بے ربط باتیں اور کالم

بے ربط باتیں اور کالم
 بے ربط باتیں اور کالم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وہی بلوچی محاورہ کہ شف شف نہ کرو سیدھا شفتالو کہو۔افغانوں کو پاکستانی شہریت دینے کا مطالبہ ہو یا پھر وادی گماں میں نئے صوبہ افغانیہ کا خواب۔جی نہیں کہ اچکزئی صاحب نے شف شف کی ہے ،شفتالو کہا ہوتا تو بات کھلتی۔ازل سے ہی قلندروں کا طریق رہا کہ بات کچھ اور ہوتی ہے اور حکایت کچھ اور ٹھہرتی ہے۔ بیان کچھ اور ہوتا ہے اور فرمان کچھ اور ہوتا ہے ۔کہا کچھ جاتا ہے اور سنایا بھی کسی اور کو کچھ جاتا ہے ۔مخیر حضرات کو تو شاید کسی نے بشارت دے دی ہو کہ فاقہ کشی نے روزہ رکھ لیا ہے۔۔۔حاجت مندوں کو پر کسی نے ابھی نوید جانفزانہیں دی کہ مشکل کشائی اب ان کی مہمان ہوگی۔آئینی فکری چوکھٹے کے اندر رہ کر ،مناسب فورم اور معقول وموزوں وقت میں نئے صوبے پر شرح صدرسے ہزا ر کلام روا اور بجا۔افغانوں کو شہریت کی عنایت؟نہیں بابا نہیں اس پر کوئی گفتگو لا یعنی اور باطل بحث کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔


نرالے نہیں ننگے انداز سے چادر کاندھے پر ٹکائے اکیلے محمود اچکزئی کے ملفوظات اور تفردات پر ہی کیا موقوف!مولانا شیرانی کی خبر لیجئے کہ دہن ہی نہیں ،زبان ہی نہیں دماغ تک بگڑنے چلا۔ڈھنگ اور ڈھب سے کسی ننھے منھے فقہی مسائل پر بھی موصوف بات کرنے کی استطا عت نہیں پاتے۔مسخرہ پن ملاحظہ کریں وہ سیاسیات پر لیکچر جھاڑیں اور خاکم بدہن!پاکستان کو پانچ ٹکڑوں میں بٹا دیکھیں تو کتنا عجب لگتا ہے ۔محترم مو صوف کے قائد جمعیت بھی اپنی خان صاحبیت کب روک رکھتے ہیں۔مد ت مدید اور عرصہ بعید بعد بھی انہیں یادآیا کہ ایف سی فرنگی کا کالا قانون ہے ،ہم اسے نہیں مانتے۔ہو گا بھائی مگر:
سچ بتا تجھ پر یہ راز کب کھلا
انکار سے پہلے کہ انکار کے بعد
مفتی محمود کے ہونہار اور زمانہ شناس فرزند ارجمند جب مصرعہ اولیٰ سے مصرعہ ثانی بناتے ہیں تو ایسا لگتا ہے شاید کوئی حشر انگڑائی لے کر جاگ اٹھا ہو۔گاہ گاہ گماں گزرتا ہے کہ خیر نے شر کا ناقوس پھونک دیا ہو اور اپنی ہی صفوں میں کھلبلی اور غنیم کی صفوں میں خوشی سی پھیل گئی ہو۔محترم اچکزئی اور مکرم شیرانی کی عمر بھلا کیا رہی ہو گی؟یہی کوئی ستر کے پیٹے کے اریب قریب ہوں گے۔70سال؟مرحبا!صد آفرین!یہ تو وہ عمر ہے بقول تصوف کے شیخ ناظم حقانی۔۔۔اس عمر میں تو فرشتے بھی قلم اٹھا لیتے ہیں۔کیا ان کے کراماًکاتبین نے بھی قلم اٹھا لیا ہے؟جی نہیں!ایسی کوئی بات نہیں کہ انسان سے ملفوظات اور خرافات تو عمر کے کسی بھی مرحلے میں صادر ہو سکتی ہیں۔آپ فرزند راولپنڈی اور کہانی نویس کے کپتان کو دیکھئے ۔۔۔قلم اٹھانے والی عمرسے پہلے ہی وہ تودل کھول کر ایسی باتیں کہا کئے۔تکلف بر طرف!جتنی دیر میں حکومت کا سچ جوتا پہنتا ہے،اتنی دیر میں قصہ گوؤں کا جھوٹ آدھا ملک گھوم آتا ہے۔


خطا معاف!اس کالم کا یہ اسلوب نہیں کہ بے ربط باتیں گھسیٹ کر پیٹ بھر دیا جائے۔بھائی اگر اچکزئی افغانوں کی شہریت کا بے تکا مطالبہ اور شیرانی اپنی دریدہ دہنی سے پانچ ٹکڑوں کی بات کریں ۔۔۔تو کالموں میں ربط اور ترتیب خاک آئے۔پھولوں میں رنگ، شام میں شفق،فکر میں جدت،نظر میں ندرت،تخیل میں توانائی اور نثر میں رعنائی کیسے اور کیونکر دھر آئے۔جب دماغوں کو اساطیری طرز فکر نے جکڑ رکھا ہو تو پھر بڑے بڑے ذہنوں پر بھی فکری انتشار ،نظری افتراق کے سائے گہرے ہوتے جاتے ہیں۔چلئے بے ربطی اور بے ترتیبی کاازالہ کر کے دیکھتے ہیں۔شیرانی صاحب تو تصوف سے شغف رکھتے ہوں گے لیکن اچکزئی صاحب؟ خیر تصوف کی توکوئی بات نہیں کہ سیاست سازشوں اور عقل مکاشفوں کی زد میں آج سے تھوڑی ہے ۔


عبدالوہاب شیرانی نے ’’ تربیت عشاق ‘‘میں لکھا ۔۔۔’’ بعض اولیا اور صوفیا اس درجے کوپہنچے ہوتے ہیں کہ وہ پوری کائنات کو اس طرح دیکھ سکتے ہیں جیسے کوئی ہتھیلی پر تل دیکھ لیتا ہے ۔اور ہاں وہ جسے چاہیں دکھا بھی دیتے ہیں‘‘۔’’تذکرۃ الرشید‘‘کے مصنف نے رشیداحمد گنگوہی کے بارے میں لکھا۔۔۔’’وہ بسا اوقات صبح کی نماز حرم شریف میں پڑھتے دیکھے گئے جبکہ عملاًوہ گنگوہ میں ہی ہوتے تھے‘‘۔مجدد الف ثانی نے اپنے ’’مکتوبات‘‘میں لکھا۔۔۔’’ حضرت مخدوم قبلہ گاہی نے فرمایا کہ کوئی انہیں مکہ میں دیکھتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ ہم نے انہیں بغداد میں دیکھا حالانکہ وہ اس دوران اپنے گھر سے نکلے ہی نہیں ہوتے‘‘۔بر صغیر میں سنی فکر کے نقیب اورراسخ العقیدگی کی سند سمجھے جانے والے شاہ ولی اللہ نے (فیو ض الحرمین۔الفوزلکبیر)اپنے والد شاہ عبدالرحیم کے حوالے سے لکھا۔۔۔ایک دن جب وہ اپنے کچھ مریدوں کے ساتھ سیر کو نکلے اور تلاش حق کے اس سفر میں عصر کا وقت ہو چلا۔راستے میں نماز کے بعد آپ نے اپنے مریدوں سے پوچھا کہ تم لوگ یہ جدو جہد کس لئے کر رہے ہو؟کس کی تلاش میں سرگرداں ہو ؟کہا جاتا ہے سبھوں نے بیک زبان کہا خدا کی تلاش میں!یہ سن کر شاہ عبدالرحیم اٹھ کھڑے ہو ئے اور فرمایا۔۔۔ میں ہی تو ہوں وہ اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے لوگوں کی جانب مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا دیا۔یہ روحانی و تجارتی لطیفے اپنی جگہ البتہ:
یہ معا ملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر
ابن تیمیہؒ کے فتاوے میں ایک ایسے دہقان کا تذکرہ ملتا ہے جس نے زراعت کی مشقت سے نجات پانے کے لئے تصوف کا لبادہ اوڑھ لیا تھا ۔وہ سلوک کے مرحلے طے کرتے ہوئے مکاشفے یا مشاہدے کی منزل تک پہنچا کہ نہیں۔۔۔قطعیت کے ساتھ اس پر تو کچھ کہنا مشکل ہے ۔ البتہ بقول ابن تیمیہ ؒ اسے سانپ اور بچھو کھانے پر قدرت حاصل ہو گئی تھی۔ واللہ اعلم!

مزید :

کالم -