"اسلام اور سائنس کا دورِ عروج " (حصہ دوم ) 

"اسلام اور سائنس کا دورِ عروج " (حصہ دوم ) 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر :عائشہ نور

دنیا کے پہلے کیمیا دان ہونے کا اعزاز بھی ایک عظیم مسلم سائنسدان " جابر بن حیان " کو حاصل ہے۔ جابر بن حیان کو اسی نسبت سے " بابائے کیمیا " کہاجاتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق جابر بن حیان کی پیدائش 721ءیا731ء کو طوس جبکہ ایک دوسری روایت کے مطابق میں خراسان میں پیدا ہوئے۔ تاریخی حوالہ جات کے مطابق جابر بن حیان ایک عرب قبیلے " ازد " سے تھے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ایک معالج / حکیم بھی تھے۔ جابر بن حیان کی پرورش کوفہ , عراق میں ہوئی تھی ۔ جابربن حیان حضرت امام جعفر صادق ؓ کے شاگردِ رشید تھے ۔ جابر بن حیان کو سائنسی تجربات کا بے حد شوق تھا , اسی شوق اور تجسس کے سبب آپ نے اپنا گھر ایک تجربہ گاہ میں بدل دیا تھا۔ آپ کے تجربات کی بدولت علمِ کیمیا یعنی کیمسٹری کی حقیقی معنوں میں بنیاد پڑی۔ اہلِ مغرب انہیں " Geber " کے نام سے جانتے ہیں - ان کی نادرعلمی تصانیف   میں200 سے زیادہ کتابیں شامل ہیں جن میں مشہور کتابیں :
"کتاب الملک"
"کتاب الرحمه "
"کتاب التجمیع "
"زیبق الشرقی"
کتاب الموازین الصغیر  شامل ہیں۔
جابر بن حیان نے اپنے علمِ کیمیا کی بنیاد اس نظریئے پر رکھی کہ تمام دھاتوں کے اجزائے ترکیبی ’’گندھک ‘‘اور ’’پارہ‘‘ ہیں۔ مختلف حالتوں میں اور مختلف تناسب میں ان دھاتوں کے اجزائے ترکیبی ملنے سے دیگر دھاتیں بن سکتی ہیں۔ ان کے خیال میں دھاتوں میں فرق کی بنیاد اجزائے ترکیبی نہیں بلکہ ان کی حالت اور تناسب تھا۔ لہٰذا معمولی اور سستی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنا ممکن تھا۔ 
جابر بن حیان ’’ قرع النبیق‘‘ نامی ایک آلہ کے بھی موجد تھے جس کے دو حصے تھے۔ ایک حصہ میں کمیائی مادوں کو پکایا جاتا اور مرکب سے اٹھنے والے بخارات کے ذریعہ آلہ کے دوسرے حصہ میں پہنچا کر ٹھنڈا کر لیا جاتا تھا۔ یوں وہ بخارات دوبارہ مائع حالت اختیار کر لیتے، کشیدگی کا یہ عمل کرنے کے لئے آج بھی اس قسم کا آلہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا موجودہ نام ’’ ریٹاٹ‘‘ ہے۔ ایک دفعہ کسی تجربے کے دوران ’’ قرع النبیق‘‘ میں بھورے رنگ کے بخارات اُٹھے اور آلہ کے دوسرے حصہ میں جمع ہو گئے جو تانبے کا بنا ہوا تھا۔ حاصل شدہ مادہ اس قدر تیز تھا کہ دھات گل گئی، جابر نے مادہ کو چاندی کے کٹورے میں ڈالا تو اس میں بھی سوراخ ہوگئے، چمڑے کی تھیلی میں ڈالنے پر بھی یہی نتیجہ نکلا۔ جابر نے مائع کو انگلی سے چھوا تو وہ بھی  جل گئی۔ اس کاٹ دار اور جلانے کی خصوصیت رکھنے والے مائع کو انہوں نے ’’ریزاب‘‘ کا نام دیا۔ جس کو آج ہم تیزاب کہتے ہیں۔ پھر اس تیزاب کو دیگر متعدد دھاتوں پر آزمایا لیکن سونے اور شیشے کے علاوہ سب دھاتیں گل گئیں۔جابر بن حیان مزید تجربات میں جُٹ گئے۔ آخر کار انہوں نے بہت سے کیمیائی مادے مثلاً گندھک کا تیزاب اور ایکوار یجیا بنائے۔ حتیٰ کہ انہوں نے ایک ایسا تیزاب بنایا جس سے سونے کو بھی پگھلانا ممکن تھا۔اس کے علاوہ لوہے کو زنگ سے بچانے کے لئے لوہے پر وارنش کرنے، موم جامہ بنانے، خضاب بنانے کا طریقہ دریافت کیا۔ اس کے علاوہ فولاد کی تیاری، پارچہ بافی ، چرم کی رنگائی اور شیشے کے ٹکڑے کو رنگین بنانا وغیرہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے دھات کا کشتہ بنانے کے عمل میں اصلاحات کیں اور بتایا کہ دھات کا کشتہ بنانے سے ان کا وزن بڑھ جاتا ہے۔ عمل کشید اور تقطیر کا طریقہ بھی جابر کا ایجاد کردہ ہے۔ انہوں نے قلماؤ یعنی کرسٹلائزیشن کا طریقہ اور تین قسم کے نمکیات دریافت کئے۔ انہوں نے دھات کا کشتہ بنانے کے عمل میں اصلاحات کیں اور بتایا کہ دھات کا کشتہ بنانے سے ان کا وزن بڑھ جاتا ہے۔ عمل کشید اور تقطیر کا طریقہ بھی جابر کا ایجاد کردہ ہے۔ انہوں نے قلماؤ یعنی کرسٹلائزیشن کا طریقہ اور تین قسم کے نمکیات دریافت کئے۔ انہوں نے کئی اشیاء کے سلفائڈ بنانے کے بھی طریقے بتائے۔ انہوں نے شورے اور گندھک کے تیزاب جیسی چیز دنیا میں سب سے پہلی بار ایجاد کی۔ جو کہ موجودہ دور میں بھی نہایت اہمیت کی حامل اور سنسنی خیز ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے ’’ قرع النبیق‘‘ کے ذریعے کشید کرنے کا طریقہ بھی دریافت کیا۔  جابر بن حیان کا انتقال 806 یا 815ء کودمشق میں ہوا۔

مزید :

بلاگ -