آئی ایس اوکا طلبہ سیاست میں کردار

 آئی ایس اوکا طلبہ سیاست میں کردار
 آئی ایس اوکا طلبہ سیاست میں کردار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 برصغیر میں طلبہ سیاست کے نقوش قیام پاکستان سے پہلے سے ملتے ہیں۔ تحریک پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی قیادت میں معروف صحافی حمید نظامی مرحوم اور پیپلزپارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل شیخ رفیق مرحوم کا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی تشکیل اور فعالیت میںکردار کلیدی رہا۔ حالات نے پلٹا کھایا تو قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان اور پیپلز پارٹی نے اپنے طلباءونگ قائم کئے ، جو ان کے سیاسی ایجنڈے کے لئے نرسری کا کردار ادا کرتے رہے ۔ بچپن اور جوانی میں کی گئی تربیت زندگی بھر ساتھ دیتی ہے ۔آج بھی اور ماضی قریب کے جن سیاستدانوں نے کسی بھی طلباءپلیٹ فارم سے سیاسی تربیت حاصل کی ، ان کی قومی سطح پر کارکردگی ،سوچ، گفتگو چودھراہٹ کے لئے سیاست شروع کرنے والے سیاستدانوں سے بہتر رہی ہے۔اس حوالے سے ہمارے دور کی واضح مثالیںرضا ربانی ، جہانگیر بدر، قاضی حسین احمد،لیاقت بلوچ ، سراج الحق ،جاوید ہاشمی، احسن اقبال اور دیگر رہنما ہیں ۔


آج 22 مئی، امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کا 51 واںیوم تاسیس ہے۔ آئی ایس او شاید پہلی طلبہ تنظیم ہے ، جو 1972ءمیںانجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے علماءکی سرپرستی میںبغیر کسی سیاسی مذہبی جماعت کا ونگ بنے ، معرض وجود میں آئی۔ یہ تنظیم اپنی عمر کی نصف صدی مکمل کر چکی ہے، یعنی خاصی میچور ہو چکی ہے۔اس نے لاکھوں نوجوان معاشرے کو دیئے جو دینداری، دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ لطف کی بات ہے کہ آئی ایس او کے نوجوان جہاں بھی ہوتے ہیں، تنظیم کی تربیت ان کے کام اور رویے میں نمایاں نظر آتی ہے ۔
راقم نے بھی سکول کے دنوں میں اسلامی جمعیت طلبہ کی ’بزم پیغام، میں چند ماہ گزارنے کے بعد آئی ایس او کے شعبہ محبین میں شمولیت اختیار کی اور اس طرح تنظیم کو بڑے قریب سے دیکھنے ،پرکھنے اور اس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ قرآن و حدیث، سیرت اہل بیتؑ اور رہبر انقلاب اسلامی امام خمینی ؒ کی انقلابی فکر پر مبنی اسلامی نظام حکومت کے ”نظریہ ولایت فقیہہ “ سے وابستگی اس تنظیم کا طرہ امتیاز ہے۔ اس تنظیم کے ممبران خود کو امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے منتظر اورخود کو ان کی عالمی حکومت کے قیام کے لئے زمین ہموار کرنے کی تحریک کا حصہ سمجھتے ہیں۔


 عزاداری کے جلوسوں میں نماز با جماعت کا آغاز،تسلسل کے ساتھ قیام اورعقیدہ توحید ،رسالت اور امامت کی ترویج کے لئے آئی ایس او کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔سماجی کاموں میں بھی یہ تنظیم پیچھے نہیں رہی۔ قدرتی آفات مثلاًسیلاب، زلزلہ ،دہشت گردی یا دیگر حادثات میں عوام کی خدمت ہو، تنظیم کے جلسے ،کنونشن یا جلوس سکیورٹی اور نظم و ضبط پیدا کرنے میں مہارت رکھنے اور خد مت کے جذبے سے سرشار’ امامیہ اسکاوٹس ‘ بھی اسی تنظیم کا شعبہ ہے ۔آئی ایس او نے طلبہ سیاست میں بھی بھر پور قوت کا اظہار کیا ۔درسگاہوں میںامن کے قیام، تعلیمی ماحول فراہم کرنے، کلاشنکوف کلچر کے خاتمے،طلبہ اساتذہ اور سٹاف کے احترام کا فروغ ،طلبہ کے لئے تعلیمی معاونت، داخلوں میں رہنمائی ، امتحانات کی تیاری اور مستحق طلبہ کی مالی امداد کا منظم نظام اسکالرشپ بھی اس طلبہ تنظیم کے پاس موجود ہے۔
 1988ءمیں پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آکر جنرل ضیا ءالحق کی عائد کردہ طلبہ تنظیموں پر عائد کردہ پابندی اٹھالی اور سٹوڈنٹس یونینز کے انتخابات کا اعلان کر دیا۔انتخابی ضابطہ اخلاق کی تیاری کے لئے طلباءتنظیموں کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا۔ہر تنظیم اپنے ساتھ تجاویز تحریری شکل میں لے کر آئی،جو ضابطہ اخلاق منظور ہوا اس کی دس میں سے چھ تجاویز امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی طرف سے دی گئی تھیں جوتمام طلبہ تنظیموں نے قبول کرلیں۔ آج بھی آئی ایس او طلبہ تنظیموں کے سٹوڈنٹس یونینز کی بحالی کے مطالبے میں یک آواز ہے کہ پاکستان جمہوری ملک ہے۔ یہاں جمہوریت کے فروغ کے لئے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو سیاسی ماحول فراہم کرنے کے لئے سٹوڈنٹس یونین بحال کی جائیں ۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ طلبہ تنظیموں کا مشترکہ پلیٹ فارم’ متحدہ طلبہ محاذ‘ بھی آئی ایس او ہی کی کاوشوں سے1993ءمیں تشکیل پایا ،جوآج بھی تمام مسائل کے حل کے لئے بہترین کردار ادا کر رہا ہے۔ 1990ءکے اوائل میں تنظیم کے نام کوامامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے اسلامک سٹوڈنٹس آرگنائزیشن یا اسلامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی اور سنجیدہ کوشش بھی کی گئی، مگر اندرونی مخالفت کی وجہ سے دستوری اداروں سے اس کی منظوری نہ ہوسکی۔ 


امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے اپنی سیاسی مذہبی جماعت کو 1979ءمیں جنم دیا۔ جب ضیا ءالحق کی مسلط کردہ فرقہ واریت کا مقابلہ کرنے کا موقع آیا تو تنظیم کے ذمہ داران نے علماءکی قیادت میں ’تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان‘ کے قیام میں بھرپور تعاون کیا۔یہ تنظیم بعدازاں تحریک جعفریہ پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی اور قومی سیاست میں بھرپور کردار ادا کیا ۔آئی ایس او نے علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کی قیادت میں جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکے خلاف جدوجہد میں بھی بھر پور کردار ادا کیا۔قائد بزرگوار کی زندگی نے وفا نہ کی تو ملک میں قرآن و سنت پر مبنی حقیقی اسلامی نظام کے قیام کے لئے نوجوان مجاہد عالم دین علامہ عارف حسین الحسینی ؒ کی قیادت میں سفر کو جاری رکھا۔ ان کی شہادت کے بعد تیسری قومی قیادت اور پاکستان میں نمائندہ ولی فقیہہ علامہ ساجد علی نقوی کا بھی آئی ایس او نے آٹھ سال تک ساتھ دیا۔ پھر اس تنظیم نے اپنی پالیسی تبدیل کرلی اور قیادت سے منہ پھیر لیا ۔دستور میں تبدیلی کرکے نمائندہ ولی فقیہہ پاکستان سے خود کو علیحدہ کرلیا۔ پھریہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ اس متحرک اور منظم تنظیم نے مولانا فاضل حسین موسوی، مولانا شاہد حسین نقوی، مولاناسینیٹر عابد حسین الحسینی، مولانا راجہ ناصر عباس جعفری، مولانا جواد نقوی اور کچھ دیگر علمائے دین کی قیادت کے تجربات کئے، مگر تسلی آج تک نہیں ہوئی۔دستوری لحاظ سے اپنے قیام سے اب تک امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاداور خودمختار طلبہ تنظیم ہے۔کسی جماعت کا طلبہ ونگ نہیں، مگر عوام پہلے اسے تحریک جعفریہ پاکستان اور اب مجلس وحدت مسلمین سے نتھی کرتے ہیں۔ قومی کردار کی حامل آئی ایس او کو تقسیم کے امتحان سے بھی گذرنا پڑا۔ اندرونی پالیسی پر اختلاف کرنے والے طلباءنے جعفریہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن قائم کی تو تحریک جعفریہ سے علیحدہ ہونے والے افراد نے مجلس وحدت مسلمین قائم کرلی،لیکن بدقسمتی سے تقسیم در تقسیم کا یہ عمل ابھی تک جاری ہے۔

مزید :

رائے -کالم -