آئین میں ترمیم کا معاملہ
قومی انتخابات کسی بھی ملک کے لیے استحکام اور ایک نئے دور کی علامت سمجھے جاتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں الیکشن سے نئے انتشار کا جنم لینا ایک روایت بن گیا ہے۔ 8 فروری کو عوام بالخصوص نوجوانوں نے جس جوش و خروش سے الیکشن میں حصہ لیا، اسے ملک و قوم کو آگے بڑھانے کے لیے ایک موقع بنایا جا سکتا تھا، مگرفارم 47 کی حکومت کے ذریعے ملک کوایک نئے انتشار اور عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا گیا،ناجائز طریقے سے بننے والی حکومت کو اپنی بقاکے سوا کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی، چنانچہ غریب آدمی کے لیے جینا مشکل ہو گیا ہے، مگر حکمرانوں اور پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کوپرانی سیاست بازی سے فرصت نہیں ہے۔ ایک دوسرے کے پاس آنا جانا لگا ہے، ملاقاتیں ہو رہی ہیں، مگر کسی کے ایجنڈے پر عوام نہیں ہیں، ایک پارٹی کے لیے کسی کی ایکسٹینشن اہم ہے، دوسری پارٹی کو حکومت میں اپنا حصہ بڑھانا اور مزید مراعات حاصل کرنی ہیں، کسی کو سینیٹ کی سیٹیں اور گورنرشپ درکار ہے،کسی کو کچھ اور وزارتیں پکڑنی ہیں، کہیں من پسند فیصلے درکار ہیں، کہیں ہاری ہوئی سیٹیں فارم 47کی بنیاد پر جتوانی ہیں، جن کو جتوائی ہیں ان کو برقرار رکھنا ہے،اقتدار، مفادات اور مراعات کے اس بے رحم کھیل میں عوام بہت پیچھے رہ گئے ہیں،بجلی گیس بلوں کی صورت میں برسنے والے بموں، بھاری ٹیکسز اور بڑھتی مہنگائی وبے روزگاری کے خلاف کوئی کھڑا ہو رہا ہے نہ کسی کے ایجنڈے میں یہ شامل ہے،صرف جماعت اسلامی اس وقت پوری قوم کی ترجمانی،اور عوامی حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد کررہی ہے۔
جماعت اسلامی نے بجلی بلوں میں کمی کے لیے راولپنڈی میں 14 روزہ تاریخی دھرنا دیا،اور حکومت کوباقاعدہ تحریری معاہدے پر مجبور کیا، پھر 28 اگست کو پاکستان کی تاریخ کی زبردست اور شاندار ہڑتال ہوئی۔ایک عوامی مسئلے پر رضاکارانہ طور پرایسی ملک گیر اور پرامن ہڑتال کی اس سے قبل مثال نہیں ملتی، تمام تاجر تنظیموں اور ایوان ہائے صنعت و تجارت نے اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیا،اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے دباؤ، دھمکیوں اور لالچ کے باوجود اسے ممکن کر دکھایا۔ شہروں میں بھی بڑی بڑی مارکیٹوں میں ہڑتال ہوا کرتی تھی لیکن اس مرتبہ چاروں صوبوں میں چھوٹے بڑے شہروں کے ساتھ قصبوں اوردیہاتوں میں بھی شٹر ڈاؤن رہا گویا پورا پاکستان ایک پیج پر تھا۔ مٹھی بھر حکمران اشرافیہ کے مقابلے میں قوم کے اس بے مثال اتحاد میں اللہ کی مددسے کامیابی ملی، اور جماعت اسلامی کو یہ اعزازحاصل ہوا کہ اس نے پوری قوم کو مجتمع کیا،شہریوں، تاجروں اورصنعتکاروں کی آواز بنی۔ حق دو عوام کو، تحریک کے پہلے مرحلے کو عوام بالخصوص نوجوانوں کی طرف سے زبردست پذیرائی ملی ہے، اس تحریک کا واحد مقصد عوام کے لیے ریلیف حاصل کرنا ہے۔چند خاندانوں پر مشتمل مٹھی بھرحکمران اشرافیہ مفادات کی ایک ڈوری سے بندھی ہے، حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں، ایک دوسرے کومدد اور تحفظ فراہم کرتی ہے،جبکہ عوام کے پاس ظلم سہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ جماعت اسلامی نے عوام کو متحد کرکے اس مافیا کے سامنے کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے،جب لوگ اٹھ کھڑے ہوں تو کوئی ان کے سامنے ٹک نہیں سکتا۔ بنگلہ دیش میں جب عوام اور نوجوان اپنے حق کے لیے نکلے تو 16 سال سے اقتدار پر قابض حسینہ واجد کے پاس فرار ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا، اور اس کا سرپرست بھارت بھی تمام تر کوشش کے باوجوداسے نہ بچا سکا۔ جماعت اسلامی اورعوام کا اتحاد رنگ لائے گا،حکمران اشرافیہ کو حق دینا پڑے گا یا رخصت ہونا پڑے گا، اس کے سوا کوئی راستہ اور حل ان کے پاس نہیں ہے،بجلی کے بلوں میں کمی، آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی،پیٹرول پر لیوی اور ٹیکسزمیں کمی، تنخواہوں پر اضافی ٹیکس، برآمدات اور صنعت و تجارت پر ناجائزٹیکس کی واپسی، جاگیرداروں پر ٹیکس کا نفاذ، ارکان اسمبلی، فوجی افسران، ججز اور سرکاری اداروں کی لگژری گاڑیوں، مفت پیٹرول، بجلی کا خاتمہ، حق دو تحریک کے یہ مطالبات ہر شہری کے دل کی آواز ہیں۔ قوم مزید مہنگی بجلی اور آئی پی پیز کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔تنخواہ دار طبقہ اورتاجر زبردستی کا ٹیکس ادا نہیں کر سکتے۔ ریاستی سطح پر یہ معاشی دہشت گردی بند کرنی پڑے گی۔ حکمرانوں کو اپنی عیاشیاں ختم اور مراعات کم کرنی ہونی ہوں گی، فری پیٹرول فری بجلی کی سہولت کا خاتمہ کرناہوگا، گاڑیاں چھوٹی کرنی ہوں گی، بڑے بڑے جاگیرداروں پہ ٹیکس لگانا ہوگا،اور ان آئی پی پیز سے قوم کی جان چھڑانی ہوگی جنھیں دو ہزار ارب روپے سے زیادہ اس بجلی کے نام پر دیے جا رہے ہیں جو سرے سے بن ہی نہیں رہی اور بات صرف کیپسٹی پیمنٹ کی نہیں بلکہ انکم ٹیکس میں بھی سینکڑوں ارب روپے کی چھوٹ حاصل کی گئی۔ تنخواہ دار طبقے سے انکم ٹیکس بڑھا چڑھا کر وصول کرنا لیکن آئی پی پیز کو چھوٹ دے دینا، یہ ستم مزید جاری نہیں رہ سکتا۔ تماشا یہ ہے کہ 2018 تک تو یہ بات ریکارڈ پر آ جاتی تھی کہ آئی پی پیز کو انکم ٹیکس میں کتنی رقم کی چھوٹ ملی، اس کے بعد تو ان اعداد وشمار پر بھی پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ حکومت کا تو پہلے کہنا تھا کہ آئی پی پیز سے سرے سے کوئی بات ہی نہیں ہو سکتی مگر مسلسل عوامی دباؤ کے بعد نہ صرف بات چیت ہو رہی ہے، بلکہ کچھ آئی پی پیز نے پاکستانی روپے میں پیمنٹ وصول کرنے اور ریٹ کم کرنے کا اعلان کیا ہے، باقی آئی پی پیز کو بھی سامنے آنا اور قوم کا ساتھ دینا چاہیے، وہ یہ کریں گے تو پھر بیرونی کمپنیوں سے بھی بات ہو سکے گی۔عوامی حقوق کی بازیابی کی اس جدوجہد کو ہر صورت آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں اپنی ذات اورپارٹی کے لیے کچھ نہیں چاہیے، کوئی الیکشن سر پر نہیں کہ سیاسی فائدہ کا الزام دھرا جائے، نہ یہ سیٹوں، وزارتوں اور عہدوں کا معاملہ ہے،پرامن آئینی، قانونی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے عوام کو ریلیف دلانا ہی اولین ترجیح ہے۔دھرنے کے بعدمعاہدے پر عملدرآمد کے لیے حکومت کے پاس 45 دن ہیں، اس دوران ہم ایک دن بھی گھر نہیں بیٹھے، مسلسل جلسے اور احتجاج کر رہے ہیں، ملک گیر تاریخی ہڑتال بھی ہوئی ہے، اگر حکومت معاہدے پر عمل نہیں کرے گی تو کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ، ڈی چوک پر دھرنا،مزید ہڑتالیں اور ملک گیر احتجاج سمیت سارے آپشن موجود ہیں۔حکمران مسائل حل کریں اور عوام کو ریلیف دیں۔ایسا نہ ہو کہ پھر عوامی حقوق کی یہ تحریک حکومت گراؤ تحریک میں تبدیل ہو جائے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے جو اختیارات پارلیمنٹ نے کم کئے تھے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ متعارف کرایا تھا، ان پر ایک بار پھر نظرثانی کر دی گئی ہے۔ ایک صدارتی آرڈیننس نے مذکورہ ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے چیف جسٹس کو ان کا کھویا ہوا اختیار واپس کر دیا ہے۔ پاکستانی سیاست، عدالت اور تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ یہاں جب بھی کسی کو موقع ملا ہے، اس نے اپنی حدود سے تجاوز کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھا ہے۔ پاکستان کا کوئی ادارہ بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے ہمیشہ آئینی حدود و قیود میں رہ کر کام کیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے تو مارشل لاء نافذ کرنے کے کچھ ہی عرصہ بعد ”تہران ٹائمز“ کو انٹرویو دیتے ہوئے برملا کہہ دیا تھا کہ آئین کیا ہے، کاغذ کا ایک ٹکڑاگویا یہ ان کے راستے کی دیوار نہیں بن سکتا۔ اس وقت میرے زیر ادارت شائع ہونے والے ہفت روزے کا نام ”بادبان“ تھا، اس کے اداریے میں اس بیان پر سخت تنقید کی گئی تھی اور واضح کیا گیا تھا کہ آئین کاغذ کا ٹکڑا نہیں، ایک مقدس دستاویز ہے۔ یہ گرفت تاریخ کا حصہ ہے اور جب بھی اس کی یاد آتی ہے، میرا سر شکر سے اپنے رب کے حضور جھک جاتا ہے کہ اس نے انتہائی مشکل حالات میں اظہارِ رائے کی جرائت عطا کی۔ پاکستانی ریاست آئین سے کھلواڑ کا سخت نقصان اٹھا چکی ہے۔ اگر 1956ء کا دستور منسوخ نہ ہوتا تو پاکستانی ریاست کو 1972ء کا صدمہ برداشت نہ کرنا پڑتا۔ صدر پاکستان میجر جنرل سکندر مرزا نے اپنے آرمی چیف کے ساتھ مل کر دستور کو منسوخ کر ڈالا اور 9سال کی محنت شاقہ کے بعد ترتیب پانے والی اس دستاویز سے ملک کو محروم کر دیا، جسے ڈھاکہ سے کراچی اور پشاور تک تسلیم کیا جا چکا تھا۔ نتیجتاً صدر سکندر مرزا سب سے پہلے نشان عبرت بنا ڈالے گئے۔ ان کی طاقت کا سرچشمہ دستور کے اندر سے پھوٹتا تھا، جب دستور ہی نہ رہا تو وہ مشتِ خاک بن کر رہ گئے، جنہیں فوجی افسران نے چٹکیوں میں اڑا دیا۔ جنرل ایوب خان نے ملک کو ایک نیا آئین دیا جو ان کی ذات کے گرد گھومتا تھا۔ سیاسی جماعتوں کی بھاری تعداد نے اسے تسلیم نہ کیا اور اس کے خلاف مورچہ زن ہو گئیں۔ ایک دن ایسا آیا کہ ایوب خان جو فیلڈ مارشل بن چکے تھے، فیلڈ چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ ان کے نامزد کردہ کمانڈر انچیف نے ان کے ساتھ وہی کیا جو انہوں نے اپنے باس (صدر سکندر مرزا)کے ساتھ کیا تھا۔ ان کے اقتدارکا پشتیبان بننے سے انکاری ہو گئے تو فیلڈ مارشل نے اپنا تھوکا خود چاٹا، یعنی اپنے نافذ کردہ دستور کو منسوخ کرتے ہوئے جنرل یحییٰ خان کو اقتدار سونپ دیا۔ جنرل یحییٰ نے 1956ء کے آئین کی بحالی کے مطالبے پر کوئی توجہ نہ دی اور قوم کو پھر آئین سازی کے بخار میں مبتلا کر دیا۔نفرتوں اور کدوتوں کے سانچے میں ڈھلنے والے سیاسی رہنما کسی دستوری سکیم پر متفق نہ ہو سکے، نتیجتاً وہ کچھ ہوا جو ہماری تاریخ کا ایک انتہائی المناک باب ہے۔ بھارت کو فوجی مداخلت کا موقع ملا اور اس نے عوامی لیگ کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش تخلیق کر ڈالا…… آج کا بنگلہ دیش اگرچہ تاریخ کو درست کرنے میں لگا ہوا ہے، وہاں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کی خواہش زور پکڑ رہی ہے لیکن یہ تفصیل پھر کسی وقت بیان کی جائے گی، فی الحال یہ توجہ دلانا مقصود ہے کہ اگر پاک سرزمین کو بے آئین نہ بنایا جاتاتو ہمیں 16دسمبر کا مکروہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔
مغربی پاکستان کے چار صوبوں نے اپنے آپ کو ’نیاکستان‘کا نام دیا اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے زیر قیادت 1973ء کا وہ دستور تخلیق کیا، جو آج بھی نافذ العمل ہے۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاؤں کو جسے منسوخ کرنے کی جرأت نہیں ہو سکی، وہ اسے معطل کرتے رہے، اس میں من مانی ترامیم بھی کر گزرے، لیکن ان کا کیا دھرابالآخر پارلیمنٹ کی منظوری کا محتاج ٹھہرا، گویا زخموں پر مرہم لگا دی گئی۔
اب جو دستور ہمارے سامنے ہے اس میں ترامیم کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ سے الگ ایک وفاقی آئینی عدالت تخلیق کرنے کا دعویٰ ہے جو آئینی امور سے متعلق مقدمات سُنے گی، سپریم کورٹ فوجداری اور سول مقدمات کی اپیلوں کے لئے مختص ہوگی۔ کہا جا رہا ہے کہ ایسی وفاقی عدالتیں دنیا کے کئی ممالک میں قائم ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ اٹھارہ برس پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب نوازشریف نے جس ”میثاق جمہوریت“ پر دستخط کئے تھے، اس میں اس عدالت کی تشکیل پر اتفاق کیا گیا تھا۔ بعد ازاں کئی دوسری سیاسی جماعتیں بھی اس کی تائید کرتی رہیں، بلاول بھٹو زرداری اس موقف کی پُرزور وکالت کررہے ہیں، اصولاً ان سے اختلاف کرنے والے کم ہیں، لیکن اس موضوع پر وسیع تر اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ آئین کسی ایک سیاسی جماعت یا حکومت کے لئے نہیں ہوتا،یہ ایک ابدی دستاویز ہے، اس لئے بلاسوچے سمجھے اس سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جانی چاہیے۔ بات پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے شروع ہوئی تھی، اس لئے اس پر واپس چلتے ہیں۔چند ماہ کے اندر ہی حکومت کو اس میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہوئی، چیف جسٹس سے بینچ بنانے کا جو اختیار واپس لے کر ان کی سربراہی میں قائم ججوں کی کمیٹی کو دیا گیا تھا، اسے لوٹانا پڑ گیا۔تین رکنی کمیٹی میں چیف جسٹس کے ساتھ سینئر ترین جج تو شامل رہیں گے لیکن تیسرا رکن وہ اپنی مرضی کے مطابق نامزد کر سکیں گے۔پارلیمنٹ کی سادہ اکثریت اسے منظور بھی کرلے گی یا ہو سکتا ہے کہ اسے اپنی موت آپ مرنے دیا جائے، پارلیمنٹ میں پیش ہی نہ ہو اور یوں کتاب قانون سے چلتا ہو جائے کہ نئے چیف جسٹس کو یہ سہولت فراہم کرنا ضروری نہ سمجھا جائے…… بہرحال یہ سب بعد کی باتیں ہیں، فی الحال یہ عرض کرنا مطلوب ہے کہ دستور میں عام قانون کی طرح ترمیم یا تبدیلی نہیں کی جا سکتی، اگر موجودہ حکومت اپنے ہی نافذ کردہ ایک قانون میں چند ماہ کے اندر تبدیلی کرنے پر مجبور ہو گئی ہے، تو اندھا دھند کی جانے والی دستوری ترامیم بھی مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں …… جماعتی یا حکومتی مصلحتوں یا ضرورتوں سے بالا تر ہو کر سوچنے ہی سے قومیں توانا ہوتی اور آگے بڑھ سکتی ہیں۔ 1973ء کا دستور خود اس پر گواہ ہے، اس کی تخلیق کرنے والے جذبہ سلامت رہا تو سب سلامت رہیں گے ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
]یہ کالم روزنامہ ”پاکستان“ اور روزنامہ ”دنیا“ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔[