رات کے آخری پہر ”وسل“ بجنے کی بڑی دیر تک آواز آتی رہی،نیند نے اٹھنے نہ دیا، جسموں سے جان ہی نکل گئی تھی یہ حماقت جان لیوا بھی ہو سکتی تھی

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:148
رات کے آخری پہر ”وسل“ بجنے کی بڑی دیر تک آواز آتی رہی۔ خیر نیند نے اٹھنے نہ دیا۔ صبح اٹھے تو ہوسٹل کے چوکیدار سے پوچھا؛”یہ رات سیٹھی کی آواز کیسی تھی۔“جواب دیا؛”جناب!رات بلا(یہ لوگ برفانی چیتے کو مقامی طور پر بلا کہتے تھے)نیچے آ گیا تھا۔ ہم لوگوں کو آگاہ کر رہے تھے کہ ہوشیار رہیں۔مگر صاحب آپ تو گہری نیند سوتے رہے تھے۔“ اس کی بات سن کے ہمارے جسموں سے جان ہی نکل گئی تھی۔ہماری حماقت جان لیوا بھی ہو سکتی تھی۔ ویسے حماقت اور دلیری میں بال برابر ہی فرق ہوتا ہے۔
جھیل سیف الموک؛
اگلے روز ہم جھیل سیف الموک پہنچے۔ راستے میں گلئشیر سے گزرتے جیپ پھنسی تو اتر کر دھکا لگانا پڑا تھا۔ برفیلے پانی میں پاؤں یخ ہو گئے تھے۔ شعیب ٹریکنگ کرتااس جگہ سے جھیل تک پیدل ہی آ یا تھا۔ دو میل کا پہاڑی راستے پر سفر اُس نے دو گھنٹے میں طے کیا تھا۔ہمت تھی اس کی۔جھیل قدرت کا عجوبہ تھی۔کم سیاح ہی یہاں آتے تھے اور اس کا ارد گرد کا ماحول بہت صاف اور شفا تھا۔ چائے کا ایک کھوکھا اس دور میں سیاحوں کی انر جری بحال کر نے کا واحد ذریعہ تھا۔جیپ والے نے غالباً دو سو روپے کرایا لیا تھا جبکہ یوتھ ہوسٹل میں رات بس کرنے کا کرایہ 30 روپے تھا۔(جھیل کا راستہ آج بھی خراب ہے البتہ جھیل کنارے بہت سے ریسٹورنٹ بن گئے ہیں۔ سیاحوں نے جھیل کے ماحول کو بھی آ لودہ کر دیا ہے البتہ اس جھیل میں اب کشتی رانی ہوتی ہے۔جیپ کا کرایہ 4ہزار تک جا پہنچا ہے۔)
پاؤں میں موچ؛
اگلی شام شعیب کے والد حمید الدین صاحب کے ڈرائیور شیر محمد نے اپنے گھر ہمیں دعوت پر مدعو کیا اور نہایت پر تکلف کھانا کھلایا۔ سر شام ہی اس کے گھر پہنچ گئے تھے جو ناران سے دس کلومیٹر جانب کاغان مگر لب سڑک تھا۔شعیب شیر محمد کے کھیت کے ”بنے“ سے چھلانگ لگاتے پاؤں میں موچ ڈلوا بیٹھا تھا۔ یہ تو بھلا ہو اکبر خاں کا کہ اس نے ”ایوڈیکس“کی مالش سے اس کے پیر کو اس قابل کر دیا تھا کہ واپسی پر وہ چلنے کے کابل ہو گیا تھا۔رات مالش کا ایک اور دور ہوا تو اگلی صبح یہ چل کر لاہور پہنچا تھا۔
گنے کا رس؛
اس دور میں ہم سب کا پسندیدہ مشروب ”گنے کا رس“ تھا۔کھیل کے بعد اس کا ادرک ملا ایک گلاس کھوئی ہوئی ساری توانائی پھر سے بحال کر دیتا تھا اور قیمت تھی ایک روپیہ۔ایک اور من بھاتا مشروب جو صبح کے ناشتے کے ساتھ پیا تے دودھ دہی کی ”لسی“ تھی جسے پڑھے لکھے اور سمجھ دار لو گوں نے ”جام جہالت“ کا نام دے رکھا تھا کہ اسے پیو اور گرمی کے دنوں میں گھوڑے بیچ کر سو جاؤ۔ اس زمانے میں دبلے پتلے لڑکے جسم کو کچھ فربہ کرنے کے لئے اس مشروب کا استعمال کرتے اور جی بھر کر سوتے تھے کہ سن رکھا تھا سونے سے جسم فربہ ہو تا تھا۔ شام کو گیم کھیل کر واپسی پر”چنوں کی بیکری“سے ٹھنڈی بوتل اور چپس کا پیکٹ من پسند تھا۔ایک روز کھیل کر واپس آ رہے تھے کہ شیخو بابا(خرم کو پیار سے میں شیخو کہتا ہوں) سے شرط لگی کہ ایک پاؤنڈ کا کریم کیک کھاؤ اور ساتھ3بوتل پیو۔ شرط5 روپے تھی۔ وہ یہ سب چٹ کر گیا تھا۔ وہ الگ بات ہے کہ اگلے2دن اس کی طبعیت خراب رہی تھی۔یہ حماقتیں تھیں مگر سچی۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔