جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر96
اسکی بڑی بڑی روشن آنکھوں میں قہر تھا۔ وشنوداس نے اس کی طرف دیکھا اور چوکنا ہوگیا۔ دونوں ایک دوسرے کو آنکھوں میں تول رہے تھے۔ اچانک ملنگ نے فلک شگاف نعرہ لگایا۔
’’حق للہ۔۔۔حق‘‘ اور آگے بڑھ کر پاؤں کی ایک ایک ہلکی سی ٹھوکر محمد شریف اور عبدالودود کو رسید کی۔ مالائیں ان کے گلے سے ٹوٹ کر بکھر گئیں۔ دونوں بجلی کی سی تیزی سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ ان کے چہرے جو اذیت سے سیاہ پڑ چکے تھے تیزی سے اصلی حالت میں آگئے۔
مہاراج! یہ بہت بڑا دھشٹ ہے اس کے شریر میں راونڑ کی شکتی ہے‘‘ کالی داس خوفزدہ ہو کر وشنو داس کے پیچھے دبک گیا۔
’’قائر! میرے سامنے ایسے شبد منہ سے نکالتے ہوئے تجھے لاج نہ آئی؟ مہاراج وشنو داس کے سامنے اس پاپی کی مہانتا کے گن گا رہا ہے‘‘ وشنو داس غضبناک ہوگیا۔
’’مم۔۔۔مہار۔۔۔ا۔۔۔ج۔۔۔م۔۔۔یں تو۔۔۔میں تو‘‘ کالی داس کا رنگ خوف سے مزید زردہوگیا۔
’’میں تجھے آگیا دیتاہوں کہ دیوتاؤں کے نام پر آگے بڑھ اور دھرم کونشٹ کرنے والے ان پاپیوں کا سروناش (تباہ) کر دے‘‘ وشنو داس نے کالی داس کو گدی سے پکڑ کر آگے کر دیا۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر95 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’مہاراج دیا کرو۔۔۔یہ منش نہیں پلید آتما ہے مہاراج! یہ پاپی پہلے بھی مجھے کشٹ دے چکا ہے‘‘ کالی داس ہاتھ باندھ کر وشنوداس کے آگے جھک گیا۔ وہ بار بار مڑ کر ملنگ کی طرف خوفزدہ نظروں سے دیکھتا پھر وشنوداس کی منتیں کرنے لگتا۔
’’گرو جی! یدی آگیا ہو تو میں اس دھشٹ کرکریہ کرم کر دوں؟‘‘ وشنوداس کے پیچھے کھڑے ایک معمر پجاری نے جھک کر وشنوداس سے پوچھا۔
’’نہیں۔۔۔کالی داس ہی اس دھشٹ کو کھتم کرے گا۔ آگے بڑھ کالی داس! اور اس پاپی کو نرکھ میں جھونک دے۔ یدی اس یدھ میں تیرے پر ان بھی چلے گئے تو بھاگیہ شالی ہوگا‘‘ وشنوداس نے غصے سے کہا۔ نہ جائے مانند نہ پائے رفتن کے بمصداق کالی داس عجب مصیبت میں پھنس چکاتھا۔ آگے بڑھ کر ملنگ کے ساتھ مقابلہ کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی اگر انکار کرتا تو وشنوداس اسے جیتا نہ چھوڑتا۔ آگے کنواں پیچھے کھائی۔دونوں طرف اسے موت نظر آ رہی تھی۔
’’کس وچار میں ہے کیا تو میری آگیا کا پالن نہ کرے گا؟‘‘ وشنوداس کا لہجہ برف سے زیادہ سرد تھا۔
’’چاروناچار کالی داس آگے بڑھا لیکن اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ ملنگ بڑی دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’جے بجرنگ بلی!‘‘ کالی داس نے ایک فلک شگاف نعرہ لگایا اور جم کر ملنگ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ ملنگ کے چہرے پر ذرا فکروتردونہ تھا۔کالی داس نے ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا اور گلے میں پڑی ہوئی مالا کو توڑ کر ملنگ کی طرف اچھال دیا۔ مالا کسی سانپ کی طرح لہراتی ہوئی ملنگ کی طرف بڑھی۔ دھاگا ٹوٹ جانے کے باوجود اس کے دانے نہ بکھرے تھے۔ مالا برق کی سی سرعت کے ساتھ ملنگ کی طرف آئی لیکن اس کے چہرے سے کچھ فاصلے پر ٹھہر گئی۔ملنگ نے معنی خیز مسکراہٹ سے کالی داس کی طرف دیکھا لیکن خاموش رہا۔ کالی داس نے اپنا وار خالی جاتا دیکھا تو غضبناک ہوگیا۔ اس نے اپنے سینے سے ایک بال توڑ کر ملنگ کی طرف اچھال دیا۔ بال کا حشر بھی مالا سے مختلف نہ ہوا۔ کالی داس ایک سے ایک داؤ آزماتا رہا لیکن ملنگ کی تیوری پر بل نہ ڈالا سکا۔ تھک ہار کر اس نے وشنو داس کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں سے بیچارگی جھلک رہی تھی۔
’’گرو جی! آگیا ہو تو میں اس پاپی کو نرکھ میں پہنچا دوں؟‘‘اس بچاری نے دوبارہ وشنو داس سے پوچھا۔ وشنوداس بری طرح پیچ و تاب کھا رہا تھا۔
’’پہلے اس پاپی کو نرکھ میں پہنچانے کا پربند کرنے دے۔‘‘ وہ کالی داس کی طرف دیکھ کر دھاڑا۔
’’مم۔۔۔مہا۔۔۔را۔۔۔ج شما کر دو مہاراج‘‘ کالی داس اس کے قدموں میں گر گیا۔ وشنو داس نے ایک نظر ملنگ کو دیکھا اور کالی داس کے سر پر تھوک دیا۔ تھوک کا کالی داس کے سر پر گرنا تھا کہ اس نے آگ پکڑ لی۔ دل دہلا دینے والی چیخ کالی داس کے منہ سے نکلی۔ وہ چیختا ہوا کمرے میں بھاگنے لگا۔ آگ آہستہ آہستہ اس کے چہرے کو جلا رہی تھی۔ وہ دونوں ہاتھوں سے آگ بجھانے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔ اس کے جھاڑ جھنکار بال دھڑا دھڑ جل رہے تھے۔ تھوری ہی دیر میں آگ نے اسے بری طرح گھیر لیا اور وہ زمین پر گر گیا۔ آخر وہ موذی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ آگ نے صرف کالی داس کو جلایا تھا قالین کو نہیں۔ وشنو داس نے فاتحانہ نظروں سے ملنگ کی طرف دیکھا۔ کالی داس کو مرتے دیکھ کر ملنگ نے افسوس سے سر ہلایا۔(جاری ہے )
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر97 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں