بے خوف اور دبنگ پولیس آفیسر
وطنِ عزیز پاکستان میں شام وسحر مشکل ترین حالات میں معاشرتی امن وامان کے استحکام کیلئے پولیس کی خدمات ملکی وصوبائی اور علاقائی سطح پر قربانیاں اور جدوجہد روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ہزاروں پولیس ملازمین وافسران فرض کی راہ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں۔ پولیس فورس نے ہر مشکل اور کڑے وقت میں میدانِ کارزار میں فرائض کی ادائیگی نہایت جوانمردی اور تندہی سے کرکے عزم وہمت کی لازوال مثالیں رقم کی ہیں۔ مذہبی تہوار ہوں یا خوشی اور غم کی کیفیت، ہنگامی حالات ہو ں یا منتشر جتھوں سے امن کی فضاء کو محفوظ رکھنا ہو پولیس ہمیشہ اگلے مورچوں پر نظر آتی ہے۔ لاہور میں تعینات ڈی آئی جی آپریشنز محمد فیصل کامران نہایت پروفیشنل، دیانتدار اور کہنہ مشق پولیس آفیسر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں اور نہایت مثالی شہرت کے حامل شخصیت ہیں۔ محکمہ پولیس میں آپریشن کا محکمہ عملی طور پر انتہائی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ پولیس فورس کا مکمل دارومدار آپریشن یونٹ پر ہوتا ہے جس کی بروقت دستیابی ہی امتحانوں سے پار لگاتی ہے۔ دسمبر کی یخ بستہ راتیں ہوں یا جون کی تپتی دوپہریں، محمد فیصل کامران کاماضی ان کے پروفیشنلزم اور ماتحت دوست اقدامات کا شاہد ہے۔ گزشتہ دنوں پنجاب بھر بالخصوص لاہور میں پی ٹی آئی احتجاج کی یلغار نے پَر پھیلائے تو عوام اور خواص سبھی سہمے اور خوف میں مبتلا نظر آرہے تھے۔ ایسے حالات میں بھی پولیس کے جوان گلیوں، محلوں، چوکوں، چوراہوں، ناکوں پر کھڑے ہوکر احتجاجی مظاہرین کے وار اپنے سینے پر جھیلتے ہوئے نظرآئے۔ لاہور شہر جسے کبھی امن کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا پھر اچانک یہاں امن وامان کی صورت حال ایسے خراب ہوئی کہ سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ جو بھی آیا اپنے تئیں امن بحال کرنے کی پوری کوشش کی گئی مگرسب کچھ بالوقتی ثابت ہوا۔ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ لاہور شہر میں تعینات رہنے والے آفیسر اچھی شہرت کے حامل نہیں تھے، سبھی محنتی اوراچھی شہرت کے حامل بھی تھے اور انہوں نے لاہور کا امن بحال کرنے کے لیے اپنا تن من بھی لگایا جرائم کی شرح کو کنٹرول کرنے کے ساتھ نیچے بھی لایا گیا لیکن یہ ضروری نہیں کہ سو فیصدکامیابی آپکے قدمے چومے،کبھی آپ کے دفتر میں موجود سٹاف ہی آپ کی بدنامی اور ناکامی کا باعث بن گیا اور کبھی شہر میں کوئی نہ کوئی پاکٹ ایسی قائم ہو گئی کہ آپ کی کیتی کتائی ساری محنت پر پانی پھر گیا۔کسی نے جرم میں تخفیف کر کے سنگین جرائم میں کمی ثابت کی اور کسی نے مقدمات کا اندراج نہ کرکے جرائم کی شرح کو کنٹرول کرنے کا آسان حل تلاش کیا۔کسی نے کھلی کچہریوں اور سیمینار میں تقریریں کرکے لاہور کو کرپشن سے پاک کرنے کے دعویٰ کیے اور کسی نے اردل روم میں سزائیں دے کر اپنے پاک دامن ہو نے کے ثبوت پیش کرنے کی کوشش کی،کوئی قبضہ مافیا کے خلاف اعلان جنگ کرکے ان کے دوستوں سے گفٹ وصول کرتا رہا اور کسی نے بدمعاشوں کا جینا حرام کرکے مرضی کے نوٹ کمائے جبکہ کوئی سوسائٹی مالکان سے روابط قائم کرکے مستفید ہوتا رہا،کوئی کرپٹ ایس ایچ او کو تعیناتی دے کر ڈائریکٹ فیس وصول کرتا رہا اور کوئی اپنے سٹاف کے ذریعے مرضی کے دیہاڑ لگاتا رہا۔سبھی ہمارے دوستوں کی لسٹ میں شامل ہیں اس لیے نام شائع کرنے مناسب نہیں البتہ حقا ئق کی جانب ایک نظر حال ہی میں ڈی آئی جی آپریشنزکے دفتر سے ایک ایسے انسپکٹر کو نکالا گیا ہے جو عرصہ دراز سے وہاں انتہائی پرکشش سیٹ پر تعینات تھا جو سابق ادوار میں ایس ایچ اوز کی تعیناتی کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔موجودہ ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران نے جب اس کے ریکارڈ کی چھان بین کی تو موصوف کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اس سیٹ پر کروڑوں روپے وصول کر چکا ہے موجودہ سیٹ اپ میں بھی اس نے ایڈجسٹ ہونے کی پوری کوشش کی لیکن فیصل کامران نے اسے شیٹ اپ کال دے کر اپنے آفس سے نکال دیا ہے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس کے خلاف محکمانہ انکوائری بھی عمل میں لائی جارہی ہے۔کوئی ارباب اختیار کے نام پر،کوئی افسران بالا کے نام پر من مانیاں کرتا رہا ایسے دیکھائی دیتا ہے کہ ڈی آئی جی فیصل کامران کواپنے سابق کسی بھی پولیس افسران کی ورکنگ اور رویے سے اتفاق نہیں ہے نہ تو وہ کسی کو جرم میں تخفیف کرنے پر معاف کررہے ہیں الٹا جرم کی تخفیف کے مرتکب متعدد ایس ایچ اوزکو اپنی تعیناتی سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں اور نہ ہی وہ مقدمات کے اندراج میں تاخیر پر کسی کو معافی دے رہے ہیں سنگین جرم تو کیا؟ لڑائی جھگڑے، چیک ڈس آنر سمیت دیگر دفعات کے تحت آنے والی درخواستوں پر فوری کارروائی کا حکم دیا گیا ہے بروقت مقدمات درج نہ کرنے کی پاداش میں بھی کئی ایس ایچ اوز کو تعیناتی سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ سب سے بڑھ کر لاہور کے موسمی ایس ایچ اوز جو ہر دور میں تعیناتی لینے میں کامیاب ہو جاتے تھے بڑے ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود فی الحال تو انہیں کامیابی نہیں مل سکی البتہ آنے والے دنوں میں کوئی دم درود کام کرجائے تو کچھ کہہ نہیں سکتے۔ ان موسمی ایس ایچ اوز کو کسی ایسے شخص کی تلاش ہے جہاں ڈی آئی جی فیصل کامران کسی کے گھر جاکر کھانا کھاتے ہوں،وہ تو اپنے گھر ٹائم پر نہیں جاتا کسی کو کیا خاک ٹائم دے گا یا کسی ایسے ماتحت کی تلاش ہے جو دو نمبر فلم سنانے کا ماہر ہو وہ تو ہر کام کی تصدیق کیے بغیر ایک نمبر فلم سننے کو تیار نہیں، اسے دونمبر فلم سنانے کی ہمت کون کرے گا۔وہ جرائم کی شرح میں مصنوعی نہیں حقیقی کمی لے کر آئے ہیں جب وہ حکومت کی گڈ گورننس کا باعث بنیں گے اس کے آئی جی اور سی سی پی کو اس پر پیار بھی آئے گا اور وہ بھی بے اختیار آئے گا تو اسے کسی سے ڈرنے یا کسی جرنلسٹ سے بلیک میلنگ میں آنے کی کیا ضرورت پڑے گی۔ سوشل میڈیا پر لکھنے کے ماہر کسی جرنلسٹ نے ان کی ایمانداری اور کارکردگی پر شکوک و شبہات کا اظہار کرکے ان کی توجہ اپنی طرف گامذن کرنے کی ناکام کوشش کی ہے لیکن ڈی آئی جی فیصل کامران کا کہنا ہے کہ میں اپنا کیس ہمیشہ اللہ کی عدالت پر چھو ڑتا ہوں۔ مجھے تو معلوم نہیں ہے کہ کسی نے کچھ لکھا ہے۔