نسلِ نو سے علّامہ اقبالؒ کا خطاب
13جو ن1931ءکو مسلمانان ِ لاہور کا ایک جلسہ ¿ عام موچی دروازہ لاہور کے بیرونی باغ میں زیر صدارت حضرت علامہ اقبال ؒ منعقد ہوا۔ صدارتی خطاب میں آپ نے فرمایا:
برادران اسلام! گزشتہ چالیس پچاس سال سے مسلمانوں کے متعلق ہندوستان میں جس قسم کے خیالات ظاہر کئے جا رہے ہیں، ان میں مسلمانوں کے لئے عبرت و بصیرت کا ایک مستقل سرمایہ موجود ہے۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ان واقعات کا پیغام سمجھیں، چونکہ مسلمان منتشر ہیں، اس لئے یہاں کی ہر قوم مسلمانوں سے عناد رکھتی ہے۔ یہ صورت حال نہایت افسوسناک ہے۔آپ ؒ نے نہایت درد اور رقت سے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:” تم آج تک اپنی مصیبت کے علاج کے لئے ہزاروں تدبیریں کر چکے ہو۔ اب ایک تدبیر نبی کریمﷺ کی بھی آزماﺅ۔
نبی کریمﷺ فرماتے ہیں: ”ایک دفعہ اتحاد کر کے دیکھو“ اگرچہ اب تک کی تمام تدابیر ناکام ثابت ہو چکی ہیں، لیکن نبی کریمﷺ کا بتایا ہوا یہ نسخہ شفا کبھی ناکام نہیں ہو گا۔ اتحاد کامیابی کا سرچشمہ ہے اور حصول اتحاد کا راز قرآن کریم کی سورہ¿ آل عمران نمبر3، آیت نمبر 103میں موجود ہے۔ ترجمہ: ”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو، جیسا کہ چاہئے اس سے ڈرنا اور نہ مرنا، مگر مسلمان“ اور اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رہو اور باہم نااتفاقی نہ کرو اور اللہ تعالیٰ کا یہ انعام اپنے اوپر یاد رکھو جب تم باہم دشمن تھے، تو اُس نے تمہارے دِلوں میں محبت ڈال دی۔ سو تم اس کے انعام سے بھائی بھائی بن گئے اور تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے۔ سو اس نے تمہیں اس سے بچایا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے احکام کھول کر سناتا ہے تاکہ تم راہ یاب ہو“۔ پھر فرمایا:” لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ“ یہی وہ رسّی ہے، اگر اسے مضبوطی سے پکڑ لیا جائے، تو دونوں جہان کی کامیابیاں تمہارے قدموں میں ہیں۔
(2) بظاہر یہ خطاب اقبال ؒ نے اپنے لخت جگر ڈاکٹر جسٹس(ر) جاوید اقبال کے نام منسوب فرمایا ہے، مگر ساتھ ہی مستقبل کی نئی نسل کو بھی انتباہ فرمایا ہے اور اُن کی توجہ احکامات الٰہیہ اور ارشادات نبویہ کی طرف مبذول کراتے ہوئے فرمایا ہے کہ قرآن کریم ہر مذہب و ملت کے لئے ایک مکمل ضابطہ ¿ حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرما کر دنیا میں بسایا،تو اسے ازلی دشمن کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا۔ اپنی اس مخلوقِ ناطق کو شیطانی مکرو فریب ،شر اور وساوس سے بچانے کے لئے نبی کریمﷺ اور پیغمبر الہامی کتب کے ساتھ مبعوث فرمائے تاکہ قوم کو سیدھی راہ بتاتے رہیں۔
نبی کریمﷺ کی آمد پر جب دین پوری طرح سے کامل اور اکمل ہو گیا تو یہ ذمہ داری خلفائے راشدین اور بعد میں اولیائے کرام، علمائے عظام اور علمائے کرام کے سپرد ہو گی اور یہ سلسلہ ¿ رشد و ہدایت قیامت تک یونہی جاری و ساری رہے گا، مگر اصل بات عمل کی ہے۔ اگر یہ نہیں تو آج وہ دن آ گئے ہیں، جیسا کہ ہر سُو افراتفری، نفسا نفسی اور آہ و زاری کا دردناک سماں ہے.... مگر افسوس اس امر کا ہے کہ اصلاح احوال کے لئے کوئی مثبت قدم اٹھایا نہیں جا رہا۔ قوم میں احساس سود و زیاں ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ ہر طرح کے جرائم میں تیزی، قتل و غارت کی بہتات خواتین بلکہ نو عمر بچیوں کی جبراً آبروریزی جیسے بھیانک جرائم عام ہو رہے ہیں۔ طلب و رسد میں توازن نہ ہونے کی وجہ سے اشیائے خورونوش میں روز بروز مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے ۔
(3) آیئے اب اقبال ؒ کے فارسی زبان میں فرمائے گئے خطاب کے اردو ترجمہ کی پہلی قسط ملاحظہ فرمائیں۔ یہ خطاب کافی طویل ہے، اس لئے ایک کالم میں سمونا مشکل ہے۔ دراصل یہ خطاب آپ نے اپنے لخت جگر جسٹس(ر) ڈاکٹر جاوید اقبال کے نام منسوب فرمایا ہے، لیکن فی الحقیقت پہ پیغام قرآن و سنت کی روشنی میں مسلمانان عالم کے نام ہے۔ گو یہ خطاب پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے کافی عرصہ پہلے کا ہے، مگر آج بھی پاکستان کے حالات رویہ اصلاح نہیں ہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور عوام کو اس خطاب سے مستفیض ہونا چاہئے۔
جاوید سے خطاب نئی نسل سے چند باتیں
٭.... اس سخن آرائی سے کچھ حاصل نہیں، دل کی گہرائیوں میں جو کچھ ہے، و ہ بیان سے باہر ہے۔
٭.... اگرچہ مَیں سینکڑوں نکتے واشگاف بیان کر چکا ہوں، مگر میرے پاس ایک ایسا نکتہ بھی ہے، جو لکھنے میں نہیں آ سکتا۔
٭.... اگر مَیں اسے بیان کروں، تو وہ اور پیچیدہ ہو جاتا ہے، الفاظ اور آواز اسے اور پوشیدہ بنا دیتے ہیں۔
٭.... اس نکتے کا سوز میری نگاہ، میری آہِ صبح گاہی سے حاصل کر۔
٭.... تیری ماں نے تجھے (لا الٰہ کا) پہلا سبق دیا۔ تیری کلی اس کی بادِ نسیم سے کھلی۔
٭.... اس کی نسیم سے تو نے یہ رنگ دبو پائی، تو ہماری متاع ہے، مگر تیری قیمت اِسی بادِ نسیم سے ہے۔
٭.... تو نے اِسی سے دولت جاوید حاصل کی، اس کے لب سے تو نے لا الٰہ سیکھا۔
٭ اے بیٹے! اب ذوقِ نگاہ، یعنی لا الٰہ میں جلنا مجھ سے لے۔
٭.... لا الٰہ کہتا ہے، تو دل کی گہرائیوں سے کہہ۔ تاکہ تیرے بدن سے بھی روح کی خوشبو آئے۔
٭.... چاند سورج کی گردش لا الٰہ ہی سے ہے۔ کوہ و کاہ میں بھی مَیں نے اسی کا سوز دیکھا ہے۔
٭.... لا الٰہ کے دو حروف محض گفتار نہیں، بلکہ تیغ بے زنہار ہیں۔
٭.... لا الٰہ کے ساتھ جینا قہاری ہے۔ لاالٰہ محض ضرب نہیں، بلکہ ضرب کاری ہے۔
٭.... مومن اور دوسروں کی غلامی کرے؟ مومن ہو اور غداری، نفاق اور فاقہ مستی اختیار کرے؟
٭.... اس دور کے مسلمان نے معمولی قیمت پروین و ملت کو بیچ دیا۔ اس نے اپنا گھر بھی جلا دیا اور گھر کا سامان بھی۔
٭.... کبھی اس کی نماز میں لا الٰہ (کا رنگ) تھا، مگر اب نہیں، کبھی اس کی نیاز مندی میں ناز تھا، مگر اب نہیں۔
٭.... نہ اب اس کے صوم و صلوٰة میں نور ہے، نہ اس کی کائنات میں جلوہ¿ (حق تعالیٰ)
٭.... وہ جو اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا سب کچھ سمجھتا تھا، آج کل حبِ مال اور خوف ِ موت کے فتنہ میں مبتلا ہے۔
٭.... وہ مستی اور ذوق و سرور کھو چکا ہے۔ دین اب کتاب ہی میں رہ گیا ہے، مسلمان مر چکا ہے۔
٭.... وہ عصرِ حاضر کی صحبت اختیار کر چکا ہے اب وہ دو جعلی پیغمبروں سے دین سیکھتا ہے۔
٭.... ان میں سے ایک(بہاءاللہ) ایرانی اور دوسرا (مرزا قادیانی) پہلے نے حج منسوخ کر دیا اور دوسرے نے جہاد۔
٭.... جب جہاد اور حج واجب نہ رہے، تو صوم و صلوٰة کی روح بھی ختم ہو گئی۔
٭.... نماز روزے کی روح جاتی رہی تو فرد بے لگام ہو گیا اور ملت بے نظام۔
٭.... سینے حرارت قرآن پاک سے خالی ہو گئے۔ ایسے لوگوں سے بھلائی کی کیا امید؟
٭.... مسلمان نے خودی ترک کر دی۔ اے خضر! مدد کو پہنچ۔ پانی سر سے گزر گیا۔
٭.... وہ سجدہ جس سے زمین کانپ جاتی تھی اور آسمان اس کے مطابق گردش کرنے لگتا تھا۔
٭.... اگر پتھر پر اس سجدے کا نشان پڑتا تو وہ دھوئیں کی طرح ہوا میں تحلیل ہو جاتا۔
٭.... اس زمانے میں وہ سجدہ سر جھکانے کے سوا اور کچھ نہیں ، اب اس میں بڑھاپے کی کمزوری کے علاوہ اور کچھ باقی نہیں۔
٭.... ربی الاعلیٰ، کا وہ شکوہ اب کہاں ،یہ اس کا گناہ ہے یا ہماری تقصیر؟
٭.... ہر کوئی اپنے اپنے راستے پر سر پٹ دوڑے جا رہا ہے۔ ہر ناقہ نکیل کے بغیر اور آوارہ گرد ہے۔
٭.... قرآن پاک اور ذوق طلب سے خا لی ہیں۔ العجب۔ ثم العجب، ثم العجب!
٭.... اگر اللہ تعالیٰ تجھے صاحب ِ نظر کر دیں، تو آنے والے زمانے کو دیکھ لے۔
٭.... اس دور کے لوگوں کی عقل بے باک ہے اور دل بے سوز، آنکھیں حیا سے خالی ہیں اور وہ حسن ِ مجاز میں غرق ہیں۔
٭.... علم و فن۔ دین و سیاست ہو، یا عقل و دل ہو، سب گروہ درگروہ مادیت کے طواف میں لگے ہوئے ہیں۔
٭.... ایشیا جو آفتاب کی سرزمین تھی، اپنے آپ سے چھپا ہوا اور دوسروں کو دیکھنے میں مصروف ہے۔
٭.... اس کا قلب نئی واردات سے خالی ہے، ان کے فکر کے نتائج کو کوئی دو کوڑی میں بھی نہیں پوچھتا۔
٭.... اس کہنہ دیر، یعنی دنیا میں اس کی زندگی، ساکن یخ بستہ اور ذوق جستجو کے بغیر ہے۔
٭.... وہ ملاﺅں اور پادشاہوں کا شکار ہو چکاہے، اس کے فکر کا آہو، لنگڑا لولا ہے۔
٭.... اس کی عقل دین دانش و ناموس وننگ فرنگیوں کے شکار بند ہیں، بندھے ہوئے ہیں۔
٭.... مَیں نے اس کے افکارِ مشرق کی دنیا پر چڑھائی کی ہے اور اس کے اسرار کا پردہ پھاڑ دیا۔
٭.... اپنا دِل خون کر کے مَیں نے اس کے جہان کو بدلا ہے۔
٭.... مَیں نے اپنے دور کے ذہن سے دو باتیں کی ہیں اور ان دو ظروف میں دو سمندر بند کر دیئے ہیں۔
٭.... مَیں نے پیچیدہ زبان بھی استعمال کی ہے اور نیشدار (واشگاف) بھی تاکہ مَیں اس دور کے مردوں کے عقل و دل کو شکار کر سکوں۔
٭.... مَیں نے مغرب کے انداز کے مطابق تہ دار الفاظ بھی کہے ہیں اور اپنے تارِ رباب سے نالہ ¿ مستانہ (شعروں کی صورت میں) بھی بلند کیا ہے۔
٭.... ایک کی اصل ذکر سے ہے اور دوسرے کی فکر سے، خدا کرے کہ تو اس ذکر و فکر کاوارث بنے۔
٭.... مَیں ندی ہوں، میرا منبع یہ دو بحر ہیں۔ میری جدائی جدائی بھی ہے اور وصل بھی۔
٭.... چونکہ میرے دور کا مزاج مختلف ہے، اس لئے میری طبیعت نے بھی اور طرح کا ہنگامہ پیدا کیا ہے۔
٭.... ہمارے نوجوان پیاسے ہیں، مگر ان کے جام خالی ہیں، چہرے چمک دار۔ دماغ روشن، مگر اندروں تاریک۔
٭.... کم نگاہ، بے یقین اور مایوس، ان کی آنکھ کو دنیا میں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔
٭.... یہ ناکس اپنی عظمت کا انکار کرتے ہیں اور غیروں کی عظمت پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بُت خانے کا معمار ان کی مٹی سے اینٹیں گھڑتا ہے۔
٭.... مکتب کو بھی اپنے مقصود سے آگاہی حاصل نہیں، کیونکہ اس کی رسائی جذب ِ اندرون تک نہیں۔
٭.... اہل ِ مکتب نے نوجوانوں کی جانوں سے نورِ فطرت کو دھو دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکتبوں کی شاخ سے ایک گل ِ رعنا بھی نہیں پھوٹا۔
٭.... ہمارے معمار (اساتذہ) پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھتے ہیں، بطخ کے بچے کو شاہین کے بچے جیسی مہارت سکھاتے ہیں۔
٭.... جب تک علم زندگی سے سوز حاصل نہ کرے، دل واردات کی لذت سے آشنا نہیں ہوتا۔
٭.... علم کا مقصد صرف انسانیت کے مقامات کی شرح اور اس کی آیات کی تفسیر ہے۔
٭.... احساس کی آگ میں جلنے کے بعد ہی انسان اپنی چاندی اور تانبے میں امتیاز کر سکتا ہے۔
٭.... حق تعالیٰ کا علم پہلے حواس کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور آخر میں مشاہدات سے اس کی نہایت عقل سے بالاتر ہے۔ (جاری ہے) ٭