جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر67
سارامیڈیامنہ تکتا رہ گیا۔ کیونکہ صحافیوں کو اندر داخل نہ ہونے دیا گیا تھا۔ کٹہرے میں کھڑا کرکے میری ہتھکڑی کھول دی گئی۔ جج صاحب اپنی کرسی پر تشریف فرما تھے۔ صبح تھانے میں پروفیسر صاحب کا بھیجا ہوا وکیل مجھ سے وکالت نامے پر دستخط کروا گیا تھا۔ وہ جنگلے کے ساتھ کھڑا تھا۔ جیسے ہی میری نظر اس پر پڑی اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور اشارے سے مجھے حوصلہ دیا۔ اسکے ساتھ ڈسکس کرنے کا موقع مجھے نہیں دیا گیا تھا۔ اس کام میں رکاوٹ ڈی ایس پی نے ڈالی تھی جو سبین کے والد صاحب کا شاگرد تھا اور سبین کو اپنی بہنوں کی طرح چاہتا تھا۔ وہ بھی ایک طرف کھڑا تھا۔ انسپکٹر عادل کی موجودگی سے مجھے کچھ حوصلہ تھا۔ میری نظریں چاروں طرف کالی داس کو تلاش کر رہی تھیں۔ اس نے کہا تھا وہ بروقت عدالت پہنچ جائے گا۔ اگر وہ نہ آسکا تو؟ میرے دل میں یہ خدشہ بہرحال موجود تھا۔ کہیں وہ مجھے دھوکہ تو نہیں دے دے گا؟ مختلف قسم کے دسو سے میرے دل میں چکرا رہے تھے۔ کمرے میں لوگوں کی دبی دبی سرگوشیں گونج رہی تھیں۔ جج صاحب نے ہتھوڑا میز پر مارا۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر66 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’آرڈر۔۔۔آرڈر مقدمے کی کارروائی کا آغاز کیا جائے‘‘ ایک پختہ عمر وکیل اٹھ کر جج کے آگے جھکا اور اپنا تعارف سبین کے وکیل کی حیثیت سے کرواتے ہوئے اجازت چاہی۔ کالی داس ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔ اس نے مجھے کچھ خاص ہدایت نہیں تھی کہ مجھے عدالت میں کیا بیان دینا ہے۔ اس سے پہلے زندگی میں اس قسم کے حالات کا سامنا نہ ہوا تھا مجھے کچھ معلوم نہ تھاکہ کیا کہنا ہے؟ بس لے دے کر وہی ایک کہانی تھی جو میں نے انسپکٹر عادل کو سنائی تھی۔ جج نے ایک سرسری نظر میرے اوپرڈالی پھر چونک گیا۔ بغور میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’اسے کس نے اس بری طرح مارا ہے؟‘‘
میرا وکیل فوراً اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔’’جناب عالی! آپ دیکھ رہے ہیں کہ کس بری طرح میری موکل کو زدوکوب کیا گیا۔ ابھی تو اس کا جرم ثابت نہیں ہوا اس کے باوجود اس اسے کس بری طرح تشدد کانشانہ بنایا گیا ہے۔ یورآنر! درندگی کی انتہا ہے کہ میرے موکل کو ادھوموا کرکے تھانے لے جا کر بند کر دیا گیا‘‘ میرے وکیل نے بڑے مضبوط لہجے میں کہا۔
’’اس کا یہ حال کس نے کیا۔۔۔؟‘‘ جج نے ڈی ایس پی کی طر ف دیکھ کر سوال کیا ۔
’’یور آنر! جس درندگی کا مظاہرہ اس شخص نے کیا ہے جس طرح اس نے ایک معصوم کنواری لڑکی کی عزت لوٹ کر اسے تباہ کر دیا، اس کے مقابلے میں تو اسے کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو اس درندے کو موت کی سزا دیتا‘‘ اس کے لہجے میں میرے لئے زہر بھرا ہوا تھا۔ اسکی بات سن کرجج کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ وہ سخت نظروں سے اسے گھورتے ہوئے بولا۔
’’میرا خیال ہے میں یہ کرسی چھوڑ کر اس پر آپ کو بٹھا دوں کیونکہ آپ کے اندر مجھ سے بہتر فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ کیا قانوناً آپ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ جرم ثابت ہوئے بغیر کسی بھی شخص کو اس طرح تشدد کا نشانہ بنایا جائے؟ کیا آپ کو وردی اسلئے دی گئی ہے کہ انسانوں کی حفاظت کرنے کے بجائے انہیں موت کے منہ میں پہنچا دیں؟‘‘ آہستہ آہستہ جج کا لہجہ تیز ہوتا گیا۔
’’میرا خیال تو یہ ہے کہ آپ اس عہدے کے لائق نہیں ہیں۔ کیوں نہ آپ کو معطل کر دیا جائے یا آپ کی ترقی معکوس کرکے آپ کو دوبارہ تھانے دار بنا دیا جائے۔‘‘ ڈی ایس پی کے الفاظ نے جج کو چراغ کردیاتھا۔
’’جج۔۔۔جنا۔۔۔جناب! میں معافی چاہتا ہوں دراصل جس لڑکی پر اس درندے نے ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں وہ میری منہ بولی بہن ہے‘‘ وہ اپنی چوکڑی بھول گیا۔
’’جس وقت ملزم اس لڑکی کی عزت رہا تھا آپ وہاں موجود تھے؟ کیا آپ نے اسے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا ہے؟‘‘ جج نے سخت لہجے میں پوچھا۔
’’نن۔۔۔نہیں جناب! لیکن میرا تجربہ کہتا ہے یہ واقعی مجرم ہے‘‘ وہ بری طرح بدحواس ہوگیا تھا۔
’’اگر آپ کا تجربہ اتنا وسیع ہے تو آپ واقعی میری اس سیٹ کے حقدار ہیں‘‘ جج کے طنزیہ لہجے سے اس کا چہرہ خفت سے سرخ ہوگیا۔
’’آئندہ خیال رہے یہ عدالت ہے اس قسم کے الفاظ بولنے سے پرہیز کریں درندے کی اصطلاح آپ نے ملزم کے لئے کیوں استعمال کی جبکہ آپ نے اسے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘‘ جج نے اسے ایک بار پھر لتاڑا۔
’’کیسے کیسے نکمے اور جاہل لوگ پولیس میں بھرتی ہو کر آجاتے ہیں‘‘ اس کی واضح بڑبڑاہٹ سنائی دی۔ ڈی ایس پی پیچ و تاپ کھا رہا تھا لیکن ظاہر ہے کچھ کر نہ سکتا تھا یہ عدالت تھی۔۔۔تھانہ نہیں ایک منٹ میں اسکی وردی اتر سکتی تھی۔ اچانک جج کے پیچھے کالی داس نمودارہوا۔ اسے دیکھ کر میں نے اطمینان کی سانس لی۔ ظاہر ہے وہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھا ورنہ اسے وہاں کون ٹھہرنے دیتا۔ وہ جج کی کرسی کے پیچھے بالکل خاموش کھڑا تھا۔ حسب معمول اس نے ایک دھوتی لنگوٹی کی صورت میں باندھ رکھی تھی۔ سامنے والی کرسیوں کی قطار میں ڈی ایس پی عمرحیات، ساجدا ور میرے دیگر محلے دار بیٹھے تھے۔ میرے وکیل نے جج سے گواہوں سے سوال پوچھنے کی اجازت چاہی جج نے سر ہلا کراجازت دے دی۔سب سے پہلے اس نے میرے پہلے قریبی ہمسائے کوکٹہرے میں بلایا۔ اس نے سچ بولنے کا حلف اٹھایا۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد میں یقین سے تونہیں کہہ سکتا۔ غالباً میرے وکیل کانام امجدصدیقی تھا۔ وہ ایک معمر اور تجربہ کاروکیل تھا۔ اس نے غور سے میرے ہمسائے کودیکھا۔
’’آپ کانام؟‘‘ اس کی بھاری آواز کمرہ عدالت میں گونجی جہاں سکوت مرگ طاری تھا۔
’’محمد اسلم‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’کیاکام کرتے ہیں؟ میرا مطلب ہے آپ کاذریعہ معاش کیا ہے؟‘‘ وکیل نے دوسرا سوال کیا۔
’’میں امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس کرتاہوں؟‘‘
’’عدالت کو مختصر الفاظ میں بتائیے کہ آپ نے میرے مؤکل فاروق خان کو کس حالت میں دیکھا جب آپ وہاں پہنچے۔ ساتھ میں یہ بھی واضح کیجئے کہ آپ کو کس طرح معلوم ہوا کہ میرا موکل اس وقت کسی لڑکی کی عزت لوٹ رہا ہے؟‘‘
کالی داس نے اسلم کی طرف منہ کرکے پھونک ماری۔
’’جناب! میں نے سچ بولنے کی قسم کھائی ہے اس لئے مزید جھوٹ نہیں بول سکتا۔‘‘ اسلم کی بات نے سب کوچونکا دیا۔
’’میں نے کچھ نہیں دیکھا ۔مجھے تو عمر حیات صاحب نے کہا تھا کہ فاروق ایک لڑکی کی عزت لوٹ رہاتھاکہ ہم نے اسے موقع پر پکڑ لیا۔ تم نے کل عدالت میں گواہی دینا ہے کہ تم نے ایسا ہوتے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ جناب! میں نے تو اپنی آنکھوں سے کچھ نہیں دیکھا ۔پھر میں کیسے کہہ سکتاہوں؟‘‘ اس پرانہوں نے مجھے دھمکی دی اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تم پر کوئی الزام لگا کر تمہیں تھانے بند کروا دوں گا ۔میری بڑی پہنچ ہے۔ علاقے کا ایس پی میرا دوست ہے۔ جناب میں سیدھا سادہ بزنس مین ہوں ۔ان الجھنوں میں نہیں پڑنا چاہتا لیکن چونکہ ہمارے معاشرے میں پولیس کے اختیارات کوسبھی جانتے ہیں اس لئے میں چلا آیا۔ لیکن جب یہاں آکر میں نے قسم کھائی تو میرے ضمیرنے مجھے اجازت نہ دی کہ میں جھوٹ بولوں ‘‘ اتناکہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔
’’کیا بکواس کر رہے ہو اسلم؟ جب ہم فاروق کے بیڈ روم میں داخل ہوئے تو کیا تم میرے ساتھ موجود نہ تھے؟‘‘عمر حیات حلق کے بل چیخا۔ اسے گمان ہی نہ تھا اسلم اس طرح جھوٹ بولے گا۔
’’آرڈر۔۔۔آرڈر۔۔۔مسٹر اس بات کو دھیان میں رکھو یہ کمرہ عدالت ہے۔ اگر اب تم نے اخلاق سے گری ہوئی کوئی بات کہی تو میں تمہیں توہین عدالت کے جرم میں سزا دوں گا‘‘ جج نے برہمی سے کہا۔
’’سر! یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے اس نے خود اپنی آنکھوں سے سب کچھ ہوتے دیکھا تھا۔ اسکے علاوہ یہ سب لوگ(اس نے اپنے دائیں بائیں بیٹھے افراد کی طرف اشارہ کیا) بھی اس بات کے گواہ ہیں۔ اس نے احتجاج جاری رکھا۔
’’ان کی باری آنے پر ان سے بھی پوچھا جائے گا۔ فی الحال آپ خاموش رہیں‘‘ جج نے اس کو جھڑک دیا۔ لوگوں کے منہ حیرت سے کھلے ہوئے تھے۔ حتیٰ کہ میرے وکیل کی آنکھوں میں بھی حیرت تھی۔ گواہ منحرف ہونا اس کے لئے کوئی نئی بات نہ تھی لیکن جس اطمینان سے اسلم نے عمر حیات کی بات کو جھٹلایا تھا وہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔
’’مجھے کچھ اورنہیں پوچھنا جناب عالی‘‘ میرے وکیل نے سرکو خم کرکے کہا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
’’آپ گواہ سے کوئی سوال کرنا چاہتے ہیں؟‘‘ جج نے سبین کے وکیل سے پوچھا۔
’’نہیں جناب‘‘ اس کالہجہ شکست خوردہ تھا۔
جج صاحب نے میرے وکیل کو باقی گواہان پر جرح کرنے کی اجازت دے دی۔ وہ باری باری گواہان کو بلاتا گیا سب نے ہی ایک جیسا بیان دیا کہ ڈی ایس پی نے انہیں دھمکایا تھا کہ اس کے کہنے پر گواہی نہ دو گے تو تم لوگوں کو تھانے میں بند کروا دوں گا۔ عمرحیات کی حالت دیدنی تھی۔ حیرت، غصے اور بے چارگی کی تصویر بنا وہ سیٹ پرپہلو بدل رہا تھا۔(جاری ہے)
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر68 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں