بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 63
کوکہ نے گزارش کی کہ آگے تنگ ناؤ ایسی دشوار گزار ہیں کہ اس راہ پر چلنا اپنے تئیں بے آبرو کرنا ہے۔ مناسب یہی ہے کہ اسی منزل میں کہ کچھ فراخ ہے اور کوئی سرکوب نہیں ہے اور پانی گھاس بہت ہے۔ ایک دیوار بنا کر قیام کریں اور مخالف کو جو کہ سارے پہاڑے کو گھیرے ہوئے ہیں سزا دیں۔ اگر یہ بات تم کو دلنشین نہ ہو تو توقف کریں کہ بادشاہ کو اطلاع کریں اور ایک فوج اس طرف سے آکر گریوہ کے سرے کو نگاہ رکھے تب چلے جائیں مگر راجہ اور حکیم اپنے منصوبے پر جمے رہے اور وہ ملندری کی طرف روانہ ہوئے۔ پہلے روز سے بھی زیادہ سخت لڑائی ہوئی۔
لشکر کچھ تھوڑی دور چلا تھا کہ دن ختم ہوا۔ اس نے درہ کے سرے کو بزرگ گریوہ کی ابتدا جانا۔ وہ اتر پڑا کوکہ کے آنے سے معلوم ہوا کہ ابھی ایک اور تنگی سے گزرنا باقی ہے چونکہ پیچھے سے افغان چلے آئے تھے شاہی لشکر کی کوچ ناہنگام اور ہر اول کے آگے دوڑنے سے چلنے کا آئین بگڑ گیا۔ افغانوں نے ہرطرف سے تیر و پتھر ایسے پھینکے کہ وہ غالب ہوگئے ۔ سراسمیگی کے سبب سے پہاڑوں کی بلندی پر پستی کی طرف لشکر اترا۔ اس رواروی میں گھوڑے اور آدمی اور ہاتھی سب گڈ مڈ ہوگئے اور بہت سے مارے گئے۔ بڑے بڑے افسر مارے گئے کچھ راہ کو پہچان کر چلے اور آخر کو اس گریوہ دشوار سے گزر کر نیچے آئے۔ کوکہ کا ارادہ ہوا کہ اس لڑائی میں اپنی جان دیدیں مگر جانس بہادر اس کے آگے آیا اور کام و ناکام الٹا گیا۔ کچھ چل کر وہ بے راہ ہوا ۔ بصد دشواری منزل پر پہنچا لیکن لوگوں نے یہ خبر اڑائی کہ افغان پیچے سے چلے آئے۔ اس لئے نہایت بیتابی کے ساتھ کوچ بے ہنگام ہوا۔ آدمی تاریکی کے سبب راہوں سے بھٹک کر دروں میں چلے گئے اگرچہ افغان مال شاہی کے حصے کرکے بانٹنے میں مصروف تھے۔ دوسرے روز بہت سے آدمی جو راستہ بھول گئے تھے جان سے گئے کچھ ان میں سے قید ہوئے۔
بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 62 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
خانی خان اکبر کا مغل افسر لکھتا ہے کہ
’’چالیس پچاس ہزار آدمی مارے گئے اور لشکر میں ایک بھی زندہ نہیں بچا‘‘ یہ شکست سواد کے پہاڑوں میں ہوئی اور جن دروں میں واقع ہوئی ان کا نام کراکر اور ملندری لکھا ہے۔ بادشاہ کے روشناس بہت تلف ہوئے خصوصاً راجہ بیربل کے مرنے سے طرح طرح کے رنج بادشاہ کو ہوئے ۔ ایک رات دن کھانا نہیں کھایا۔ بادشاہ کو اس کے برابر کسی امیر کے مرنے کا غم نہ ہوا۔ وہ افسوس کرتا تھا کہ اس کا جسم نہ ہاتھ لگا کہ آگ میں جلایا جاتا مگر اپنے دل کو اس طرح تسلی دیتا تھا کہ وہ سب قیود سے آزاد اور مجرد تھا۔ اس کے لئے نیز اعظم(سورج) کی تابش پاک کرنے والی کافی ہے۔
بادشاہ قلعہ اٹک میں مقیم تھا۔ جب بادشاہ نے لشکر اور اپنے مخلصین کے مرنے ا ور شکست پانے کا حال سنا تو خود بادشاہ کا ارادہ اس ملک میں جانے کا ہوا لیکن اخلاص گزینوں کے کہنے سے اس یورش سے باز رہا۔
مرزا الغ بیگ کابلی کے زمانیس ے اولس یوسف زئی کی ایک لاکھ سے زیادہ تھے۔ کوہستان دشوار گزار کی آڑ میں ہمیشہ راہ زنی کرتے اور شاہی مسافروں کو طرح طرح کی گزند پہنچاتے ۔ کابلی کے مرزبانوں میں یہ قدرت نہ تھی کہ ان کی مالش کرتے۔ ہندوستان کے حکمرانوں کو بھی اپنے کاموں کی کثرت اور تنگ حوصلوں کی ہمزیانی نے اس طرف متوجہ نہ ہونے دیا۔ ان دنوں بادشاہ کا ارادہ ہوا کہ یہ قوم مردم آزادی اور تباہ کاری سے باز آئے اور فرمان پذیری اور خدمت گزاری اختیار کرے اور ملک سوادویحور وغیرہ ان بدکاروں سے پاک ہو جائے لیکن اولس یوسف زئی اپنے مضبوط دفاعی مقامات اور بادشاہی لشکر کی شکست کے سبب سے زیاہ سرکش ہوگئی۔ہر چند کہ اس کو سزا دی جانی تھی مگر وہ اپنی راہ زنی اور بدکاری سے باز نہیں آتی تھی۔ یوسف زئی کی مالش میں سپاہ شاہی پیہم کوشش کرتی تھی مگر یوں استواری سے غالب نہیں ہوئی تھی۔
۹۹۶ھ میں جلالہ روشنائی مغل سپاہ سے جب تنگہوا تو وہ تیراہ سے یوسف زئی کی بنگاہ میں چلا گیا اور انہوں نے اس کو اپنے ہاں جگہ دیدی۔
رونشائی افغان اور یوسف زئی مل کر آمادہ پیکار ہوئے۔ اولس گیلگانی اور محمد زئی بھی روشنائی افغانوں اور یوسف زئی کی ہمداستاں ہوئیں اور بگرام کے نزدیک محمد قلی نریمان کے پیچھے پڑیں تاکہ اس تمام ملک پر ان کو غلہ ہو جائے۔ کچھ عرصہ کے بعد جلالہ پھر تیراہ چلا گیا اور یہاں اپنا قائم مقام اپنے خویش وحدت علی کو چھوڑا۔ وحدت علی جلالہ کے خویش نے یوسف زئی کی مدد سے ۱۰۰۱ھ میں قلعہ نشان اور کچھ حصہ کافروں کی ولایت کا بھی فتح کر لیا تھا۔ شاہی فرمان صادر ہوا کہ اب وحدت علی کو پامال کرنا چاہئے۔ بادشاہی لشکر اچانک کافریوم میں شاہزادی راہ سے آئے اور موضع کندی کبار میں دریائے بجور(کنڑ) کاپل باندھ کر اترے۔ یہ دریا ستر گز چوڑا اور بہت گہرا اور تند تھا۔ خواجہ شمس الدین خانی کو اسپل کی پاسبانی اور راہ کی ایمنی سپرد کرکے لشکر آگے جا کر غنیم سے آٹھ کوس پر پہنچے۔ دس جگہ دشمنوں نے سنگ چین بنائے تھے اور وہاں سے لڑتے تھے۔ گو کہ چند آدمیوں کے ساتھ جا کر منزل گاہ کی تلاش میں لگا اور تختہ بیگ سعید خاں اور حیدر علی عرب ہر اوّل بنا کے آگے بھیجے کہ خفیہ طور پر کسی عمدہ جگہ بیٹھیں اور لڑائی نہ لڑیں یعنی اپنے آپ کو ظاہر نہ ہونے دیں لیکن ان کو دیکھ کر افغانوں نے ان کے سر پر ہجوم کیا۔ ناچار لڑنا پڑا۔ انہوں نے غنیم کو چار دفعہ پرے ہٹا دیا۔
گوکہ اپنے ہمرائیوں کے ساتھ جا ملا جن سے ہر اول کو تقویت ہوئی۔ سخت لڑائی اور نقصان عظیم کے بعد وحدت علی چند آدمیوں کے ساتھ بڑے نشیب میں گیا۔ دشمن شکست کھا کر پراگندہ ہوا اور قلعہ کنشان اور دیگر بہت آباد جگہیں بادشاہی لشکر کے ہاتھ آئیں۔ کچھ افغان چغان سرا کی طرف بدخشاں رویہ چلے گئے تاکہ دریائے بجور(کنڑ) سے گزر کر کافروں کی زمین میں جا کر پناہ لیں۔ بادشاہی لشکر نے تیز دستی کرکے اس طرف کاپل توڑ دیا۔ انگزیر یوسف زئی کے سرداروں حاتم بابا علی، ہندال اور حسین نے قاسم خاں(مغل افسر) سے پناہ مانگی۔ غنیم کے چار سو آدمی مارے گئے۔ بادشاہ کی طرف سے تیس آدمی مارے گئے۔ اور ڈیڑھ سو زخمی ہوئے لیکن قاسم خاں کے مرنے کے فوراً بعد پھر ان افغانوں نے سرتابی کی اور اٹک خیبر شاہرہا کو نا ایمن کیا۔‘‘ (اقبال نامہ اکبری جلد ۵)
مختصر یہ کہ اکبر کی تمام کوششیں افغانوں کو مطیع کرنے کے سلسلہ میں ناکام رہیں اور یہ سلسلہ تقریباً بیس سال تک جاری رہا۔ عہد اکبر کے متعلق میجر راورئی نے یوں اظہار خیال کیا ہے کہ :
’’قتل و خونریزی اور ملک کی تباہی و بربادی کے باوجود ان افغان قبائلی علاقہ میں مغل کسی وقت میں بھی مستقلاً اپنے پاؤں جما نہ سکے اور نہ ہی کسی وقت ان حقائق کو ضبط تحریر میں لانے کے قابل ہوئے اس وجہ سے ’’آئین اکبری‘‘ کی کوئی ایک جلد بھی مکمل نہیں کہلا سکتی۔‘‘
اسی طرح عہد اکبر سے قبل مغلوں کے متعلق مسٹرکیرو لکھتا ہے کہ:
’’پٹھانوں کے میدانی یا پہاڑی علاقوں پر بابر، کامران یا ہمایوں کے زمانہ میں کوئی مغل حکومت قائم نہ تھی۔ یہ حکمران زیادہ سے زیادہ مشکل ترین راستوں کی حفاظت کا انتظام کرتے رہے یا(افغان)قبائل کی حمایت اس وجہ سے حاصل کرنے کی کوشش کی کہ وہ ان کے خاندانی جھگڑوں میں کام آسکیں۔‘‘ یہ تو تھا شمال مغربی علاقہ کے افغانوں کے حالات۔(جاری ہے )
بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 64 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔