کریم آباد اور ماسٹر عبداللہ کی یاد
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:167
واپسی پر دوبارہ قلعے میں گئے جہاں اب سناٹا تھا۔ قلعے کے انچارج شیر باز کلیم صا حب سے ملا قات ہوئی (شیر باز کلیم داور منعیم کے بڑے بھائی تھے)۔ ان کے ساتھ وہی لمبی مو نچھوں والے دبلے صا حب تھے جو دوپہر کے وقت قلعے کی چھت پر ہری پٹیوں والا چوغہ پہنے پھر رہے رہے تھے۔یہ اعجاز اللہ بیگ تھے۔ قلعے کے کیوریٹر۔دونوں حضرات بہت اخلاق سے پیش آئے اور ان کے ساتھ قلعے کے کیفے میں چائے کی میز پر لمبی باتیں ہوئیں۔دونوں ہنزہ کی تاریخ اور ثقافت کا انسائیکلو پیڈیا تھے۔
بازار کی طرف لو ٹتے ہوئے استاد گوہر اپنے ڈھول کے ساتھ دکھائی دیا۔ میںنے اس سے ہاتھ ملایا اور اس کی تعریف کی لیکن اس نے کوئی خاص خوشی ظاہر نہیں کی۔ یا تو وہ اس تعریف کا عادی تھا یا شاید خالی تعریف زندگی کا بوجھ اٹھانے کے لیے ناکافی تھی۔ اب نہ وہ دربار رہے تھے نہ میر اور راجے جہاں ایسے فن کاروں کو پذیرائی ملتی تھی اور وہ آسودگی سے زندگی گزار لیتے تھے۔
ایام ِ صحا فت میںجن دنوں مَیں روزنامہ” پاکستان “سے وابستہ تھاایک دن موسیقارماسٹر عبداللہ استقبالیہ پرکھڑ ے نظر آئے۔ ایک زمانے میں فلم انڈسٹری میں ماسٹر عبداللہ کا طوطی بولتا تھا لیکن جو موسیقی ماسٹر عبد اللہ دیتے تھے اب اس کا زمانہ گزر چکا تھا۔ وہ اپنی لازوال دھنوں کے ساتھ خود بھی فراموش اور گزشتہ ہو چکے تھے۔ اب فلم انڈسٹری میں کوئی انھیں جھوٹوں بھی نہیں پو چھتا تھا۔ انھیں چائے کا ایک کپ پینے کے لیے بھی اوروں کی طرف دیکھنا پڑتا تھا۔ جن دنوں میری ان سے ملاقات رہی ان دنوں ماسٹر عبد اللہ نے مدت بعد غا لبا ًپنجابی فلم ”اچھا شوکر والا“کی موسیقی دی تھی اور طاہر میر سے ملنے اکثر اخبار کے دفتر آ تے رہتے تھے جو فلم و فن کے شعبے کا انچارج تھا۔ اس روز وہ کئی دن بعد اخبار کے دفتر آئے تھے اور جانے کب سے استقبالیہ پر کھڑے اندر جانے کی اجازت کے منتظر تھے۔ طاہر میر شاید دفتر میں نہیں تھا اور استقبالیہ پر موجود نئی نسل کا لڑکا انھیں جانتا نہیں تھااس لیے اس نے انھیں کرسی پر بیٹھنے کو بھی نہیں کہا تھا۔ اس کی نظر میں ماسٹر عبداللہ بھی ان لا تعداد لوگوں میں سے ایک تھاجو روز اخبار میں کسی نہ کسی ضرورت سے آیا کرتے تھے۔ میں نے ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے اخلاقاً کہا،”ماسٹر صا حب بڑے دن بعد زیارت ہوئی ہے۔“
ما سٹر صا حب کے کپڑے میلے، سانولے چہرے پر بے زاری اور ماتھے پر گرمی کی وجہ سے پسینا آیا ہوا تھا۔ انھوں نے انگلی سے پسینا پونچھتے ہوئے کچھ بے دلی اور بہت بے زاری سے کہا،”ہاں جی اب زیارت ہی زیارت رہ گئی ہے، نذرانہ کوئی نہیں ہے۔“
نا قدری اور غربت نے انھیں مردم بے زار، لا چار اوربھکاری بنا دیا تھا۔ وہ تعریف سے زیادہ پیسوں کے ضرورت مند تھے اور مونھ سے مانگنے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے تھے۔ ہمارے اکثر فن کار اسی انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ کیوں ہوتے ہیں؟ اس کی الگ وجہ ہے۔ اس دن کریم آباد میں ماسٹر گوہر کو دیکھ کر پتا نہیں مجھے ماسٹر عبداللہ کی یاد کیوں آ ئی!
جاپان چوک کے ساتھ ہی ایف جی بوائز ماڈل ہائی سکول کے قریب میدان میں مقامی لڑکوں کا ایک گروہ بینڈ بجانے کی مشق کر ہا تھا۔ سبز وردی میں ملبوس ، قلعہ بلتیت کا محافظ صلاح الدین اپنی بھاری بھرکم مونچھوںکے ساتھ بینڈ ماسٹر والا لمبا عصا گھماتے ہوئے، انہیں سکھا رہا تھا۔ صلاح الدین بہت چھوٹا اور دبلا تھا اور مونچھیں اس کی ضرورت سے بہت زیادہ بڑی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ اس نے مو نچھیں نہیں رکھی ہوئیں بلکہ مو نچھوں نے اسے رکھا ہوا ہے۔ لڑکوں کے پاس بڑے ڈھول،بیگ پائپس، کلارینٹ اور دوسرے آلات ِ موسیقی تھے جنھیں وہ عمدگی سے بجا رہے تھے۔ہم ایک طرف بیٹھ کر کچھ دیر انہیں دیکھتے رہے پھر اٹھ آئے۔
جاپان چوک میں ایک دکان دار سے تازہ چیری خرید کر کھائی گئی۔ ڈبے میں بند اور تازہ چیری میں وہی فرق ہوتا ہے جو زندہ اور مردہ انسان میں ہوتا ہے۔
”کہا جاتا ہے کہ ایک چیری کھانے سے ایک قطرہ خون بنتا ہے ۔“میں نے دوستوں کو بتایا۔
”اگر یہ بات ہے تو میں نے تو تقریباً ڈیڑھ بوتل خون لگوا لیا ہے۔“ سمیع نے چیری کا خالی لفافہ ، جس میں کچھ دیر پہلے ایک کلو کے قریب چیری تھی اور اب اس کے معدے میں منتقل ہو چکی تھی، کوڑے دان میں پھینکتے ہوئے اعلان کیا۔
پورے کریم آباد کی بجلی بند تھی۔لوگ سخت ناراض تھے اور چند دن پہلے ہنزہ کے لوگ مشتعل ہو کر سڑکوں پر نکل آئے تھے جنھیں منتشر کرنے کے لیے پولیس کو مدا خلت کرنا پڑی تھی۔ حالات ِ حا ضرہ کا ذکر چھڑتا تو مسکراتے چہروں پر غصے اور تلخی کا رنگ آ جاتا تھا۔ ہو ٹل پہنچ کر احمد یار خان سے چند غیر ملکی رسالے لیے اور چھت پر بیٹھ کر ورق گردانی کرنے لگا۔
بازار کی رونق دیکھ کر چیمہ اور احمد بہت خوش تھے۔ انھیں بہت سی ملکی و غیر ملکی لڑکیاں اور خواتین نظر آ رہی تھےں اور وہ کہانیوں کے کانے دیو کی طرح” آدم بو ، آدم بو“ یعنی ”شوکت ،شوکت“ پکارتے تھے۔ وہ میرا شمشال والا گناہ اس شرط پر معاف کرنے کو تیار تھے کہ کریم آباد میں قیام کو کم از کم ایک دن مزید بڑھا دیا جائے۔ غیر ملکی لڑکیاں دیکھ کر ان کے چہرے پر مستقل مسکراہٹ، ایک کان سے دوسرے کان تک، کھنچی ہوئی تھی۔ چیمے کا خیال تھا کہ صبح والی کورئین لڑکی اس سے کچھ کچھ متا ثر ہو چکی ہے۔ حا لاں کہ اس سے کوئی لڑکی صرف اسی طرح متا ثر ہو سکتی تھی جس طرح لوگ زلزلے یا سیلاب سے متا ثر ہوتے ہیں۔ (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔