اُردنی پائلٹ کو پنجرے میں بند کرکے جلانے کی تصویر دیکھ کر
دنیا بھر کے اخبارات،ٹیلی ویژن اور ذرائع ابلاغ نے یہ درد ناک منظر دیکھا کہ اردن کا ایک نوجوان پائلٹ پنجرے میں بند کرکے شعلوں کی نذر کر دیا گیا، اس کا جرم یہ تھا کہ وہ داعش کے خلاف وطن کی محبت میں جنگ میں شریک تھا، تصویر میں خوبصورت نوجوان کو شعلوں میں جلتے دیکھ کر دل لرز جاتا ہے،جب اس کی ماں، بیوی، بہن، بیٹی نے عملاً اس کو شعلوں کی نذر ہوتے دیکھا ہوگا تو ان کے دل پر کیا گزری ہوگی؟ اسی طرح عراق کے ’’محافظین اسلام‘‘ کے اس اقدام کے جواب میں اردن نے ’’عراقی جاسوسہ‘‘ کو پھانسی دے کر حساب برابر کر دیا ہے۔
دونوں مسلم ممالک ہیں اور دونوں کی گرفت میں آنے والے بھی مسلم ہیں۔ اسلام نے کسی بھی ذی روح کو جلا کر مارنے کی ممانعت کی ہے۔ اسلامی سیاہ جب جہاد پر جاتی تو مسلم کمانڈر انہیں ہدایت کرتے کہ دشمن کی فصلوں، باغات کو جلا کر برباد نہ کیا جائے، بوڑھوں، بچوں اور عورتوں پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے اور اگر دشمن کے سپاہی ہتھیار ڈال دیں تو ان کو بھی قتل نہ کیا جائے، اگر دشمن کی فوج کے سپاہی زخمی حالت میں ہوں تو ان کی جان بچانے کے لئے فوری علاج کیا جائے، تاریخ میں یہ بھی منظر موجود ہیں کہ مسلم فوج کے سپاہیوں نے خود فاقہ کیا اور گرفتاری دینے والے دشمن کے نوجوانوں کو عمدہ کھانا کھلایا، صلاح الدین ایوبیؒ نے جب اپنے دشمن کو گھوڑا اور تلوار فراہم کی تو اس کی اپنی فوج کے جوانوں نے کہا کہ ایسے اخلاق و کردار کے مالک انسان کو شکست نہیں دی جا سکتی۔
اسلام سے پہلے اور اسلام کے سنہری انقلاب کے بعد بھی حرمت کے مہینوں میں مسلم اور غیر مسلم جنگ کو روک دیتے تھے۔گزشتہ چند برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں، وہاں ایسی ’’جنگ بندی‘‘ کا کوئی تصور نہیں۔ غیر مسلم ممالک کو چھوڑ دیجئے، اکثر یہ جنگیں اسلامی ممالک کے درمیان بھڑکائی گئی ہیں، وہاں بھی حرمت کے مہینوں کا کوئی تقدس باقی نہیں رہا۔ عالم اسلام کا یہ المیہ ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں پر مشتمل جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں یا جاری ہیں وہ اسلامی ممالک کے درمیان یا اسلامی ممالک کے اندر باہمی فرقہ وارانہ جنگیں ہیں۔ان جنگوں میں سرحدی تنازعات کے علاوہ مذہبی منافرت بھی باہمی کشمکش کا سبب ہے۔ ستم یہ ہے کہ ان کی پشت پر ’’اخلاقی‘‘ مدد مغربی طاقتیں مہیا کرتی ہیں اور دفاع کے نام پر اپنا اسلحہ بھی یہی اسلحہ ساز ممالک فروخت کرنے کے لئے مہیا کرتی ہیں۔ جب تک یہ ممالک مغربی ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، اس وقت تک لڑنے والے گروہ، جماعتیں یا پریشر گروپ ’’حریت پسند‘‘ ’مجاہد‘‘ یا آزادی کے متوالے کہلاتے ہیں، ان کے لئے شاہی محلات اور صدارتی ایوانوں میں سرخ قالین بچھائے جاتے ہیں، جب مغربی ممالک کے مفادات پورے ہو جاتے ہیں تو یہی ’’مجاہد‘‘ دہشت گرد اور بنیاد پرست کہلاتے ہیں اور ان پر ’’القاعدہ‘‘ طالبان کا ٹھپہ لگ جاتا ہے۔
عراق، ایران جنگ، عراق کا سعودی عرب اور مڈل ایسٹ کی ریاستوں پر حملہ، افغانستان کی خانہ جنگی، عراق کے اندر شیعہ سنی جنگ، عراق اور ایران میں کردوں کی کشمکش اور اب پاکستان کا اندرونی خلفشار، اسی سازش اور کاوش کا نتیجہ ہے۔ اپنی آزادی کے لئے لڑنے والے فلسطینی، کشمیر کی آزادی کے لئے جان کا نذرانہ دینے والے کاشمیری،بنگلہ دیش میں ظلم و ستم کا شکار (بہاری) پاکستانی، آزادی و جمہوریت کا درس دینے والے عالمی چیمپئن کو نظر نہیں آتے!شام کے اندر گزشتہ دو سال سے جاری جنگ، لیبیا کے اندر خانہ جنگی کن قوتوں نے بھڑکائی ہے؟ اب داعش کے ذریعے ظلم و ستم کی نئی لہر کس کی کاوشوں کا حاصل ہے؟ حیرت ہوتی ہے کل تک مالیگاؤں (ویت نام) میں کٹے سر ہاتھوں میں اٹھا کر جمہوریت کے سپہ سالاروں کی فوج کے سپاہی کسی القاعدہ کے رکن نہیں تھے؟ دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرنے والے انسانیت کے ان ’’خادموں‘‘ کا حال یہ ہے کہ برف میں پھنسے ہرن کو نکالنے والے ابو غریب اور گوانتاموبے میں انسانوں کے ستم پر کیسے مطمئن و مسرور ہیں! افغانستان کے پنجروں میں بیمار بندروں، شیروں اور ریچھوں کی حالت زار دیکھ کر یورپ سے ڈاکٹر آئے ،مگر اسی افغان قوم کی معصوم کلیوں کو مسل دیا گیا، یہ تفاوت انسانوں کو پریشان کرتا ہے!