پیر قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی قادری چشتی  حیات و خدمات! 

پیر قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی قادری چشتی  حیات و خدمات! 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

محمد زبیر قادری

رمضان کا مبارک مہینہ ہے، بریلی کی سرزمین ہے۔ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدددین وملت الشاہ احمد امام احمد رضاخان بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا فیضان چہار سو ہے۔ آپ کے مدرسہ جامعہ رضویہ مظہر اسلام کے شیخ الحدیث صدر مدرس کی قسمت یاوری کرتی ہے کہ خواب میں نبی کریم رؤف ورحیم ﷺ کی زیارت سے فیض یاب ہوتے ہیں، آقاکریم ﷺ خواب میں بیٹے کی ولادت کی خوشخبری سے مشرف فرماتے ہیں اور حکم فرماتے ہیں کہ بیٹے کا نام میرے نام پر رکھنا ہے۔ حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا محمدسردار احمد رحمۃ اللہ علیہ صبح طلباء کو جمع فرما کر محفل میلاد پاک منعقد کرتے ہیں اور شیر ینی تقسیم فرماتے ہیں شام کو بذریعہ ڈاک اطلاع ملتی ہے کہ 9رمضان المبارک 1361ہجری بمطابق 19ستمبر 1942ء کو بشارت رسول کریم ﷺپوری ہوئی اور اللہ کریم نے فرزند ارجمند عطا فرمایا ہے۔ 
عشق رسول ﷺ سے سرشار اور قال قال رسول اللہ ﷺ کا ہمہ وقت درس دینے والے حضور محدث اعظم پاکستان کی کتنی خوش نصیبی کہ سرکار دوعالم ﷺ خواب میں اپنی زیات سے سرفراز بھی کرتے ہیں اور بیٹے کی ولادت کی خوش خبری بھی دیتے ہیں۔ چنانچہ آقاکریم ﷺکے ارشاد کے مطابق نومولود کا نام ”محمد“ اور بلانے کیلئے فضل رسول تجویز ہوتاہے۔ 
مروجہ اسلامی طریقہ کے مطابق چار سال چارماہ چار دن کی عمر میں رسم بسم اللہ ادا ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت آپ اپنے والد گرامی کے ساتھ ہجرت کرتے ہیں اور ساروکی (گوجرانوالہ) میں قیام پذیر ہوتے ہیں۔ اور پھر حضور مفتی اعظم ہند شہزادہئ اعلیٰ حضرت، حضرت مولانا مصطفےٰ رضا خان رحمۃ اللہ علیہ جب حضور محدث اعظم کو بذریعہ خط ”لائلپور“ (فیصل آباد) کا اشارہ فرماتے ہیں تو پورا خاندان ساروکی سے ہجرت کرکے لائلپور قیام پذیر ہو جاتا ہے۔ شیخ طریقت حضرت صاحبزادہ قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی نے سکول کی ابتدائی تعلیم پاکستان ماڈل ہائی سکول لائلپور سے حاصل کی آپ کے ایک استاد اس آگاہی کے بعد کہ آپ حضور محدث اعظم پاکستان کے خلف الرشید ہیں انہوں نے گاہے بگاہے آپ سے دینی معاملات پر بحث شروع کردی۔ پہلے تو آپ استاد کے ادب کے اعتبار سے خاموش رہے مگر جب ان حضرت کی ریشہ دوانیاں حد سے بڑھیں تو حضور محدث اعظم پاکستان کے حکم اور اجازت سے آپ نے ان کے اعتراضات کا مدلل اور مثبت انداز میں جواب دیکر انکو خاموش رہنے پر مجبور کردیا۔ 
ناظرہ قرآن پاک کی تعلیم آپ نے استاذ القراء قاری علی احمد روہتکی علیہ الرحمۃ سے جامعہ رضویہ مظہر اسلام لائلپور میں حاصل کی اور وہیں ابتدائی کتب علامہ مولانا سید منصور حسین شاہ صاحب فاضل بریلی شریف مولانا حافظ احسان الحق صاحب، مولانا حاجی محمد حنیف صاحب اور مولانا مفتی محمدنواب الدین صاحب سے پڑھیں، اس کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کیلئے حضرت محدث اعظم پاکستان کے ارشاد پر لاہور تشریف لے گئے اور معقول و منقول کی دیگر کتب شارح بخاری شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی رحمۃاللہ علیہ سے جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں پڑھیں، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور کی داغ بیل پیر صاحب قبلہ کے بہنوئی حضرت محدث اعظم پاکستان کے بڑے داماد علامہ غلام رسول رضوی نے جانشین محدث اعظم پاکستان حضرت پیر قاضی فضل رسول حیدر رضوی رحمۃ اللہ علیہ کے حکم پر ہی رکھی تھی، اور بعد میں جب علامہ غلام رسول رضوی کی بطور شیخ الحدیث جامعہ رضویہ مظہر اسلام لائلپور کے لئے خدمات درکارتھیں تو قبلہ پیر صاحب کے ارشاد پر ہی علامہ غلام رسول رضوی نے جامعہ نظامیہ رضویہ کو خیر باد کہہ کر اس کا انتظام وانصرام علامہ مولانا مفتی عبدالقیوم ہزاروی کے سپرد کر کے بطور شیخ الحدیث جامعہ رضویہ مظہراسلام لائلپور میں خدمات سرانجام دیں۔ 
قبلہ پیر صاحب کے جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں حصول تعلیم کے آخری دن ہوتے ہیں اور حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ رحمۃ الرحمن کی طبیعت انتھک محنت شاقہ کے سبب ناساز رہنے لگتی ہے تو حضور محدث اعظم پاکستان اپنی کچھ ذمہ داریاں آپ کے سپرد کرنے کیلئے حکم فرماتے ہیں کہ آپ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور سے واپس لائلپور رتشریف لے آئیں، حضور محدث اعظم پاکستان قبلہ پیر صاحب کو سنی رضوی جامع مسجد جھنگ بازار فیصل آباد کا متولی مقر ر فرماتے ہیں اور جامعہ رضویہ مظہر اسلام کے انتظام وانصرام کیلئے جمعیت رضویہ کے نام سے ایک انجمن کا قیام فرماتے ہیں اور اتفاق رائے سے حضرت صاحبزادہ قاضی فضل رسول حیدر رضوی جمعیت رضویہ کے پہلے صدر و مہتمم منتخب ہوتے ہیں۔ 
1381ہجری 1961ء میں عرس اعلیٰ حضرت کے موقعہ پر آپ کو حضرت محدث اعظم پاکستان نے پاکستان بھرسے تشریف لائے جید علماء و مشائخ کی موجوگی میں جمیع سلاسل طریقت کی خلافت عطا فرمائی اور دستار ِ سجادگی سے سرفراز فرمایا اور آپ کو سجادہ نشین مقرر فرمایا۔ 1961ء ہی میں جامعہ رضویہ مظہر اسلام کے منعقدہ سالانہ جلسہ دستار فضیلت کے موقعہ پر آپ کو دستار فضیلت عطا کی گئی اور جملہ علوم وفنون کی روایت کی سند عطاء ہوئی۔ 
حضور محدث اعظم پاکستان علیہ ر حمۃ الرحمن نے اپنی زندگی ہی میں دستارِ سجاد گی سے قبلہ پیر صاحب کو سرفراز فرماکر اور سلاسل طریقت کی اجازت سے مشرف فرما کر اور جامعہ رضویہ مظہر اسلام و سنی رضوی جامع مسجد کے انتظام وانصرام کی ذمہ داریاں سونپ کر نوجوانی میں آپ کو میدان عمل میں اتارا اور آپ نے بعض نا مساعد حالات اور بعض لوگوں کے ناپسندیدہ اعمال کے باوجود سینہ سپر ہو کر ان ذمہ داریوں کو اس احسن طریقے سے نبھایا کہ اپنے تو معترف ہوئے ہی جو غیر تھے یا بن گئے تھے ان کو بھی جلد یا بدیر آپ کی معاملہ فہمی،فراست،متانت،ذہانت اور دلیری کا قائل ہونا پڑا،اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آفتاب علم وحکمت حضرت محدث اعظم پاکستان نے آپ کو اپنی زندگی میں آپ کی صغیرسنی کے باوجود اہل سمجھا اور پایا اور حضور محدث اعظم پاکستان کے اس عمل نے بہت سے آنے والے فتنوں اور ریشہ دوانیوں کا قلع قمع کر دیا۔ 
تاریخ گواہ ہے کہ جامعہ رضویہ مظہر اسلام حضور قبلہ پیر صاحب کی سربرا ہی میں اسی اوج ثریا پر فائز رہا جو حضور محدث اعظم پاکستان کے دور میں تھا۔ حضو رمحدث اعظم کا مشن تھا کہ امت کی تربیت واصلاح کیلئے علماء کی کثیر تعداد تیار کی جائے اور دنیا کے کونے کونے میں عشق رسول ﷺ کی شمع فروزاں کی جائے، قبلہ پیر صاحب نے بھی جامعہ رضویہ کو انہی خطوط پر استوار رکھا آپ نے جس خوبی اور جانفشانی سے اس ذمہ داری کونبھایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ حضرت محدث اعظم پاکستان کی پرکشش شخصیت اور آپ کے صاحب علم وفضل ہونے کی بدولت قیام پاکستان کے بعد چند سالوں ہی میں جامعہ رضویہ مظہر اسلام دنیائے سنیت کے مدارس میں ایک ممتاز و منفرد حیثیت اختیار کر گیا اور حضور قبلہ پیر صاحب کے دور میں بھی یہ انفراد یت اور امتیاز برقرار رہا۔ 1982ء میں آپ نے تمام تر توجہ عظیم الشان اور پر شکوہ سنی رضوی جامع مسجد اور آستانہ عالیہ محدث اعظم پاکستان کی تعمیر، احباب اہل سنت سے ملاقات اور دعوت وار شاد پر مرکوز کرنے کی غرض سے جامعہ رضویہ مظہر اسلام کا انتظام واہتمام اپنے برادران صغیر قبلہ غازی محمد فضل احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ اور جناب حاجی محمد فضل کریم رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد کردیا۔ 

دنیائے سنیت کو جب کبھی ضرورت محسوس ہوئی قبلہ قاضی محمد فضل رسول حید ر رضوی رحمۃاللہ علیہ نے دامے،درمے سخنے اس کی آبیاری کی۔  سنیت کادرد آپ کو اپنے والد گرامی سے ورثے میں ملا جس طرح حضور محدث اعظم پاکستان رحمۃ اللہ علیہ نے ہر ممکن طور اہل سنت کو زمانے کی افتاد اور چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنے کی سعی کی اور عشق رسول ﷺ کا درس دیکر اہل سنت کو تعلیم دی کہ یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس سے سنیت گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکل کر روشن منور صبح کی جانب گامزن ہوسکتی ہے۔ اسی طرح قبلہ پیر صاحب نے دنیائے سنیت کی بہتری کیلئے انتھک کوششیں کیں۔ جب سنی مدارس کی نمائندہ تنظیم قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو قبلہ پیر صاحب نے غزالی زماں علامہ سید احمدسعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ ابوالبرکات سید احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ علامہ مولانا مفتی محمد حسین نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ و دیگر اکابرین کے ساتھ مل کرتنظیم المدارس کی تشکیل کی، اس کا نصاب مرتب فرمانے میں مشاورت کی اور اس کو منظم کرنے کے لئے اپنی بہترین صلاحیتو ں کا مظاہرہ کیا، سنی طلباء کی نمائندہ تنظیم ”انجمن طلباء اسلام“ کے قیام میں بھی آپ نے بھرپور تعاون فرمایا او ربقول حاجی محمد حنیف طیب صاحب جب ”انجمن طلباء اسلام“ کے قیام کے مراحل درپیش تھے تو سب سے پہلے حضو ر قبلہ پیر صاحب سے مشاورت کی گئی۔ 1974؁ء میں چلنے والی تحریک ختم نبوت میں آپ نے تحریک کے بانی کی حیثیت سے کام کیا۔ اور تما م فرقوں اور دینی جماعتوں پر مشتمل مجلس عمل میں بطور ممبر فعال قائدانہ کردار اد ا کیا، اور اس فتنہ کی سرکوبی اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کے لئے پارلیمنٹ پر بھر پور انداز میں دباؤ ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا اور ہمیشہ کے لئے مرزائی قادیانی فتنہ کا قلع قمع کروایا۔ 
 میدان سیاست میں بھی آپ نے مجاہد انہ کردار ادا کیا 1968ء؁ میں ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک میں آپ نے صف اول کے رہنما کے طور پر حصہ لیا، متحدہ پاکستان کے وقت آپ جمعیت علماء مغربی پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہے۔ 
علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی اور علامہ مولانا عبدالستار خان نیازی کو بطور قائدین جمعیت علماء پاکستان کے نام تجویز کرنے اور منتخب کروانے میں آپ پیش پیش رہے 1977ء؁ میں تحریک نظام مصطفےٰ میں آپ نے بھرپور انداز میں مجاہد انہ کردارادا کیا،آپکے برادراصغر صاحبزادہ حاجی محمدفضل کریم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی سیاست کے میدان کارزارمیں قبلہ پیر صاحب کے حکم پر تحریک نظام مصطفےٰ میں قدم رکھا۔ 
قبلہ پیر صاحب تحریک نظام مصطفےٰ کے دوران نکلنے والے جلوسوں اور جلسوں میں بھر پور قائدانہ کردارادا کرتے رہے اور اسی دوران غلام محمد آباد قبرستان کے باہر ہونے والے وحشیانہ حکومتی تشدد کے نتیجہ میں آپ شدید زخمی بھی ہوئے۔ آپ کے سرکے پچھلے حصے اور گردن پر شدید چوٹیں آئیں مگر پایہء استقلال میں لغزش نہ آئی۔ 
سنی رضوی جامع مسجد اور آستانہ عالیہ محدث اعظم پاکستان کی پُر شکوہ خوبصورت اور شاندار عمارات کی تعمیر آپ کا سنہری کارنامہ ہے، پاکستان بھر میں مساجد و مدارس کی تعمیر کی ترغیب اور خصوصاً فیصل آباد شہر میں سینکڑوں مساجد کی سرپرستی بھی آپ کے حصہ میں آئی، عظیم الشان سنی رضوی جامع مسجد تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے، اس مسجد کا سنگ بنیاد حضور محدث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے 12ربیع الاول شریف1374ھ بمطابق 8نومبر 1954ء ؁ کو رکھا، آج یہ مسجد اس کے بلند پر شکوہ مینار دیکھنے والوں کو ایک عظیم منظر پیش کرتے ہیں، آستانہ عالیہ محدث اعظم پاکستان کی تمام ترتعمیر کے اخراجات قبلہ پیر صاحب نے اپنی گرہ سے ادا کئے ہیں اور مسجد کا ایک روپیہ بھی آستانہ عالیہ پر خرچ نہیں ہوا۔ یہودیوں کی نیو جرسی میں موجود عبادت گاہ (سناگاہ Synagogue)کو خرید کر سنی رضوی جامع مسجد میں تبدیل کرنا بھی قبلہ پیر صاحب کا ایک سنہری کارنامہ ہے۔ یہ ایک غیر فعال لیکن تاریخی بلڈنگ تھی اور یہودی اسے کسی اور مذہبی عبادت گاہ کے طورپر نہیں دیکھنا چاہتے تھے لیکن قبلہ پیر صاحب کی فراست بھی یہاں کام آئی اور ایسی تدبیر ہوئی کہ آج اس تاریخی عمارت میں سنی رضوی جامع مسجد قائم ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں کئی اور مساجداور مدارس کی سرپرستی بھی آپ فرماتے رہے۔ 
سماجی بہبود کے کاموں میں قبلہ پیر طریقت صاحبزادہ قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی رحمۃاللہ علیہ کی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ دینی امور کے علاوہ فلاحی کاموں اور سماجی بھلائی کے کاموں پر آپ خصوصی توجہ فرماتے رہے۔ اس مقصد کیلئے آپ نے ایک ٹرسٹ ”محدث اعظم فاؤنڈیشن“ کے نام سے رجسٹرڈ کروایا اور تاوقت وصال آپ اس کے مینجنگ ٹرسٹی رہے، اس ٹرسٹ کا بنیادی مقصد فلاحی کاموں پر بھرپور توجہ دینا ہے۔ اس ٹرسٹ کے تحت محدث اعظم میڈیکل کمپلیکس قائم ہے جس میں فری ڈسپنری‘ ایکسرے کلینیکل لیبارٹری‘ الٹراساؤنڈ، ای سی جی کے شعبہ جات کام کررہے ہیں اور عوام کو طبی سہولیات بہم پہنچا رہے ہیں اس کمپلیکس سے اب تک تین لاکھ سے زاید مریض استفادہ کرچکے ہیں، اس کے علاوہ محدث اعظم پبلک سکولز بھی کام کر رہے ہیں جس میں طلباء و طالبات دینی ماحول میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ 
 قبلہ پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ اس بات پر مصررہے کہ مروجہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ مدارس اہل سنت دنیاوی تعلیم کا بھی اہتمام کریں تاکہ طلباء جدید دور کے تقاضوں کے پیش نظر معاشرہ میں فعال کردار ادا کرسکیں اس طرح تنظیم المدارس کے نصاب کے متعلق بھی آپ اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے کہ فنون کی بعض کتب اور فارسی زبان کی کتب کو خاص طور پر درس نظامی کے نصاب سے یکسر کیوں نکال دیا گیا۔
عظیم الشان پرشکوہ اسلامک یونیورسٹی ”جامعہ محدث اعظم“ جو رضا نگر میں چنیوٹ کے قریب تعمیر کی گئی ہے وہ قبلہ پیر صاحب کاایک سنہرا اور غیر معمولی کارنامہ ہے۔ یہ آپ کی ایک ایسی مساعی جمیلہ ہے جو اہل سنت وجماعت پر ایک بہت بڑااحسان ہے۔ اسلامک یونیورسٹی جامعہ محدث میں محدث اعظم سکینڈری سکول اور محدث اعظم ڈگری کالج میں درس وتدریس شروع ہے۔ جدید سائنسی تجربہ گاہیں (لیبارٹریز) لائبریری اور کمپیوٹر سیکشن سے مزین ان درسگاہوں میں طلباء دینی تعلیم کے ساتھ ہی دنیاوی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔ یونیورسٹی بہت بڑے رقبہ پر قائم ہے اور کھیل کے میدانوں، دفاتر، اساتذہ کی رہائش گاہوں اور داخلی گیٹ پر تعمیر شدہ ایک خوبصورت مسجد سے مزین ہیں، یہ اسلامک یونیورسٹی جامعہ محدث اور محمدی رضوی جامع مسجد، مخدوم امم حضور داتاگنج بخش علی ہجویر ی رضی اللہ عنہ کے ارشاد پر قائم کی گئی ہیں۔ جس کا حکم حضور داتا صاحب رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک خط کے ذریعے ہوا۔ قبلہ پیر صاحب کے حکم پر”تحریک اہل سنت پاکستان“ کے نام سے ایک سیاسی جماعت کاقیام بھی عمل میں لایا گیا۔ جوکہ باقاعدہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ ہے اور سجادہ نشین آستانہ عالیہ محدث اعظم پاکستان صاحبزادہ پیر فیض رسول رضوی اس کے چیئر مین ہیں۔ 
 پیر قاضی محمد فیض رسول رضوی دامت برکاتہم پر اپنے بزرگوں کی خاص نگاہ کرم ہے کہ آپ شبانہ روز اہل سنت و جماعت کی اصلاح و ترقی کیلئے کوشاں ہیں، دینی محاذ پر آپ سنی رضوی جامع مسجد میں قائم دینی درسگاہ اور اسلامک یونیورسٹی جامعہ محدث اعظم کے سربراہ کی حیثیت سے فعال کردار ادا کر رہے ہیں، آستانہ عالیہ محدث اعظم پاکستان کے سجادہ نشین کی حیثیت سے آپ مریدین ومتوسلین کی ہمہ وقت تربیت کے لئے کوشاں ہیں، اس سلسلہ میں آپ آستانہ عالیہ پر اور دیگر شہروں کے دوروں میں دعوت و ارشاد کے فرائض سرانجام دیتے ہیں، ڈویژنل اور ضلعی امن کمیٹی کے ممبر کے طور پر فعال کردار ادا کررہے ہیں، بین المسالک رواداری کونسل پاکستان کے سربراہ کی حیثیت ہے آپ وطن عزیز کے امن اور استحکام کیلئے توانا ئیاں صرف کررہے ہیں، سیاسی میدان میں تحریک اہل سنت پاکستان کے سربراہ کی حیثیت سے آپ کا مجاہدانہ کردار اظہرمن الشمس ہے، غرضیکہ آپ کے اعمال وافعال پر آپ کے والد گرامی حضور پیر قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی گہری چھاپ ہے۔ 
پیر طریقت رہبر شریعت حضور قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کی تمام تر زندگی جدوجہد مسلسل کا نمونہ تھی، آپ کی شخصی وجاہت ایسی تھی کہ دیکھنے والا دیکھتا ہی رہے، اپنے والد گرامی کی طرح آپ نے بھی حب رسول ﷺ کی مسندبچھائی آپ کی ہر نشست اہل سنت و جماعت کی ترقی اور عروج کی راہ تلاش کرنے میں گذرتی، آپ کے ہاں الجھنوں کا حل بھی ملتا اور نارسائیوں کی تحلیل بھی ہوتی، آنے والا آتا اور گرویدہ ہو کر جاتا، دیکھنے والا دیکھتا تو دل کے دریچے کھلتے چلے جاتے۔ 
قبلہ پیر طریقت رحمۃ اللہ علیہ کافی عرصہ صاحب فرا ش رہے۔ علالت طبع کی وجہ سے عام نشستوں کا اہتمام بھی نہ رہا۔ لیکن احباب شاہد ہیں کہ شدید علالت اور کمزوری کے باوجود دنیائے سنیت کے اتحاد وعروج کے لیے تادم آخر سرگرم رہے۔ ہر اہم شخصیت سے دینی معاملات پر ملاقات بھی کی اور دیگر مواصلاتی ذرائع سے رابطے میں بھی رہے۔ 
صفر المظفر میں عرس اعلیٰ حضرت اور رجب المرجب میں عرس امام اعظم و محدث اعظم کی آخری نشستوں کے بعد عوام الناس کو شرفِ ملاقات بھی بخشتے رہے۔ دنیائے سنیت کا یہ ماہتاب 29ربیع الثانی 1442؁ء بمطابق 14نومبر 2020؁ء کو رات نو بجکر چالیس منٹ پر اہل سنت کو یتیم کر گیا۔ لاکھوں عشاقانِ محدث اعظم و جانشین محدث اعظم نے جنازہ میں شرکت کرکے اس خانوادہ سے اپنی لازوال محبت کا ثبوت دیا۔ 
ہر مسلک کی طرف سے آپ کے لئے تعزیتی ریفرنس اور اجلاس اس بات کے مظہر ہیں کہ قبلہ پیرصاحب ایک بے داغ سچی اور کھری شخصیت کے مالک تھے۔ 
آستانہ عالیہ پر وصال سے لیکر ان سطور کی تحریر تک کہ عرس چہلم میں صرف چار دن رہ گئے ہیں سینکڑوں جیدعلماء ومشائخ اہل سنت اور سیاسی سماجی مذہبی و کاروباری شخصیات کا تشریف لا کر تعزیت کا اظہار کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آپ لازوال کردار، بے مثال افکار اور بے نظیر گفتار کے مالک تھے اور ہر ایک آپ کے سچے کھرے طرزِ زندگی کا معترف تھا۔ 
آپ کی نشستیں اور مجالس و عظ و نصیحت سے بھرپور ہوتیں، متعدد مرتبہ زیارت حرمین شریفین زیارات شام اردن و عراق اور بر صغیر پاک وہند میں تمام مزارات پر حاضری سے مزین آپ کی شخصیت اللہ بزرگ وبرتر کی خاص عنایت نبی کریم رؤف ورحیم ﷺ کے خصوصی کرم، غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے خاص فیضان اور حضور محدث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی نگاہ کرم کے صدقے ہر میدان میں ممتاز و منفرد حیثیت کی حامل تھی۔ 
اور یہ شعر آپ پر ہی صادق آتا ہے جسے میرے والد گرامی حافظ محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ نے حضور محدث اعظم پاکستان پر مضمون لکھتے ہوئے آخر میں تحریر کیا تھا 
ہوا تھی گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا تھا 
 وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیئے تھے اندازخسروانہ

مزید :

ایڈیشن 2 -