفادہ کرنے والے حضرات کے لئے پیشگی شرط ہے۔ پیامِ مشرق کے مضامین و مطالب رنگارنگ اور کثیر الجہات ہیں جن میں رباعیات، غزلیات اور منظومات شامل ہیں اور پیامِ مشرق کے آخری چار پانچ صفحات میں متفرق موضوعات پر حضرت علامہ نے جو شاعرانہ تبصرہ اور نقد و نظر کیا ہے وہ حیران کن بھی ہے اور قابلِ صد تحسین بھی کہ اس حصے میں بعض جگہ صرف ایک شعر میں معانی کا کوئی ایسی گہر پارہ ٹانک دیا ہے کہ عقلِ حیران ہوتی ہے۔


چند اشعار قابلِ توجہ ہیں:
کلک را نالہ از تہی مغزی است
قلمِ سرمہ را صریرے نیست


]ترجمہ: قلم چونکہ اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے اس لئے تہی مغزہے جبکہ سرمہ کی قلم سے نکلنے والی آواز، شور نہیں کرتی۔[
اس کی تشریح یہ ہے کہ قلم چونکہ سرکنڈے (کانے) کی بنی ہوتی ہے اور کانا اندر سے خالی ہوتا ہے اس لئے اس کو ’تہی مغز‘ کہا گیا ہے۔ کانے کے اندر بھیجا اور دماغ نہیں ہوتا اس لئے جب کاغذ پر قلم چلائی جاتی ہے تو آواز نکلتی ہے جسے صریرِ قلم کہتے ہیں۔ شعرا نے اس آواز (صریرِخامہ)کو فریاد اور شور سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ چونکہ قلم خالی از دماغ ہوتا ہے اس لئے زیادہ شور کرتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں جس سلائی سے آنکھوں میں سرمہ لگاتے ہیں اور جس کو قلمِ سرمہ کہاجاتا ہے، وہ چونکہ اندر سے خالی نہیں ہوتی اس لئے جب آنکھ میں پھرتی ہے تو کوئی شور، کوئی فریاد، کوئی آواز نہیں آتی بلکہ سکون و آرائش کا احساس ہوتا ہے۔


…………………………
چشم را بینائی افزائد سہ چیز
سبزہ و آبِ روان و روئے خوش
]ترجمہ: تین چیزیں جو بینائی کو تیز کرتی ہیں وہ سبزہ، بہتا پانی اور خوبصورت چہرہ ہے[
اس مقولے کا آخری حصہ یعنی ”روئے خوش“ قابلِ توجہ ہے…… شاعر نے حسین چہرے کو یہ کہہ کر خراجِ تحسین پیش کیا ہے کہ اس کے دیکھنے سے نظر (بینائی) تیز ہوتی ہے۔ غالب نے اسی مضمون کو ایک اور شکل میں بیان کیا ہے اور دیکھئے کیا خوب کیا ہے۔ کہتا ہے:
روئے نکو معالجہ ء عمرِ کوتاہ است
ایں نسخہ از بیاضِ مسیحا نوشتہ ایم
]ترجمہ: ہم نے یہ نسخہ حضرت عیسیٰ کے بیاض میں لکھا دیکھا ہے کہ حسین چہرے دیکھنے سے انسانی عمر میں اضافہ ہو جاتا ہے[…… مطلب یہ ہے کہ حسین لوگوں کو نظر بھر کر دیکھتے رہنا چاہیے!
………………………………
اے برادر من ترا از زندگی دادم نشاں
خواب را مرگِ سبک داں، مرگ را خوابِ گراں
]ترجمہ: اے برادر! میں تمہیں زندگی کا مفہوم بتاؤں؟…… وہ یہ ہے کہ خواب ایک چھوٹی موت ہے اور موت ایک بڑا خواب ہے[
انسان جب خواب میں ہوتا ہے تو یہ گویا ایک مختصر موت ہوتی ہے اور موت کیا ہے؟…… وہ ایک طویل تر خواب ہے!
…………………………
اے کہ گل چیدی منال از نیشِ خار
خار ہم می روید از بادِ بہار
]ترجمہ: تو جب پھول (گلاب کے پھول) چنتا ہے تو اس میں کانٹے بھی ہوتے ہیں۔ لیکن یہ یاد رکھ کہ پھول اور کانٹا دونوں موسمِ بہار کی پیداوار ہیں [
مطلب یہ ہے کہ زندگی میں مشکلیں اور آسانیاں، تکلیف اور آسائش ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔ انسان کو ان دونوں کو برداشت کرنا چاہیے۔
……………………………………
مزن وسمہ برریش و ابروئے خویش
جوانی ز دزدیدنِ سال نیست
]داڑھی اور مونچھوں پر مہندی نہ لگا کیونکہ جوانی ماہ و سال چوری کرنے کا نام نہیں [
جو لوگ داڑھی اور سر پر خضاب یا مہندی لگاتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایسا کرنے سے عمر نہیں چھپتی۔ مہندی اور خصاب وغیرہ لگا کر جوانی چرائی نہیں جا سکتی۔
……………………………………
ندارد کار با دوں ہمتاں عشق
تذرِ مردہ را شاہیں نہ گیرد
]ترجمہ: عشق کرنا کم ہمت لوگوں کا کام نہیں۔ مردہ تیتر کو شاہیں نہیں پکڑتا[
اقبالؒ نے عشق کو شاہیں سے تشبیہ دی ہے اور کہا ہے کہ جس طرح شاہیں کسی مردہ تیتر پر نہیں جھپٹتا، اسی طرح عشق بھی کم ہمت لوگوں کے بس کا روگ نہیں۔(دراصل دوں ہمت کا ایک ترجمہ ’کمینہ‘ اور ”ذلیل“ بھی ہے اور پنجابی میں اس کا بہترین ترجمہ ”شہدا“ ہے۔اقبال کے ذہن میں یہ شعر کہتے ہوئے یہ تراجم ضرور موجو د ہوں گے۔


………………………
نقدِ شاعر در خورِ بازار نیست
ناں بسیمِ نسترن نتواں خرید
]ترجمہ: کسی بھی شاعر کا کلام بازار میں نہیں بک سکتا۔ کلی کی چاندی سے نان نہیں خریدا جا سکتا[
شاعری گویا ایک جنسِ گراں مایہ ہے، اسے بازار میں کسی دکان سے نہیں خریدا جا سکتا۔ نسترن کا معنی سفید کلی ہے۔ اور چاندی بھی چونکہ سفید ہوتی ہے اس لئے اقبال کہتے ہیں کہ بازار میں اگر نسترن کا سا سفید چاندی کا سکہ لے کر روٹی (نان) خریدنے کی کوشش کی جائے گی تو ایسا کرنا ممکن نہیں ہو گا۔(باقی آئندہ)

مزید :

رائے -کالم -