ستائیس رمضان ،آج یوم پاکستان ہے
جانِ کائنات حضور سیدِ عالمؐنے برصغیر پاک و ہند کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے صحابہء کرامؓ سے فرمایاتھاکہ ’’مجھے اس طرف سے ٹھنڈی ہواؤں کے جھاؤنکے آتے ہیں۔‘‘(مفہوم)اہل نظرِ بتاتے ہیں کہ سرکارِ مدینہؐنے قائداعظمؒ کو خواب میں زیارت سے نوازا اور حکم فرمایا کہ ’’اُٹھو!اور مسلمانوں کیلئے ایک الگ خطہ(پاکستان)بنانے کیلئے کام کرو۔‘‘
الحمدللہ !ریاستِ مدینہ شریف کے بعداسلامی جمہوریہ پاکستان دنیائے اسلام کاوہ واحد ملک ہے کہ جوانتہائی قدر والے نبیؐکی خواہش پر قدر والے ماہِ رمضان کی قدر والی رات یعنی شبِ قدرمیں ستائسویں شب کو ایک نظریہ کی بنیادپر وجود میں آیا۔لہذالازم ہے کہ اس بابرکت دن کی نسبت سے پاکستان کا یوم ولادت بھی سائیس رمضان المبارک کو منایا جائے۔ پاکستان مسلمانانِ ہند کی سال ہاسال کی قربانیوں،اولیائے کرام اور مشائخ عظام کی خصوصی دعاؤں،حضورِ اقدسؐکی نگاہِ خاص اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز اور بابصیرت قیادت ہی کا ثمر ہے۔انہوں نے گوروں کی خطرناک سازشوں اور مکار ہندوؤں کی ریشہ دوانیوں اور چلاکیوں کے باوجود مسلمان چند برس کی جدوجہد اور محنت کی بدولت دنیا کے نقشے پر ایک عظیم اسلامی مملکت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
برصغیر میں ایک آزاد مملکت کے قیام کا مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمان اسلامی قوانین اور اس کے روشن اصولوں کے مطابق اپنی زندگی کے شب وروز گزار سکیں۔یعنی جہاں اسلام کا بول بالا ہو،رواداری ہو،اسلامی قانون کی بالا دستی ہو،جہاں مساوات اور احساسات کے عناصر پیش نظر ہوں۔اور جہاں ایک ایسا خوبصورت معاشرہ تشکیل ہو سکے جو مسلمانوں کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کی ضمانت دے سکے۔مگر افسوس صد افسوس کہ اگرہم موجودہ حالات وواقعات ،رسم ورواج اورخطرات وخدشات کا پوری ایمانداری سے جائزہ لیں تو ہمیں یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ 70سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود۔۔۔جن مقاصدکے پیشِ نظر پاکستان بنایا گیا تھااُن مقاصد کو حاصل کرنے میں ‘ہم تاحال ناکام ہیں۔اور ناکام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ’’خواہشِ مصطفےٰؐ کی تکمیل‘‘کی قدر نہ کرپائے۔بانیء پاکستان قائداعظمؒ نے ارشاد فرمایا کہ
’’اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت وفرمانبردای اور وفاکا مرجع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس کی تعمیل کا واحد ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔اسلام میں اصولاََ نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ کسی پارلیمان کی،نہ کسی اور شخص کی یا ادارہ کی۔قرآن حکیم کے احکام ہی سیاست یا معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کے حدود متعین کرتے ہیں۔اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول اور احکام کی حکمرانی ہے اور حکمرانی کیلئے آپ کو ایک علیحدہ مملکت کی ضرورت ہے۔‘‘
آج کے دن قائداعظم ؒ کی قیادت میں ہمارے آباؤ اجدادکی بے شمار قربانیوں اور جدوجہد کی بدولت خواہشِ مصطفےٰؐکی تکمیل(ایک علیحدہ مملکت’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘قائم ہونے کی صورت میں) توہوگئی ۔۔۔مگربدقسمتی سے ہم نے قرآن و سنت اور اسلامی اقدار کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے مغربی تہذیب وتمدن اپنا کربطور مسلمان اپنے اصل مقاصدسے ہٹ گئے اور یہی ہماری ناکامی کی اصل وجہ ہے۔اور یہ ناکامی تب تک ہمارا مقدر رہے گی کہ جب تک ہم سب اپنا اپنا قبلہ درست نہیں کرلیتے اور قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی زندگی گزارنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
علامہ اقبالؒ نے اس حوالہ سے بڑے واضح طور پرارشاد فرمایا کہ ’’اگر آپ بحیثیت مسلمان زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو یہ قرآن پاک کے بغیر ممکن نہیں۔‘‘
اس حوالہ سے نہ صرف اربابِ اقتداراور بیوروکریٹس کو پوری دیانتداری اوراور ذمہ داری کیساتھ اپنے فرائض کو سرانجام دینا ہوگا‘بلکہ انتہائی معذرت کیساتھاربابِ علم ودانش اور پیرانِ عظام ومشائخ عظام اورعلمائے کرام کو بھی اپنے اپنے زیرِ اثر افراد کو فرقہ وارانہ تعصبات سے پاک کرتے ہوئے ایک بہترین انسان‘فرض شناس پاکستانی اور بہترین مسلمان بنانے کیلئے ان کی کردار سازی میں اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔