لاتعداد سیاح آ تے ہیں ہنزہ کس کس کو یاد رکھے ۔۔۔۔
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:168
ذرا سستا کر ہم نیچے بازار میں آ گئے۔ یہ ہنزہ میں ہماری آ خری شام تھی۔میں نے بازار کا چکر لگا یا۔ میں مدت سے یہاں آرہا ہوں اور شاید آئندہ بھی آتا رہوں گا۔ ہنزہ میں لاتعداد سیاح آ تے ہیں ہنزہ کس کس کو یاد رکھے لیکن ہنزہ لاکھوں دلوں میں دھڑکتا ہے اور دھڑکتا رہے گا۔خیال کے شبستانوں میں یادوں کے دیپ روشن کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ ہنزہ سے جاتے ہوئے میں ہمیشہ اداس ہوتا ہوں جیسے کوئی گھر چھوڑتے ہوئے اداس ہوتا ہے لیکن دوبارہ آ نے کی امید، ایک بار پھر اس فضا میں سانس لینے کا خیال، یہاں کی زمین پر چلنے کا تصور دل کو تسلی دیتا ہے۔
”اگلی بار آئیں گے تو”چِپُرسن“ چلیں گے۔“ میں نے ندیم اور طاہر سے کہا۔ دونوں نے مسکرا کر تائید میں سر ہلایا۔ ایک بار پھر ہنزہ آنے کا جواز، تقریب بہر ِ ملاقات کا بہانہ۔
رات کا کھاناورلڈ رُوف ہو ٹل میں کھانے کا فیصلہ ہوا۔ ہال خالی تھا، ہمارے علاوہ صرف ایک میز پر تین آدمی کھانا کھا رہے تھے۔ بیرے نے آرڈر لے کر منرل واٹر کی بوتل میز پر رکھ دی۔ میں نے اسے بوتل واپس لے جانے اورعام پانی لانے کو کہا تو بیرے نے ذرا جھک کر سر گوشی کے لہجے میں مجھ سے کہا۔
”سر ہنزہ کا پانی گندہ ہوتا ہے۔“
میں نے حیرانی اور افسوس کے ساتھ پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔اب ہنزہ والے بھی اپنے پانی کو ”گندہ“ کہیں گے! وہ پانی جس کی طاقت اور شفائی خصوصیات کی کہا نیاں دور دیسوں میں مشہور ہیں۔ جس میں گھلے معدنیات کا تذکرہ اور جادوئی اثر سیاّحوں کو یہاں کھینچ لاتا ہے اب وہ پانی محض اس لیے گندہ کہلائے گا تا کہ غیر ملکی کمپنی کا پانی بِکے اور کھانے کے بِل میں چند روپوں کا اضافہ ہوجائے۔ مجھے لگا اس نے ہنزہ کو گالی دی ہے۔
ہنزہ بدل رہا ہے۔۔۔!
”کوئی بات نہیں آپ وہ گندہ پانی ہی لے آئیں۔“ میں نے ذرا غصے سے کہا۔ جس پر بیرے نے بوتل کی جگہ ہنزہ کے گدلے پانی سے بھرا سٹیل کا جگ میز پر لا کر رکھ دیا۔
وہ شاید ہمیں غریب، احمق یا جاہل بل کہ تینوں سمجھا ہوگا۔ اسے علم نہیں تھا کہ ہم آوارہ لوگ، رومان کے مارے مسافر، خیالوں اور خوابوں کی دنیا کے باسی، یہ جو بستی بستی پر بت پربت پھرتے ہیں تو آسائشوں کے لیے نہیں پھرتے۔ یہ جوگ بجوگ کی باتیں ہیں۔ اجنبی بستیوں اور ویرانوں کی خاک جوگی کا مال و منال اور یادوں کی راکھ تن کا چولا۔ مسافر کا اندوختہ بیتے اور بتائے دنوں کی یادیں اور قرطاس پر نقش یاد داشتیں ۔جوگی تھا سو اٹھ گیا آسن رہی بھبھوت۔
کیا ہنزہ بھی کچھ برسوں بعدمری، کالام اور ناران والے انجام سے دوچار ہو گا! بے روح، بے ترتیب ، بد صورت اور جدید تجارتی عمارتوں کا مجموعہ۔ مہنگائی، بد اخلاقی، لوٹ مار، تجارت کا جنون، دولت کی وحشت، افراتفری اور ہیجان۔۔۔! اگر ایسا ہوا تو مجھ ایسے ہنزہ کے عشاق کے دل پر بہت کڑی گزرے گی۔
۔۔۔آو¿ کہ اپنے وطن کو چلیں
صبح اٹھ کر میں نے سامان سمیٹا، رک سیک کی ڈوری کھینچ کر اس کا مونھ بند کیا اور ایک کونے میں رکھ کر نہانے کےلئے غسل خانے میں گھس گیا۔ یہ مسافروں کے کوچ کا دن تھا۔ بہت دن کھلی ہواوں میں اڑنے والے آزاد پنچھی اپنے آشیانوں کی طرف لوٹ رہے تھے۔ بے رنگ، لگی بندھی زندگی کے معمولات کے پنجرے کی طرف جہاں خوشی ہو نہ ہو آب و دانہ کی سہولت تھی۔
بستیاں قریے گھوم چکے اب دشت کو لوٹیں بن کو چلیں
شام ہوئی آوارہ غزالو! آو کہ اپنے وطن کو چلیں
( ابن ِ انشا)
بیگ میں سفر کی دھول میں اٹے میلے کپڑے اور دل میں اَ ن مول اور اَن مِٹ یادوں کا اندوختہ۔ اٹھارہ بیس گھنٹے کاتھکا دینے والا ایک لمبا سفر اور پھر گھر۔
میں طاہر کے ساتھ ”تھریڈ نیٹ ہنزہ“ (Thread Net Hunza) کے سیل پوائنٹ کی طرف چل پڑا۔ ہنزہ کی کوئی سوغات یادوں اور تصویروں کے علاوہ بھی تو ہونی چاہیے۔ تھریڈ نیٹ ہنزہ کا دفتر ڈاک خانے کے پاس ایک چھوٹی سی عمارت میں تھا۔ انچارج صاحب نے ہمیں پہلے چائے پلائی اور اپنے پروگرام سے آ گاہ کیا پھر سارا پراجیکٹ دکھایا جس کا مقصد ہنزہ کی دست کاریوں کو محفوظ کرنا اور دنیا بھر میں متعارف کروانا تھا۔ یہاں ہنزہ کی مشہور خوش رنگ ٹوپیوں اور پٹیوں سے لے کر تیار ملبوسات، زنانہ مردانہ پرس، بیگز، چابیوں کے چھلّے وغیرہ تک سب مہیا تھا۔میں نے کھڈی پر بُنا سفید سوتی کپڑا قمیض کے لیے خریدا اور ہم ہو ٹل لوٹ آئے۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔