وزیر خزانہ کوبنا بنایا بجٹ ملا ہے؟

     وزیر خزانہ کوبنا بنایا بجٹ ملا ہے؟
     وزیر خزانہ کوبنا بنایا بجٹ ملا ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 یہ بجٹ وزیر خزانہ نے نہیں بنایا، انہیں بھی بنا بنایا ملا ہے۔ آئی ایم ایف نے اس مرتبہ بجٹ بنا کر حکومت کو بتایا ہے کہ پاکستان کی اکانومی میں کس قدر ریونیو پیدا کرنے کی گنجائش ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے نت نئے طریقے بھی بتادیئے گئے ہیں، کہیں ٹیلی کام کمپنیوں کو پولیس مین کا رول دے دیا گیا ہے تو کہیں کلین انرجی کی حکومتی پالیسیوں کی دھجیاں اڑادی گئی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ان رجسٹرڈ لوگوں کورجسٹر کرنے کے لئے بھاری جرمانے تجویز کردیئے گئے ہیں تو تنخواہ دار طبقے سے فی مہینہ کاٹا جانے والے ٹیکس ڈبل کردیا گیا ہے۔ 

ان دنوں سینٹ میں خزانہ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس چل رہے ہیں جس کی صدارت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا کر رہے ہیں۔ ان اجلاسوں میں مختلف پیداواری شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد پیش ہو کر اپنے اپنے سیکٹر پر وفاقی بجٹ میں لگائے جانے والے ٹیکسوں پر عذرداریاں پیش کر رہے ہیں۔ موبائل کمپنیوں کے نمائندوں نے واویلا کیا ہے کہ حکومت نے ایف بی آر کا ٹیکس اکٹھا کرنے کا کام ان کے ذمے لگادیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ پولیس مین کا رول ادا کریں گے کہ ہر موبائل استعمال کرنے والے سے بھاری ٹیکس کاٹ کاٹ کر حکومت کے خزانے میں جمع کروائیں گے۔

ان کے مطابق اس سے ان کے کاروباری مفادات پر کاری ضرب پڑ سکتی ہے کیونکہ لوگ ان سے متنفر ہو جائیں گے اور ایسے متبادل ذرائع کی تلاش کریں گے جو انہیں ٹیکس سے بچت کے طریقے سجھائیں گے، اسی طرح بیٹری پر چلنے والی گاڑیوں کی درآمد پر بھی حکومت نے اس قدر بھاری ڈیوٹی عائد کردی ہے کہ خود وزارت صنعت چیخ اٹھی ہے کہ یہ تو حکومت کی اعلان کردہ کلین انرجی کی پالیسی کی خلاف ورزی کے مترادف ہے جس میں حکومت نے 2021سے 2026تک رعائتی ڈیوٹی پر الیکٹرک وہیکلز امپورٹ کرنے کی اجازت دی تھی تاکہ پاکستان کو کلائمیٹ چینج کے تناظر میں جن خطرات کا سامنا ہے ان سے بچاؤ کا سامان کیا جا سکے۔ اسی طرح ایکسپورٹر حضرات بھی سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں کہ ان کے منافع پر بھاری ٹیکس عائد کردیا گیا ہے اور بجائے اس کے کہ حکومت انہیں سہولیات دے کر پاکستانی ایکسپورٹس میں بڑھاوے کا سامان کرتی، الٹا بچی کھچی ایکسپورٹ کو پوری طرح نچوڑنے کا سامان کردیا گیا ہے جس سے ملک کی ایکسپورٹس بری طرح متاثر ہو سکتی ہیں۔ پہلے ہی پاکستان سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کی مشینیں کباڑیوں کے ذریعے ہانگ کانگ پہنچ رہی ہیں جہاں سے اسے جس ملک میں انڈسٹری وسعت پذیر ہوتی ہے، بیچ دیا جاتا ہے۔ غضب خدا کا یہ ہے کہ افغانستان میں بھی اب تک دو لاکھ سپنڈلزلگ چکے ہیں اور وہ سنٹرل ایشیا سے کپاس لے کر کپڑا سازی کا کام شروع کر چکے ہیں اور پاکستان جو کہ کپاس کی پیداوار میں دنیا کا چوتھا بڑا ملک تھا، ایک ایک کرکے ٹیکسٹائل مشینیں بیچنے پر مجبور ہے۔ 

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے بار بار بتایا جا رہا تھا کہ ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا مگر بجٹ آیا تو ایسا لگا کہ جیسے نکڑ کے دکانداروں کو تو چھیڑا بھی نہیں گیا ہے ، اس سلسلے میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں جب نون لیگ کی انوشے رحمٰن نے سوال اٹھایا کہ نکڑ کی دکانوں کو کیوں ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا گیا جبکہ ان کے علاقے میں ایک کارنر شاپ روزانہ سات لاکھ روپے کا ٹرن اوور رکھتی ہے تو ایف بی آر کے عہدیداران نے کمیٹی کے اراکین کو بتایا کہ ان کے پاس کل ملا کر ایک ہزار ملازمین ہیں جو پورے ملک میں ٹیکس اکٹھا کرنے پر مامور ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں ملک بھر میں ریٹیل کی تیس لاکھ دکانیں ہیں۔ ان کے بقول ایف بی آر کے پاس اتناسٹاف ہی نہیں ہے کہ ریٹیل سیکٹر سے ٹیکس اکٹھا کرنے کا سامان کیا جا سکے۔ 

خیر اب جب کہ ہر طرف سے بجٹ کے حوالے سے شور مچ گیا ہے اور پہلی مرتبہ تنخواہ دار طبقہ بھی انگلیاں دانتوں میں دبائے پھر رہا ہے تو حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث سے پہلے ہی وزیر خزانہ بتاتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ تجاویز کی روشنی میں بجٹ میں ترامیم کی جائیں گی۔ ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ اگر ایسا ہی کرنا ہوتا ہے تو جون کے سخت موسم میں بجٹ پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اسے کسی اچھے موسم میں پیش کردیا کریں تاکہ کم از کم گرمی اور سورج کی حدت کے ستائے پاکستانیوں کو یہ اچھے موسم کی راحت تو نصیب ہو۔ ہر بار ہوتا یہ ہے کہ حکومت جون میں بجٹ کے نام پر لوگوں کے اوسان خطا کرتے ہوئے ان کے جسموں سے روح قبض کرنے کا سامان کرتی ہے اور پھر بجٹ پاس ہونے کے موقع پر دوبارہ سے بھیگی بلی بن کر ساری سختیاں واپس لے لیتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس بار آئی ایم ایف حکومت کو ایسا کرنے دے گی کیونکہ جو کچھ بجلی کی چوری بچانے کے خلاف خیبر پختونخوا میں ہو رہا ہے اسے دیکھ کر تو آئی ایم ایف بھی سوچتی ہوگی کہ اس قوم کو کس طرح ٹیکس ادا کرنے والی، بجلی چوری نہ کرنے والی، ایمانداری کے ساتھ کاروبار کرنے والی قوم بنایاجاسکتا ہے۔ دوسری جانب یہی وہ قوم ہے جو خیراتوں، زکوٰتوں اور صدقوں کے نام پر چیل گوشت سے لے کر داتا دربار کے گردا گرد پکنے والی دیگوں کے منہ پر منہ کھولتی پائی جاتی ہے جسے دیکھ کر آئی ایم ایف کی رال ٹپکتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اس قوم کے جیبوں سے ٹیکس کے نام پر بہت کچھ نکالا جا سکتا ہے مگر جب اس پر عمل درآمد شروع ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں اس سے بڑھ کر بھکاری قوم اور کوئی نہیں!

  

مزید :

رائے -کالم -