لاہور کالج واقعہ: ”Test Case“ یا ”Taste Case“؟
جیسے ارشد شریف اور شہباز کی جعلی مائیں / بہنیں گھڑی گئی تھیں ایسے ہی کالج کا جعلی واقعہ گھڑا گیا۔پاکستان میں کام کرنے کی ضرورت نہیں بس جن لوگوں کے سوشل میڈیا بڑے بڑے اکاؤنٹ ہیں انہیں پیسے دیں اور اپنے حق میں پروپیگنڈا کروا لیں۔لاہور کالج سانحہ کی پہلی بنیاد احسن مرزا @Ahsenetix) کا اکاؤنٹ ہے، جہاں ایک لڑکی کا وائس نوٹ چلایا گیا کہ وین والے انکل نے اس بچی کو اس بہانے سے بیسمنٹ میں بلایا کہ وہ اس سے فیس ڈسکس کرنا چاہتا ہے۔ کیا کسی نے سوچا کہ پرائیویٹ وین کو کالج میں داخل ہی نہیں ہونے دیا جاتا اور کالج وین کی فیس کالج خود ڈیل کرتا ہے نہ کہ ڈرائیورز۔کیا حکومت نے thenewspaper.pk اور newdity.pk کا محاسبہ کیا؟اگر پورے کالج نے لڑکی کی چیخیں سنی تھیں توکوئی مدد کو کیوں نہیں گیا۔اگلے دن جب احتجاج کرتے طلبہ سے پوچھا گیا توسب ہی چیخوں سے بے خبر کیوں تھے؟ اگر سب لڑکوں کے موبائل توڑے گئے تھے تو کم از کم کسی ایک مصدقہ طالب علم کا اقرارنامہ ہی دکھا دیتے یا کوئی ایک والد تو احتجاج کرتا پایا جاتا کہ میرے بچے کا اتنا قیمتی موبائل توڑ دیا گیا۔بہت سی لڑکیوں نے سوشل میڈیا پر تو بتایا کہ ہم اس لڑکی کو جانتی ہیں، لیکن ایک بھی لڑکی سامنے کیوں نہیں آئی اور ان سب کے اکاؤنٹس کی ”پیدائش“ واقعے کے بعدہی کیوں ہوئی تھی؟جن دو لڑکیوں نے بذریعہ ویڈیو شناسائی کا دعویٰ کیا تھا بعدازاں انہوں نے خود ہی یہ انکشاف کیا کہ انہیں ایک مشہور یوٹیوبر نے ویڈیو بنانے کا کہا تھا اور اس بات کے ثبوت بھی پیش کیے۔یاد رہے کہ اس یوٹیوبر نے خود بھی ایک ٹویٹ کیا جس کا عنوان تھا: ”دودھ پلانے سے خون پینے تک“۔یوں اس واقعہ کو اس ہدف کی جانب موڑا گیا جو مقصود اصلی تھا اورمطلوب جس سے بنگلہ دیش جیسا انقلاب لانا تھا۔ مذکورہ یوٹیوبر KPK حکومت کی باقاعدہ پروٹیکشن میں ہے۔ کیا کسی نے اپنی حکومت سے پوچھاکہ اسے سرکاری خرچ پر وہاں رکھا گیا ہے؟ @sarcaxxm نامی اکاؤنٹ نے لکھا کہ حامد میر نے کہا ہے کہ اصل میں ریپ کسی بڑے نے کیا ہے، جبکہ قربانی کا بکرا گارڈ کو بنایا جا رہا ہے۔حامد میر نے خود تردید کرتے ہوئے کہا کہ نہ ہی میرا مذکورہ ہینڈلر سے کوئی رابطہ ہوا ہے اور نہ ہی میں نے ایسی کوئی بات لکھی ہے۔کیا پنجاب حکومت نے وارداتیوں کے خلاف کوئی کارروائی کی؟کیا طلبہ کے ساتھ وکلاء اور ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کا مل جانا کیا اتفاق تھا؟
کیا کسی نے سوچا کہ اتنے طلبہ میں سے کوئی ایک بھی اس لڑکی کا نام اور اس کی کلاس تک نہیں جانتا تھا۔ پروپیگنڈے کے لئے کالج کی پرانی طالبہ کی تصاویر لگائی گئیں، اگر نئی لگاتے تو اس طالبہ کی سہیلیاں فوراً پہچان جاتیں کہ یہ تو اس دن کالج آئی ہی نہیں تھی یا آئی تو تھی، لیکن ہمارے ساتھ ہی نکلی تھی، لہٰذا پرانی تصاویر لگائیں تا کہ جب تک اس لڑکی کو خبر ہو گی تب تک مقصد پورا ہو چکا ہو گا اور بعد میں اگر پروپیگنڈا بے نقاب ہو بھی گیا تو تب تک حسب ِ عادت ایک اور نیا جھوٹ مرشد خانے سے چل پڑا ہو گا لہٰذا یہ کس نے دیکھنا تھا کہ کالج واقعہ کا کیا ہوا؟ پھر کہا گیا کہ وہ لڑکی مر گئی ہے لہٰذا اسے کیسے میڈیا پر پیش کریں۔کیا کسی نے سوچا کہ مردہ لڑکی زندہ کیسے ہوئی؟ اس نے تو خود میڈیا پر آ کر بتایا کہ یہ میری پرانی تصاویر ہیں اور میں تو سالوں سے ایک مطمئن شادی شدہ زندگی گزار رہی ہوں۔ مزید نفسیاتی گیم یہ ڈالی گئی کہ نام وہ بتایا گیا جس نام کی کالج میں تین چار لڑکیاں تھیں تاکہ ہر لڑکی، اس کے والدین یا اس کی سہیلیاں یہی سمجھیں کہ ہمارے والی تو ٹھیک ہے۔یہ واقعہ دوسری کے ساتھ پیش آیا ہو گا اور جب تک کوئی ان تینوں لڑکیوں تک پہنچے گا تب تک مذموم مقاصد کا حصول ہو چکا ہو گا۔پھر سوئی جس لڑکی پر اٹکائی گئی اس کے والد نے کہا کہ میری بیٹی تو کئی دِنوں سے بیمار تھی جس کے میڈیکل چیک اَپ کا باقاعدہ ریکارڈ ہے۔ کالج کا حاضری رجسٹر اور سی سی ٹی وی کیمرہ بھی لڑکی کو کئی دِنوں سے غیرحاضر بتا رہے، جس ہسپتال کا نام لیا گیا وہ میڈیکولیگل کیسز کو ڈیل ہی نہیں کرتا،بلکہ ہڈی سے متعلقہ مسائل ڈیل کرتا ہے جس سے لڑکی کے والد کا موقف مضبوط ثابت ہوتا ہے۔اتنے حقائق ہیں، لیکن مغلوب ہیں،جبکہ جھوٹا پروپیگنڈا حاوی ہے۔ کتنی سچی ہے چائنی کہاوت کہ جب تک سچ بیچارہ جوتیاں پہنتا ہے تب جھوٹ دنیا کا چکر لگا چکا ہوتا ہے۔
یہاں ایک فیک ویڈیوز پر طوفان کھڑا کیا،جبکہ صوابی کے ایک تعلیمی ادارے میں ہوئے ایک حقیقی ریپ کیس پر کسی نے ایک لفظ تک نہیں کہا، جس کا اقرار خود لڑکی اور والد کر رہے ہیں۔یہ ہے پروپیگنڈے کی طاقت لیکن افسوس کہ حکومت کا کردارہمیشہ کی طرح پرو مجرمانہ ہے۔ پاکستان میں سترہ کروڑ نوجوان، پانچ کروڑ یوٹیوبرز، چھ کروڑ ٹک ٹاکرزاور تقریبا سات کروڑ کے قریب فیس بکرز ہیں،جو کسی نہ کسی طرح دجالی پروپیگنڈے کا شکار ہیں۔ میں نے کسی کالم میں لکھا تھا کہ سوشل میڈیا کے ہیڈآفس دبئی میں ہیں جہاں پڑوسی ملک کے لوگ آل ان آل ہیں اور فلٹر لگا کر اپنی فنڈڈ زدہ جماعت کو سپورٹ کرتے ہیں لہٰذا حکومت ایک بار سخت قدم اٹھائے اور اس واقعہ میں ملوث طلبہ اور دیگر کرداروں کی ڈگریاں کینسل،آئی کارڈ اور فارم ب بین کینسل کرے تاکہ ان کے لئے کسی قسم کا تعلیم، نوکری کے حصول اور باہر کا سفر مشکل ہو جائے۔اگر ایک بار ایسا ہو جائے تو کلٹ اور پروپیگنڈے کا صفایا ہو سکتا ہے، لیکن نہیں معلوم کہ حکومت کی کیا مجبوریاں ہیں کہ وہ حسب ِ عادت اس واقعے کو بھی Test Case بنانے کی بجائے taste Case بنانے پر تلی ہے۔