جو لوگ اللہ اور رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں(1)
عنوانِ بالا کا انتخاب قرآن کریم کی سورة الاحزاب نمبر 33 آیت نمبر 57 سے کیا گیا ہے۔ پوری آیت کا ترجمہ: ”بے شک جو لوگ ایذا پہنچاتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو، اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اس نے تیار کر رکھا ہے ان کے لئے رسوا کن عذاب“ ....اگلی آیت نمبر 58 میں مومن مرد اور مومن عورتوں کو بھی تحفظ دیا گیا ہے۔ ترجمہ ملاحظہ ہو۔ ”اور جو لوگ دل دکھاتے ہیں مومن مردوں اور مومن عورتوں کا بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی معیوب کام کیا ہو تو انہوں نے اٹھا لیا اپنے سر پر بہتان باندھنے اور کھلے گناہ کا بوجھ“.... اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ایذا پہنچانے والے لوگوں کو محشر کے روزدرد ناک عذاب دینے کا ذکر سورة التوبہ نمبر 9 کی آیات نمبر 61 اور 63 میں اس طرح سے فرمایا ہے۔ آیت نمبر 61۔ ”اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنی بد زبانی سے اذیت دیتے ہیں نبی کریمﷺ کو اور کہتے ہیں یہ کانوں کا کچا ہے۔ فرمایئے وہ سنتا ہے جس میں بھلاہے تمہارا، یقین رکھتا ہے اللہ پر اور یقین کرتا ہے مومنوں کی بات پر اور سراپا رحمت ہے ان کے لئے جو ایمان لائے تم میں سے اور جو لوگ دکھ پہنچاتے ہیں اللہ کے رسولﷺکو ، ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ آیت نمبر 63۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ جو کوئی مخالفت کرتا ہے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تو اس کے لئے آتش جہنم ہے ہمیشہ رہے گا اس میں۔ یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔
مذکورہ بالا آیات سے تین طرح کی ایذا رسانیوں کا پتا چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود، رسول اللہﷺ اور تیسرے مومن مرد اور مومن عورتیں۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کو اپنے رسول کی ذاتِ گرامی کو الگ ٹھہرانا ہرگز گوارا نہیں۔ قرآن کریم میں بار بار فرمایا گیا ہے کہ میری اطاعت کرو اور میرے رسولﷺ کی اطاعت کرو، جبکہ رسول اللہﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت جانا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ جو احکم الحاکمین مالک یوم الدین اور کل کائنات سماوی و ارضی کا مالک و مختار ہے، اسے ایذا پہنچانے کی ہمت حوصلہ اور جرا¿ت کسے ہو سکتی ہے؟ کئی طرح کے خیالات ناقص ذہن میں آتے ہیں۔ پہلا واقعہ خالصتاً رب کعبہ کی ذاتِ اقدس سے متعلق ہے۔ جس کا ذکر سورة الفیل نمبر 105 میں ہے۔ اس واقعہ کا تعلق حضور علیہ الصلوٰةوالسلام کی پیدائش سے پہلے کا ہے۔
مختصراً بیان کیا جاتا ہے.... ابرہہ عیسائی تھا۔ اس نے 60 ہزار جنگجو سپاہیوں اور 9-10 ہاتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ گرانے کے لئے مکتہ المکرمہ پر حملہ کر دیا۔ حضرت عبدالمطلب متولی تھے۔ ابرہہ نے بڑے غرور اور تکبر سے کہا کہ اب خانہ کعبہ کو کوئی اس سے بچا نہیں سکے گا۔ حضرت عبدالمطلب اپنی قوم کے رئیسوں کے ساتھ خانہ کعبہ آئے اور دروازے کا کنڈا پکڑ کر بصد عجزو نیاز فریاد کی کہ اے مولا! ہر شخص اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے تو بھی اپنے گھر کی حفاظت کر۔ اے اللہ! تیرے بغیر مَیں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا، ان کی دستبرد سے اپنے حرم کی حفاظت فرما۔ دعا سے فارغ ہوئے تو فضا میں چھوٹے چھوٹے پرندے غول درغول نمودار ہوئے۔ ہر ایک نے ایک ایک سنگریزہ چونچ اور پنجوں میں پکڑا ہوا تھا۔ ہر سپاہی پر ایک پرندہ کنکر مارتا جو اس کے فولادی خود، آہنی زرہ اور اس کے جسم کو چیرتا ہوا زمین میں دھنس جاتاتھا۔ یوں فوج کا بیشتر حصہ تباہ و برباد ہو گیا۔ ابرہہ چند سپاہیوں کے ساتھ واپس بھاگا،جہاں وہ لوگ خارش میں مبتلا ہو گئے اور کھجاتے کھجاتے سب ہلاک ہو گئے۔
حضور اقدسﷺ کی پیدائش 20 اپریل 571ءمیں مکتہ المکرمہ میں ہوئی۔ چالیس سال کی عمر میں آپ نے اعلانِ نبوت فرمایا، جس پر کفار مکہ، جو بت پرست تھے سخت مخالف ہو گئے۔ حضور علیہ الصلوة والسلام کی ایذا رسانی میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ آپ کی تیرہ سالہ مکی زندگی دعوت حق دیتے گزری ،مگروہ بت پرستی اور جاہلانہ رسم ور رواج چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ جب مدینہ النبی میں مسلمانوں کو ایک پناہ گاہ مل گئی تو حضور علیہ الصلوٰة و السلام نے صحابہ کرامؓ کو عام اجازت دے دی کہ وہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلے جائیں۔ یکے بعد دیگرے لوگ مدینہ جانا شروع ہو گئے تو کفار کو بڑی تشویش ہوئی۔ انہوں نے ایک بہت بڑی کانفرنس بلائی، جس میں تمام سرداران کفار اکٹھے ہوئے اور فیصلہ کیا کہ حضورﷺ کو شہید کر دیا جائے ،جس کے لئے رات کو گھر کا محاصرہ کیا جائے۔ صبح حضوراکرمﷺ جب گھر سے باہر تشریف لائیں تو سب حملہ آور ہو کر کام تمام کر دیں ،مگر بذریعہ وحی حضوراکرمﷺ کو اس منصوبے کی خبر کر دی گئی اور مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت بھی دے دی گئی۔
آپﷺ نے حضرت علی ؓ کو یہ سب کچھ بتا دیا اور امانتیں دے کر فرمایا.... تم میری چارپائی پر میری چادر اوڑھ کر سو رہنا۔ صبح امانتیں واپس دے آنا۔ کفار نے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا۔ رات اللہ تعالیٰ نے کفار پر نیند غالب کر دی۔ رسول اکرمﷺ ان کو سوتا چھوڑ کر باہر آئے۔ کعبہ کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور فرمایا.... اے مکہ! تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہے، لیکن تیرے فرزند مجھ کو یہاں رہنے نہیں دیتے۔ آپ اور ابو بکر صدیقؓ چودہ دن بعد 23 ستمبر 622ءکو مدینہ تشریف لے گئے۔ جہاں اسلام کی ایک الگ اور خود مختار ریاست قائم کی گئی۔ مسلمانوں نے سیاسی اور فوجی قوت بھی پیدا کر لی تھی۔ مدینہ کے مقامی لوگوں ”انصار“ (بنو اوس اور بنو خزرج) اور مہاجرین کے درمیان حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے مواخاة و موالات کے نظام کی بنیاد رکھی، جس سے انصار اور مہاجرین میں باہمی محبت اور اخوت پیدا کی۔ مدینہ میں تین یہودی قبیلے آبا دتھے، بنو قینقاع، بنو نصیر اور بنو قریظہ۔ یہ اسلام سے کینہ رکھتے تھے۔ جناب رسالت مآبﷺ نے میثاق مدینہ کی صورت میں ایک معاہدہ امن طے کر لیا۔ گو بعد میں انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزیاں کیں اور انجام کار انہیں نقل مکانی کر کے خیبر جانا پڑا۔
سن دو ہجری میں جنگ بدر ہوئی جس میں کفار کو شکست ہوئی۔ ہجرت کے تیسرے سال جنگ احد ہوئی۔ کوہِ احد کے دامن میں معرکہ ہوا۔ اہل اسلام کا بہت جانی نقصان ہوا، لیکن جنگ ہار جیت کے بغیر ختم ہو گئی۔ اس کے بعد کئی اور معرکے ہوئے، مثلاً بنو نفیر کی جنگ، جنگ خندق، غزوئہ بنو قریظہ، صلح حدیبیہ، فتح خیبر، غزوہ مو¿ة (8 ہجری) فتح مکہ، بنو ہوازن اور بنو ثقیف کی تین جنگیں (1) جنگ حنین (دشمن نے شکست کھائی)(2) جنگ اوطاس (دشمن پر فیصلہ کن چوٹ پڑی) (3) محاصرہ طائف (چند دن بعد حضوراکرم نے محاصرہ اٹھا لیا) اس وجہ سے کہ طائف کے چاروں طرف شہر پناہ کی دیوار تھی اور ایک بہت مضبوط قلعہ تھا۔ قلعہ کے اندر سے کفار نے اس زور کے ساتھ تیروں کی بارش کی کہ لشکر اسلام تاب نہ لا سکا۔ اس پر حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے جنگ کے ماہر حضرت نوفل بن معاویہؓ سے مشورہ فرمایا تو انہوں نے کہا: ”لومڑی اپنے بھٹ میں گھس گئی ہے۔ اگر کوشش جاری رہی تو پکڑ لی جائے گی۔ لیکن اگر چھوڑ دی جائے تو بھی اس سے اندیشہ نہیں“.... تب حضور اکرمﷺ نے محاصرہ اٹھا لینے کا حکم دے دیا۔ واپسی کے وقت صحابہ کرام نے ان کی ہلاکت کی دعا چاہی تو آپ نے دعا کی: ”یا اللہ! ثقیف کو ہدایت دے اور ان کو میرے پاس پہنچا دے، چنانچہ آپ کی یہ دعا قبول ہوئی۔ قبیلہ ثقیف کا وفد مدینہ پہنچا اور پورے قبیلے نے اسلام قبول کر لیا۔(جاری ہے)