تفہیم اقبال: شکوہ جواب شکوہ (1)

تفہیم اقبال: شکوہ جواب شکوہ (1)
تفہیم اقبال: شکوہ جواب شکوہ (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پس منظر
علامہ اقبال کی بہت سی اردو اور فارسی زبان کی نظمیں ان کی شاہکار نظمیں کہلاتی ہیں۔ ’’شکوہ، جواب شکوہ‘‘ بھی اردو میں ان کی اولین شاہکار نظم ہے جو ان کے پہلے اردو مجموعہ ء کلام ’’بانگ درا‘‘ میں شامل ہے۔


یہ دراصل دو الگ الگ نظمیں ہیں۔ پہلی نظم کا عنوان ’’شکوہ‘‘ ہے اور دوسری کا ’’جوابِ شکوہ‘‘ ہے۔ شکوہ 1909ء میں منظر عام پر آئی جو اسی سال اپریل میں انجمنِ حمائتِ اسلام کے سالانہ جلسے میں پڑھی گئی۔

جب انہوں نے نظم پڑھنے کا آغاز کیا تو حاضرین کی طرف سے ’’ترنم، ترنم‘‘ کی آوازیں ابھریں جس پر اقبال نے کہا کہ اس نظم کا موضوع اور آہنگ چونکہ عربی بحر میں ہے اور بہت سنجیدہ ہے اس لئے بہتر ہوگا کہ میں اسے تحت اللفظ ہی پڑھوں۔ یہ سن کر لوگ ہمہ تن گوش ہو گئے۔


یہ نظم مسدس ہے یعنی اس میں چھ مصرعے ہیں۔ پہلے چار مصرعوں کی ردیف ایک ہے لیکن قافیئے مختلف ہیں جبکہ آخری دو مصرعے مختلف ردیف اور قافیوں میں کہے گئے ہیں۔ اس نظم کے 31بند ہیں یعنی کل ملا کر 93اشعار (93=3x31) بنتے ہیں۔

فنِ شاعری کے اعتبار سے اس قسم کی بحر، ردیف اور قافیے میں کہے گئے پہلے چار مصرعے اگر یکساں ہیں تو ان کو الف یا Aفرض کر لیا جاتا ہے اور آخری دو مصرعے اگر الگ ردیف قافیوں میں ہوں تو ان کو ب یا B کہا جاتا ہے۔ اس طرح اس مسدس کی رائم سکیم ’’AAAABB‘‘ یا اردو میں ’’الف الف الف الف ب ب‘‘ ہوگی۔


اقبال تین برس تک (1905ء تا 1908ء) یورپ میں مقیم رہے۔ یعنی 28برس کی عمر میں تشریف لے گئے تھے اور 31برس کی عمر تھی جب واپس ہندوستان آئے۔ ان تین برسوں نے شاعر مشرق کی دنیا بدل کر رکھ دی۔ سب سے بڑا انقلاب یہ آیا کہ انہوں نے شعر گوئی ترک کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔

سر شیخ عبدالقادر بھی انہی دنوں لندن میں ان کے ساتھ قیام پذیر تھے۔ ایک دن اقبال نے ان سے ترکِ شعر گوئی کا ذکر کیا تو شیخ عبدالقادر نے مخالفت کی۔ آخر کار فیصلہ ہوا کہ اقبال کے وہ استاد جو گورنمنٹ کالج لاہور میں ان کو فلسفہ پڑھاتے تھے ان سے رجوع کیا جائے۔

اگر وہ اقبال کے ہمنوا ہوں تو اقبال اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنائیں اور اگر وہ ایسا کرنے کا مشورہ نہ دیں تو اقبال کو اپنے استاد کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں یہ نہ صرف اردو اور فارسی زبان کی خوش قسمتی تھی بلکہ ساری مسلم امہ کی خوش نصیبی تھی کہ پروفیسر آرنلڈ نے شیخ عبدالقادر کا ساتھ دیا اور اقبال سے کہا کہ ان کی شاعری ایک تعمیری سرگرمی ہے اور اسے جاری رہنا چاہیے!


پہلے یہ جانتے ہیں کہ اقبال نے ترکِ شعر گوئی کا ارادہ کیوں کیا تھا۔۔۔ وجہ یہ تھی کہ وہ جب اپنے ڈاکٹریٹ (Ph.D) کے مقالے کی تیاری کر رہے تھے تو ان کا دل شعر و شاعری سے اچاٹ ہو گیا تھا۔

مقالے کا موضوع تھا ’’ایران میں مابعدالطبیعات‘‘ (Metaphysics in Persia)۔۔۔ یہ مقالہ انہوں نے 1908ء میں میونخ (جرمنی) یونیورسٹی میں پیش کیا تھا جب وہ فارسی شاعری اور بالخصوص تصوف کی تاریخ اور اس کے ایرانی شاعری پر اثرات کا جائزہ لے رہے تھے تو ان پر کھلا کہ مسلم امہ کے زوال میں حافظ و خیام کی طرح کے شاعروں نے بھی ایک رول ادا کیا ہے اور ویسے بھی شاعری قصائد، غزلیات اور مرثیوں کا ایک پلندہ ہوتا ہے جس سے کچھ حاصل حصول نہیں ہوتا۔ حافظ شیراز اور عمر خیام کے خیالات کے وہ سخت ناقد تھے جبکہ برصغیر میں ان دونوں شعراء کو بہت پذیرائی حاصل تھی۔

لیکن جب آرنلڈ نے ان کو یہ کہا کہ عشقیہ موضوعات کی بجائے اگر شاعری کو قومی مقاصد کے فروغ کے لئے استعمال کیا جائے تو یہ ایک موثر اور کارگر Catalyst ہوگا تو وہ ترک شعر کے ارادے سے باز آ گئے تھے۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ پہلے اقبال کا ترکِ شعر گوئی کا ارادہ کرنا اور پھر شعر گوئی کا قصد کرنا ان کی زندگی کا اہم ترین موڑ تھا۔

وہ ایک انتہائی اقدام کا فیصلہ کرکے دوسرے انتہائی اقدام کی طرف گامزن ہوئے جو پہلے سفر سے 180 ڈگری مختلف تھا تو یہ مراجعت کوئی معمولی مراجعت نہیں تھی۔ شعر کو تعمیری سرگرمیوں کے لئے استعمال کرنے کے انقلابی خیال نے ان کے دل و دماغ میں ایک تلاطم برپا کر دیا۔ وہ ایک غلام ملک (ہندوستان) کے باشندے تھے اورآزاد ملک (انگلینڈ) میں گئے تھے۔

مسلمانوں کا عظیم الشان ’’ماضی‘‘ ان کے سامنے تھا اور غلام ’حال‘ بھی ان سے پوشیدہ نہ تھا۔ اس لئے انہوں نے جب یہ سوچا کہ اپنی سوئی قوم کو جو کبھی جاگتی تھی، دوبارہ کس طرح بیدار کیا جائے تو اس کے لئے ان کے سامنے شعر و شاعری کا ایک بڑا چیلنج ابھرا۔

انہوں نے ایک پروگرام مرتب کیا جس کا خاکہ اپنے دوست شیخ عبدالقادر کو ایک نظم کی صورت میں ہندوستان بھیجا۔(وہ اقبال سے سینئر تھے اور بیرسٹری کا امتحان پاس کرکے واپس انڈیا چلے آئے تھے۔)یہ نظم بھی بانگ درا میں موجود ہے اور ان کے قیامِ یورپ (1905ء تا 1908ء ) والے حصہ دوم میں بانگ درا میں شامل ہے۔ اس کا عنوان ہے ’’عبدالقادر کے نام‘‘ ۔۔۔ اس کا پہلا شعر ہے:


اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افقِ خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
اس نظم میں گیارہ اشعار ہیں۔ یہ گویا اقبال کا ’’11نکاتی منشور‘‘ تھا جس کو انہوں نے سامنے رکھ کر اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کو ایسا خراجِِ عقیدت پیش کیا جو رہتی دنیا تک استاد اور شاگرد کے رشتے کی عظمت کا گواہ رہے گا۔


1908ء میں جب اقبال واپس ہندوستان آئے تو ان کی دنیا بدل چکی تھی۔ مسلم تہذیب و تمدن کا عروج اور پھر اس کا زوال ان کے سامنے آئینہ تھا۔ وہ ہر وقت مسلم امہ کے سنہری دور کو یاد کرکے تڑپ تڑپ جاتے تھے۔ انہی ایام میں مسلمانوں کے انفرادی اور اجتماعی انحطاط کے اسباب بھی ان کے سامنے تھے۔ اور اس سوچ نے ان کو ’’خودی‘‘ کے فلسفے کی ایجاد پر اکسایا۔ وہ نہ صرف فلسفہ ء خودی کے موجد تسلیم کئے گے بلکہ مشرق و مغرب میں انفرادی خودی کی شکست خوردگی کے اسباب و علل اور پھر اس شکست کو فتح میں بدلنے کے اقدامات ان کے محبوب موضوعات بن گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مختصر سے پس منظر کے بعد ہم ’’شکوہ‘‘ کی تشریح کی طرف آتے ہیں۔ میں اپنے ان قارئین سے درخواست کروں گا کہ جن کے پاس سمارٹ موبائل فون ہے (اور آج بیشتر پاکستانیوں کو یہ سہولت میسر ہے)وہ اپنی گوگل بار (Bar) پر Shikwa ٹائپ کرکے Enterکریں تو وہ دیکھیں گے کہ اس شاہکار نظم پر دنیا بھر کی مختلف زبانوں میں کتنا زیادہ کام ہوا ہے۔ میں اس کی تفصیل میں تو نہیں جاؤں گا لیکن یہ گزارش ضرور کروں گا کہ وہ گوگل پر جا کر اس نظم کی قرات ضرور سنیں۔ چونکہ اس نظم کا ذخیرہ ء الفاظ، اس میں استعمال کی گئی اصطلاحات، محاورات، ضرب الامثال اور روایات کو اس خوبصورتی سے نظم کیا گیا ہے کہ اس کی سماعت، فردوسِ گوش ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا اس کی بحر اور وزن عربی بحور و اوزان کے حامل ہیں۔ اس لئے اس میں عجمی ساز کی بجائے عربی سوز کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔


اقبال کا دل زخمی ہے اور اس دلِ دیش ریش کو لئے بارگاہِ خداوندی میں حاضر ہو کر شکائتیں کر رہا ہے اور فریاد کناں ہے کہ مسلم امہ نے خدا سے کیا کیا اور خدا نے مسلمانوں کو اس کا کیا بدلہ دیا۔ یہ ایک فطری سی بات ہے کہ شکوہ کرتے کرتے جذبات آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔

اس میں حیرانی والی کوئی بات نہیں ہوتی۔ تاہم 1909ء میں جب اقبال نے یہ نظم سنائی تھی اور اس کی سینکڑوں ہزاروں کاپیاں حاضرینِ جلسہ میں تقسیم کی گئی تھیں تو بعض جید علمائے کرام اور شعرائے عظام نے اقبال پر کفر کا فتویٰ لگا دیا تھا۔

کم عقل اور کم فہم ملاؤں کے ایک مخصوص گروہ نے مساجد میں وعظ کے دوران اقبال کے شکوے کو ہدفِ تنقید بنایا اور شاعرِ مشرق کو کفر کا مرتکب قرار دیا۔ اقبال اور ان کے بہی خواہوں نے ان الزامات کو سنا اور اظہارِ افسوس کیا لیکن درد کی جس ٹیس نے اقبال کے دل و جگر کو چھلنی کرکے رکھ دیا تھا، اس کی سمجھ اس ’’گروہ‘‘ کو نہ آ سکی۔ یہ ایام اقبال پر بہت گراں گزرے۔ وہ اس زمانے میں اپنی پہلی فارسی تصنیف اسرار خودی پر کام کر رہے تھے۔

اس لئے ان پر الزامات اور اعتراضات کی جو بوچھاڑ ہوتی تھی وہ ان کے عزم کو مزید محکم کرتی جاتی تھی۔ جب ان کو ’’اسرارِ خودی‘‘ کے مسودے سے فرصت ملتی تو وہ شکوہ پر لگائے گئے اتہامات و الزامات کو سنتے اور دل آزردہ ہو جاتے۔ آخرش انہوں نے خود ہی اس شکوہ کا جواب لکھا۔

یہ دوسری شاہکار نظم تھی جو شکوہ ہی کی بحر اور وزن میں کہی گئی اور شکوہ کے چار سال بعد 1913ء میں عوام کے سامنے پیش کی گئی۔ ’’جوابِ شکوہ‘‘ کی تشریح کا وقت آئے گا تو انشاء اللہ اس پر مزید بحث کی جائے گی۔

اسرارِ خودی چونکہ 1915ء میں شائع ہوئی اس لئے خیال کیا جاتا ہے کہ جوابِ شکوہ کے خدوخال کی In-put علامہ کی فارسی تصنیف میں دیکھنے کو ملے گی۔۔۔ اب ہم ’’شکوہ‘‘ کے پہلے بند (Stanza) کی تشریح قارئین کے سامنے رکھتے ہیں۔(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -